سیاست اور ہمارے سماجی رویے

'اپنا گریباں چاک‘ جسٹس (ر) جاوید اقبال کی سوانح حیات ہی نہیں بلکہ ہماری قومی ضرورت بھی ہے۔ ہم ہر مسئلے پر دوسروں کو دوش دینے لگتے ہیں مگر اپنے گریبان میں نہیں جھانکتے۔ ہم حقیقت سے منہ چھپاتے ہیں اور جھوٹ کی دنیا میں رہنا پسند کرتے ہیں۔ ہم اپنے حصے کی ذمہ داریاں اٹھاتے ہیں نہ اپنے کیے پر ندامت محسوس کرتے ہیں۔ مومن خاں مومن یاد آتے ہیں:
یہ عذر امتحان جذب دل کیسا نکل آیا
میں الزام اس کو دیتا تھا قصور اپنا نکل آیا
جس ملک کی چالیس فیصد آبادی خطِ غربت سے نیچے زندگی گزار رہی ہو، جہاں مہنگائی 29 فیصد کی بلند ترین سطح پر ہو، جس ملک کی کرنسی پورے خطے میں کمزور ترین ہو، جہاں محض ایک افواہ پھیلنے سے سٹاک مارکیٹ کریش کر جاتی ہو اور لوگ ڈالر کی ذخیرہ اندوزی شروع کر دیتے ہوں، جہاں مافیاز، سمگلرز اور ذخیرہ اندوزی کرنے والے حکومتوں سے زیادہ طاقتور ہوں، جہاں ٹیکس اور بجلی چوری عروج پر ہو، جہاں وزیراعظم یا حکومت بدلنے سے ترسیلاتِ زر میں کمی آ جاتی ہو، جہاں قرضے معاف کروانے والوں میں سرِ فہرست ارب پتی افراد ہوں اور جہاں کھانے پینے کی اشیا میں سب سے زیادہ ملاوٹ کی جاتی ہو‘ وہاں معیشت سے زیادہ معاشرت میں بگاڑ ہوتا ہے۔ وہاں حکومتوں سے زیادہ عوام ذمہ دار ہوتے ہیں۔ اگر ہمیں ملک کی معاشی سمت درست کرنی ہے تو پہلے سماجی سمت ٹھیک کرنا ہو گی۔ ہمیں ملک کو سیاست پر ترجیح دینا ہو گی اور پسند‘ ناپسند سے بالاتر ہو کر سوچنا ہو گا۔ اگر ہم نے معاشی اور سماجی ڈگر تبدیل نہ کی تو ہمارا نام لیو ا بھی کوئی نہ ہو گا۔ بھوک اور نفرت کا ناگ ہمارے مستقبل کو ڈس لے گا۔
اس بات میں کیا شبہ ہے کہ ہماری ہر حکومت نااہلی، اقربا پروری اور کرپشن میں اَٹی ہوتی ہے مگر جو مسائل عام آدمی کی غفلت اور بے ایمانی کا نتیجہ ہیں انہیں کیسے نظر انداز کیا جا سکتا ہے؟ ان کی پردہ پوشی کیسے ممکن ہے؟ ہم اس بات کا واویلا کرتے ہیں کہ ہماری حکومتوں کی معاشی ترجیحات اپنے سیاسی مفادات اور بڑی کاروباری شخصیات کے گرد گھومتی ہیں مگر ہم کبھی اس بارے بات نہیں کرتے کہ کاروباری طبقہ ٹیکس چوری کیوں کرتا ہے؟ بائیس لاکھ تاجروں میں سے صرف تیس ہزار ہی کیوں انکم ٹیکس دیتے ہیں‘ باقی کیوں نہیں دیتے؟ زراعت کے شعبے سے وابستہ لوگ ٹیکس کے نام سے ہی نابلد کیوں ہیں؟ ہماری اشرافیہ صرف وہ کاروبار کیوں کرتی ہے جس میں پیسے کی فراوانی ہوتی ہے اور عوام کے لیے روزگار کے مواقع انتہائی محدود کیوں ہیں؟ ہماری کاروباری شخصیات آئی ٹی پر توجہ کیوں نہیں دیتیں اور صنعتی انقلاب کے خواب کیوں نہیں دیکھتیں؟ ہمارے ملک میں سستی کاریں کیوں نہیں بنائی جاتیں؟ سمال اور میڈیم انڈسٹری ہماری ترجیحات میں شامل کیوں نہیں ہے؟ ہمارے ہاں صرف زمینوں کا کاروبار ہی کیوں عروج پاتا ہے؟ عام آدمی ہنرمند بننے کے لیے تگ ودو کیوں نہیں کرتا؟
کیا ہم نے کبھی اس پر توجہ دی کہ ہمارے ملک میں خالص دودھ کیوں نایاب ہو چکا ہے؟ دودھ کے نام پر پانی اور پاؤڈر والے والے محلول کی فراوانی کیوں ہے؟ گھی، چینی، مسالے اور دالیں ملاوٹ شدہ کیوں ہیں؟ ہمارے ہاں گوشت پر پانی چھڑک کر کیوں بیچا جاتا ہے اور سبزیاں کیمیکل والے زہریلے پانی سے کیوں کاشت ہوتی ہیں؟ ریڑھی والے سے لے کر دکاندار تک اور دکاندار سے لے کر فیکٹری مالک تک‘ کم تولنے کی روش یکساں کیوں ہے؟ پینے کا صاف پانی اس قدر مہنگا کیوں ہے؟ ہم اپنی گلیوں اور محلوں کی صفائی ستھرائی پر توجہ کیوں نہیں دیتے؟ کیا سارے کام حکومتوں نے ہی کرنے ہوتے ہیں اور کیا معاشرے میں بسنے والے افراد کی کوئی ذمہ داری نہیں ہوتی؟
ایک زمانہ تھا کہ جب ملک میں دائیں اور بائیں بازو کے نظریات کی لڑائی تھی۔ اس کشمکش سے بہت س مثبت رجحانات نے جنم لیا مگر پھر دیکھتے ہی دیکھتے مذہب اور فرقے کے نام پر اختلافات پروان چڑھنے لگے۔ انتہا پسندانہ سوچ نے سماج کو کھوکھلا کر دیا۔ اب صورتحال اس سے بھی زیادہ تشویشناک ہو چکی ہے۔ گزشتہ کچھ سال سے سیاسی انتہاپسندی نے ہر شعبے میں پنجے گاڑے ہوئے ہیں جس سے ملک کی بنیادیں ہی ہل کر رہ گئی ہیں۔ اس قدر تقسیم اور افراتفری پہلے کبھی نہیں دیکھی گئی اور اس کی وجہ سیاسی نفرت اور انتہا پسندی ہے۔ اس شدت پسندی کو سوشل میڈیا ایندھن مہیا کرتا ہے۔ جس کے منہ میں جو بات آتی ہے‘ وہ کہہ دیتا ہے اور یہ تک نہیں سوچتا کہ اس کا عام آدمی پر کیا اثر پڑے گا۔ بڑے بڑے سیاسی رہنما جھوٹ کی آبیاری کرتے ہیں، مخالفین کے خلاف پروپیگنڈا کرتے ہیں، جھوٹ کو سچ اور سچ کو جھوٹ بنا کر پیش کرتے ہیں۔ کبھی سوشل میڈیا پر ہنڈی کے ذریعے پیسے بھیجنے کی ترغیب دی جاتی ہے اور کبھی بل جمع نہ کرانے کے اعلانات ہوتے ہیں۔ کبھی سیاسی مخالفین کی حکومت کو ٹیکس نہ دینے کے لیے عوام کو اکسایا جاتا ہے اور کبھی جھوٹے الزامات کی بارش کی جاتی ہے۔ کبھی ملک کی معیشت بارے افواہیں پھیلائی جاتی ہیں اور کبھی عالمی اداروں کو کہا جاتا ہے کہ قرضہ مت دیں حکمران طبقہ کھا جائے گا۔ کوئی جماعت اپنے سیاسی فائدے کے لیے قبل از وقت اسمبلیاں توڑ دیتی ہے اور کوئی پارٹی اپنے سیاسی مفادات کے لیے الیکشن ہی سے فرار اختیار کر لیتی ہے۔ اس سیاسی افراتفری سے ملک کو کتنا نقصان ہوتا ہے اور معیشت کو کیا قیمت چکانا پڑتی ہے‘ اس سے کسی سیاستدان، کسی سیاسی جماعت کو کوئی غرض نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ملک دھیرے دھیرے تباہی کے دہانے پر آ چکا ہے۔ اگر ہم نے اب بھی آنکھیں نہ کھولیں تو پھر سوائے نقصان اور پچھتاوے کے کچھ نہیں بچے گا۔ اگر ہم مہنگائی ختم کرنا چاہتے ہیں، بے روزگاری کا ر استہ روکنے میں سنجیدہ ہیں، کاروباری ترقی کے خواہاں ہیں، سماجی بہبود پر یقین رکھتے ہیں اور بڑھتی غربت کے آگے بند باندھنا چاہتے ہیں تو پھر اپنے سماجی رویے تبدیل کرنا ہوں گے، ادارہ جاتی اصلاحات کو خو ش آمدید کہنا ہو گا۔ ہمیں مٹھی بھر اشرافیہ کے بجائے نو کروڑ سے زائد غریب افراد کا سوچنا ہو گا۔ اگر ہمارے معاشی ماہرین پالیسیاں بنانے سے قاصر ہیں تو عالمی بینک کے مشوروں ہی پر عمل کر لیں۔
ورلڈ بینک نے پاکستان کی اگلی حکومت کے لیے تمام سٹیک ہولڈرز کی مدد سے تیار کردہ پالیسی گائیڈ لائن کا اجرا کیا ہے جس میں غیر پائیدار مالیاتی صورتحال،کم انسانی ترقی، زراعت، توانائی اور نجی شعبہ جات کو ضابطے میں لانا اور ان شعبوں میں اصلاحات کو آئندہ حکومت کے لیے ترجیح قرار دیا گیا ہے۔ عالمی بینک نے زور دیا ہے کہ پاکستان زراعت اور ریئل اسٹیٹ پر ٹیکس لگانے کے لیے فوری اقدامات کرے اور معاشی استحکام کے لیے جی ڈی پی کے سات فیصد کے برابر مالیاتی ایڈجسٹمنٹ کرتے ہوئے اپنے بے جا اخراجات کم کرے۔ یہی نہیں‘ جی ڈی پی کے تناسب سے ٹیکس میں فوری طور پر پانچ فیصد اضافہ کرنے اور اخراجات کو جی ڈی پی کے تقریباً 2.7 فیصد تک کم کرنے کی کوشش کرے۔ عالمی بینک نے انکشاف کیا ہے کہ گزشتہ مالی سال میں غربت 39.4 فیصد تک پہنچ چکی اور مزید سوا کروڑ افراد غربت کے جال میں پھنس چکے ہیں۔ گزشتہ پانچ سالوں میں تقریباً چالیس فیصد بچے غذاکی کمی کا شکار ہیں اور دو کروڑ تین لاکھ بچے اس وقت سکولوں سے باہر ہے، یہ تعداد دنیا بھر میں سب سے زیادہ ہے۔ کیا یہ اعداد و شمار ہمیں بطور قوم جگانے کے لیے کافی نہیں ہیں؟ اگر عام آدمی کی سوچ تبدیل ہو گئی تو حکمرانوں کے لیے رویے کیسے نہیں بدلیں گے؟ اگر ہم اندھی تقلید کرتے رہے اور حکمرانوں کو ان کی صلاحیت اور پرفارمنس پر ووٹ نہ دیے تو حالات کا جبر ہمیں نگل لے گا۔ ووٹ اس کو دیں جو آپ کے ووٹ کا صحیح حقدار ہو، جو آپ کے مسائل حل کر سکتا ہو، پھر وہ پی ٹی آئی ہو یا مسلم لیگ (ن)، پیپلزپارٹی ہو یا کوئی اور جماعت۔ اس کا فیصلہ خود عوام نے کرنا ہے۔ اپنے سیاسی فہم اور زمینی حقائق کو بروئے کار لائیں‘ آپ کو جواب مل جائے گا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں