بدلتا ہے رنگ آسماں کیسے کیسے

بعض انسان اپنا نفع نقصان جاننے کے لیے مستقبل کا زائچہ ضرور بنواتے ہیں مگر ان کی سب تدبیریں رائیگاں جاتی ہیں اور ہوتا وہی ہے جو قدرت کو منظور ہوتا ہے۔ کبھی اپنے سیاسی فائدے کے لیے بادِ مخالف کا راستہ روکا جاتا ہے اور کبھی محض دوسروں کو اذیت دینے کے لیے ایسا کیا جاتا ہے۔ یہ عام لوگ بھی کرتے ہیں اور حکمران بھی۔ پی ٹی آئی کے چیئرمین نے تین شخصیات کا کیریئر ختم کرنے کی کوشش کی مگر ان کی قسمت میں کچھ اور ہی لکھا تھا۔آج وہ تینوں شخصیات پاکستان کے سیاسی، عدالتی اور دفاعی منظر نامے پر پوری قوت کے ساتھ موجود ہیں مگر وہ سارے کردار‘ جو ان کا کیریئر ختم کرنے پر تلے ہوئے تھے‘ ایک ایک کرکے ماضی کا قصہ بن چکے ہیں۔
کون نہیں جانتا کہ 2017ء میں کچھ بڑوں کے گٹھ جوڑ نے میاں نواز شریف کو اس طرح اقتدار سے نکالا تھا کہ بعد میں انہیں جیل کی ہوا بھی کھانا پڑی تھی مگر آج میاں نواز شریف ملکی سیاست میں مکمل طور پر فعال نظر آتے ہیں۔ وہ 21 اکتوبر کو وطن واپس آ رہے ہیں اور اگر قسمت نے یاوری کی تو عین ممکن ہے کہ وہ چوتھی بار وزیراعظم بھی بن جائیں۔
پی ٹی آئی چیئرمین نے ایسا ہی کچھ ڈی جی آئی ایس آئی کے ساتھ بھی کیا تھا۔ انہیں 2018ء میں تین سال کے لیے تعینات کیا گیا تھا مگر چیئرمین پی ٹی آئی کے کہنے پر آٹھ ماہ بعد ہی تبدیل کر کے یہ عہدہ فیض حمید کو دے دیا گیا۔ سابق وزیراعظم کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک کامیاب ہوئی تو انہیں لگا کہ ہو سکتا ہے کہ سابق ڈی جی آئی نئے سپہ سالار بن جائیں۔ پی ٹی آئی چیئرمین نے ان کی تعیناتی رکوانے کے لیے اسلام آباد پر دو بار چڑھائی کی تاکہ حکومت کو چلتا کیا جائے جبکہ جلسوں میں طرح طرح کا بیانیہ بھی بنایا گیا مگر ان کے حصے میں یہ عزت لکھی ہوئی تھی۔ کوئی شخص ان کا راستہ روک سکا اور نہ ہی کوئی دیوار ان کی راہ میں حائل ہو سکی۔
تیسری شخصیت قاضی فائز عیسیٰ ہیں جو اس وقت چیف جسٹس آف پاکستان کے عہدے پر براجمان ہو چکے ہیں۔ پی ٹی آئی چیئرمین نے حکومت سنبھالنے کے کچھ ہی ماہ بعد جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور ان کی اہلیہ کے خلاف ایک صدارتی ریفرنس سپریم جوڈیشل کونسل میں بھیجا۔ سپریم کورٹ نے لگائے گئے تمام الزامات کو جھوٹ کا پلندہ قرار دیتے ہوئے صدارتی ریفرنس کو کالعدم قرار دے دیا۔ اس کے بعد رواں سال آئین کی پچاسویں سالگرہ کے موقع پر جب جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو پارلیمنٹ میں مدعو کیا گیا تو انہوں نے اس میں شرکت کی، اس موقع پر پی ٹی آئی نے ان سے استعفے کا مطالبہ کرتے ہوئے اپنے تمام الزامات کو دہرایا۔ اس معاملے میں بھی قدرت کو کچھ اور ہی منظور تھا۔ پی ٹی آئی چیئرمین کی تمام کوششیں دھری کی دھری رہ گئیں اور قاضی فائز عیسیٰ صاحب چیف جسٹس آف پاکستان بن گئے۔
اب سوا ل یہ ہے کہ سابق وزیراعظم یہ سب کام تنہا کر رہے تھے یا ان کے پیچھے کوئی اور بھی تھا؟ اس سوال کا جواب میاں نواز شریف نے دو روز قبل دیا ہے۔ انہوں نے پارٹی رہنماؤں سے خطاب میں ساری کہانی کھل کر بیان کر دی ہے۔ میاں نواز شریف نے کہا کہ ''ہمیں انتقام کی خواہش ہے نہ بدلے کی تمنا۔ چار ججوں نے بیٹھ کر کروڑوں عوام کے مینڈیٹ والے وزیراعظم کو گھر بھیج دیا۔ میری اقتدار سے بے دخلی کے پیچھے قمر جاوید باجوہ اور فیض حمید تھے اور ان کے آلہ کار ثاقب نثار، آصف سعید کھوسہ اور پانامہ بینچ تھا۔ اب مٹی پاؤ والا معاملہ نہیں چلے گا، یہ مٹی پاؤ والا معاملہ ہے ہی نہیں۔ قوم کو معلوم ہونا چاہیے کہ اس کے مجرم کون ہیں۔ قوم کو انہیں معاف نہیں کرنا چاہیے۔ ہمارا تو ایک منٹ میں احتساب ہوتا ہے۔ کیا ملک و قوم کو اس حال میں پہنچانے والوں کااحتساب بھی ہو گا؟‘‘۔ میاں نواز شریف کی تقریر سن کرمجھے حیرت ہوئی کہ انہوں نے پی ٹی آئی کے چیئرمین کا نام نہیں لیا، شاید اس لیے کہ وہ پہلے ہی جیل میں ہیں اور بہت سے سنگین مقدمات کا سامنا کر رہے ہیں۔ ان کا انجام شاید میاں نواز شریف کو سامنے نظر آ رہا ہے۔ میاں نواز شریف نے قمر جاوید باجوہ، فیض حمید، ثاقب نثار اور آصف سعید کھوسہ کے احتساب کا مطالبہ کیا ہے۔ یہاں یہ نکتہ اہم ہے کہ کیا نواز شریف ان چاروں شخصیات کا احتساب کر سکیں گے؟ اس معاملے کے دو پہلو ہیں۔ پہلا یہ کہ نواز شریف اپنی انتخابی مہم میں ان تمام کرداروں کے محاسبے کا نعرہ لگائیں اور الیکشن کے بعد سب کچھ بھول جائیں۔ دوسرا یہ کہ اگر وہ برسرِ اقتدار آتے ہیں تو ان شخصیات کا احتساب شروع کر دیں۔ دوسری صورت میں البتہ یہ خدشہ موجود رہے گا کہ کہیں ان کے ساتھ وہی سلوک نہ دہرایا جائے جو 2014ء میں روا رکھا گیا تھا۔ اُس وقت انہوں نے پرویز مشرف پر آرٹیکل چھ کے تحت مقدمہ تو دائر کر دیا تھا مگر احتساب نہیں کر سکے تھے۔ کیا ایک بار پھر پرویز مشرف والی قسط دہرائی جا سکتی ہے؟ میری ذاتی رائے میں اب کی بار ایسا نہیں ہو گا کیونکہ اس دفعہ عسکری اور عدالتی قیادت مختلف طبیعت کی حامل ہے۔ اگر مذکورہ چاروں شخصیات کے خلاف آزادانہ انکوائری میں کچھ ثبوت سامنے آتے ہیں تو ان کے احتساب میں ادارے حائل نہیں ہوں گے۔ اس کی سب سے بڑی مثال نو مئی کے واقعات ہیں۔ ان پُرتشدد واقعات میں کچھ ایکس آرمی مین کے اہلِ خانہ اور ایک فور سٹار ریٹائرڈ جنرل کی نواسی بھی شامل تھیں۔ بہت سفارشیں کی گئیں مگر سب بے سود! اگر قمر جاوید باجوہ اور فیض حمید نے کچھ غیر آئینی اقدامات کیے ہوں گے تو انہیں ضرور انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے گا۔ اب کوئی رعایت نہیں دی جائے گی۔ ایسا ہی حال جوڈیشری کا بھی ہے۔ اگر یہ ثابت ہو گیا کہ نواز شریف کی اقتدار سے بے دخلی کسی سازش کا نتیجہ تھی تو موجودہ چیف جسٹس ضرور انصاف کریں گے۔ قاضی فائز عیسیٰ صاحب بہترین ساکھ کے جج ہیں اور پی ٹی آئی بھی ان سے انصاف کی امیدیں لگائی بیٹھی ہے۔ جن صدرِ مملکت نے ان کے خلاف ریفرنس بھیجا تھا‘ انہوں نے ہی ان سے حلف لیا اور قاضی صاحب کو مبارکباد بھی دی۔ جس پی ٹی آئی نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف باقاعدہ کمپین چلائی تھی‘ اسی پی ٹی آئی نے اب ان کو تہنیتی پیغامات بھیجے ہیں اور ان سے انصاف کی توقع بھی باندھی ہوئی ہے۔
بدلتا ہے رنگ آسماں کیسے کیسے! وہ نواز شریف جو کل تک گوشۂ گمنامی میں تھے‘ آج ملکی سیاست میں ناگزیر ہو چکے ہیں۔ ان سے آس لگائی جا رہی ہے کہ وہ دوبارہ حکومت میں آنے کے بعد ملک کی کشتی کو بھنور سے نکالیں گے۔ واقفانِ حال کہتے ہیں کہ نواز شریف نے واپسی کے لیے مذکورہ چاروں شخصیات کے احتساب کی شرط رکھی تھی جسے من و عن مان لیا گیا ہے، اسی لیے وہ واپس آ رہے ہیں۔ قمر جاوید باجوہ کے کچھ ذاتی دوستوں نے میاں نواز شریف کو باجوہ صاحب کے خلاف بات نہ کرنے کا مشورہ دیا تھا جسے رد کر دیا گیا۔ میں سمجھتا ہوں کہ نوازشریف کی واپسی سے پی ٹی آئی کو بھی فائدہ ہوگا کیونکہ انہیں الیکشن کی یقین دہانی کرائی گئی ہے۔ ان کی وطن واپسی سے الیکشن کی راہ ہموار ہو جاتی ہے تو اس سے پی ٹی آئی کے وارے نیارے ہو جائیں گے۔ پی ٹی آئی اس وقت مکمل طور پر سسٹم سے باہر ہے۔ الیکشن کی صورت میں اس کی قومی و صوبائی اسمبلیوں میں موجودگی اس کی پوزیشن کو مضبوط بنائے گی اور وہ آئینی طریقے سے جدوجہد کر سکے گی۔ ہو سکتا ہے کہ کسی صوبے میں اس کی حکومت بھی بن جائے۔ پارلیمانی سیاست میں واپسی سے پی ٹی آئی کی اہمیت اور افادیت بڑھ جائے گی کیونکہ پارلیمان میں موجود پارٹیوں کے خلاف غداری کے نعرے نہیں لگائے جاتے۔ اس لیے پی ٹی آئی کو چاہیے کہ وہ الیکشن کا بائیکاٹ کرنے کے بجائے الیکشن میں بھرپور طریقے سے حصہ لے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں