مرا سکوت مجھے سخت مجرمانہ لگا

شیخ سعدی کا قول ملاحظہ کریں ''سانپ پھن پھیلائے کھڑا ہو تو راستہ بدلنے میں ہی عافیت ہوتی ہے اور جو پھن پھیلائے سانپ کو کچلنے کی خواہش کرتے ہیں وہ اپنی زندگی خطرے میں ڈالتے ہیں‘‘۔ میاں نواز شریف کا مصمم ارادہ تھا کہ وہ انتخاب سے پہلے احتساب چاہتے تھے مگر ایسا ہوتا دکھائی نہیں دیتا۔ میاں صاحب کے جذبات کا ریلا بے قابو ہونے ہی والا تھا کہ اس کے آگے بند باندھ دیا گیا۔ الفاظ کا لاوا پھٹنے سے قبل ہی چپ کی وادیوں میں اتر گیا۔ اب چاروں طرف سکوت ہی سکوت ہے، خاموشی ہی خاموشی اور سناٹا ہی سناٹا۔ احمد فراز یاد آتے ہیں:
اس عہدِ ظلم میں مَیں بھی شریک ہوں جیسے
مرا سکوت مجھے سخت مجرمانہ لگا
جب سے میاں نواز شریف کی واپسی کا اعلان ہوا ہے ان کی جماعت میں بیانیے کی جنگ جاری ہے جو اب فیصلہ کن مرحلے میں داخل ہو چکی ہے۔ طویل مباحثے کے بعد مسلم لیگ (ن) نے فیصلہ کیا ہے کہ میاں نواز شریف کا بیانیہ مزاحمت نہیں‘ مفاہمت ہو گا۔ ملک کے موجوہ حالات انتقامی سیاست کا نتیجہ ہیں اس لیے مستقبل میں انتقامی سیاست اور مقتدرہ سے ٹکراؤ کی پالیسی سے گریز کیا جائے گا۔ مسلم لیگ (ن) کی پہلی ترجیح پاکستان کو معاشی گرداب سے نکالنا ہو گی، اس لیے صرف معاشی ایجنڈے پر فوکس کیا جائے گا۔ یہی نہیں‘ ملک کے بڑے مسائل کے حل کے لیے تمام اداروں اور سٹیک ہولڈرز کے ساتھ مل کر چلنے کا بھی فیصلہ کیا گیا ہے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ مسلم لیگ (ن) اس نتیجے پر پہنچی کیسے؟ میاں نواز شریف تو قمر جاوید باجوہ، فیض حمید، ثاقب نثار اور آصف سعید کھوسہ کے احتساب کا اعلان کر چکے تھے، انہوں نے تو برملا کہا تھا کہ احتساب ملک کے مستقبل کے لیے ناگزیر ہے۔ پھر ایسا کیا ہوا؟ وہ صرف ایک تقریر کرنے کے بعد ہی مکر کیوں گئے؟ اگر احتساب کے عمل کو آگے نہیں بڑھانا تھا تو پھر مذکورہ شخصیات پر الزامات کیوں لگائے گئے؟ بیانیے کے تبدیلی کے پیچھے کوئی دباؤ تھا یا پھر احتساب کا نعرہ میاں نواز شریف کی ذاتی خواہش تھی؟ واقفانِ حال کہتے ہیں کہ نواز شریف اب بھی یہی سمجھتے ہیں کہ باجوہ صاحب، فیض حمید، ثاقب نثار اور آصف سعید کھوسہ کا احتساب ضروری ہے، ماضی کے داغ مٹائے بغیر آگے بڑھنا ناممکن ہے۔ یہی وجہ ہے کہ انہوں نے وطن واپسی سے قبل ہی اپنی تقریروں میں احتساب کا اعلان کر دیا۔ جیسے ہی یہ تقریر نشر ہوئی شہبازشریف صاحب کو ''پیغامات‘‘ موصول ہونا شروع ہو گئے۔ انہیں تشویش ہوئی اور وہ فوراً ہی لندن چلے گئے۔ شہباز شریف کی یوں اچانک روانگی سب کے لیے حیران کن تھی کیونکہ وہ دو روز قبل ہی لندن سے واپس آئے تھے۔ شہباز شریف نے لندن جا کر اپنے بھائی کو پیغام دیا کہ وہ وہی غلطی مت کریں جو پی ٹی آئی کے چیئرمین نے کی تھی۔ ایسا نہ ہو کہ مقبولیت تو مل جائے مگر قبولیت کوسوں دور چلی جائے۔ ایسا نہ ہو کہ الیکشن سے پہلے سازگار ہوا بادِ مخالف میں بدل جائے اور پوری جماعت ہاتھ ملتی رہ جائے۔
شہباز شریف نے میاں نواز شریف کو سمجھایا کہ اب ہمارے پاس دو راستے ہیں؛ سیاسی لڑائی لڑ لیں یا پھر اقتدار کے سنگھاسن پر براجمان ہو جائیں۔ اگر ہم ماضی کے کرداروں کے احتساب کا نعرہ لگا کر سیاسی لڑائی لڑیں گے تو اقتدار ہاتھ سے بہت دور چلا جائے گا اور اگر مفاہمت کا راستہ اپنا کر اقتدار کی منزل عبور کر لیتے ہیں تو اس کے بعد ہمارے پاس دو آپشنز ہوں گے۔ احتساب کی دبی ہوئی چنگاری کو ہوا دیں اور پھر وہی سلوک دہرایا جائے‘ پرویز مشرف پر آرٹیکل چھ کا مقدمہ بنانے کے بعد جو سب کچھ ہوا تھا، یعنی اقتدار ہمارے پاس ہی ہو مگر اختیار کسی اور کے پاس چلا جائے اور پھر 1993ء، 1999ء اور 2017ء والی تاریخ دہرائی جائے۔ جبکہ دوسرا آپشن ٹکراؤ کی پالیسی سے اجتناب کا ہے۔ اگر احتساب اور ٹکرائو سے گریزاں رہیں گے اور معیشت کا ایجنڈا ہماری ترجیح ہو گا جس میں عوام اور پارٹی‘ دونوں کا فائدہ ہے۔ اس ایک فیصلے سے ملک میں سیاسی استحکام آئے گا، معیشت کا پہیہ چلے گا، مہنگائی کا عذاب کم ہو گا، کاروبار کے مواقع بڑھیں گے اور سب سے بڑھ کر‘ عوام میں کھوئی ہوئی ساکھ بحال ہو جائے گی۔ اسحاق ڈار کے بارے میں بتایا جا رہا ہے کہ وہ پہلے میاں نواز شریف کے بیانیے کے حامی تھے مگر اس بار انہوں نے بھی شہباز شریف کی ہمنوائی کی ہے۔ سرِدست نواز شریف صاحب نے اپنے رفقا کی بات مان لی ہے مگر وہ اپنا بیانیہ یکسر تبدیل نہیں کریں گے۔ وہ وطن واپسی پر اپنی تقریروں میں مذکورہ شخصیات کے سیاسی ''کارناموں‘‘ کا ضرور ذکر کریں گے اور پھر معاشی ایجنڈا پیش کریں گے۔ وہ ماضی کی کارکردگی کو عوام کے سامنے رکھیں گے اور کہیں گے کہ انہیں صرف ان کے تین ادوار ہی پر پرکھا جائے۔ شاہد خاقان عباسی کی حکومت اور شہباز شریف کی پی ڈی ایم حکومت سے ان کا کوئی لینا دینا نہیں ہے۔ ان حکومتوں میں مسلم لیگ (ن) ضرور حصہ دار تھی مگر نواز شریف نے ان حکومتوں کو لیڈ نہیں کیا، اس لیے نواز شریف کی کارکردگی کا موازنہ کرنا ہے تو صرف ان کے تین ادوارِ حکومت ہی پر فوکس کیا جائے۔
اسی ماہ میاں نواز شریف کی وطن واپسی ہو رہی ہے اور بیانیے کی تبدیلی کے بعد ٹکرائو کے امکانات کم اور ان کے برسرِ اقتدار آنے کے امکانات زیادہ ہو گئے ہیں۔ وہ ہرگزرتے دن کے ساتھ مضبوط ہو رہے ہیں۔ اس کی وجہ یہ بھی ہے کہ نواز شریف کے سب سے بڑے مخالف‘ چیئرمین پی ٹی آئی کمزور سے کمزور تر ہو رہے ہیں۔ ان کے گرد گھیرا مزید تنگ ہو چکا ہے۔ وہ توشہ خانہ کیس کے بعد کئی دیگر مقدمات میں بھی سزایابی کے قریب پہنچ چکے ہیں۔ چند روز قبل لاہور پولیس نے نو مئی کے گیارہ مقدمات میں چالان دہشت گردی کی عدالت میں جمع کرایا، ان کیسز میں چیئرمین پی ٹی آئی کو قصور وار ٹھہرایا گیا ہے۔ یہ مقدمات انتہائی خطرناک نوعیت کے ہیں کیونکہ ان میں بغاوت اور مجرمانہ سازش کی دفعات بھی شامل کی گئی ہیں جن کی سزا عمر قید، قید بامشقت اور پھانسی ہے۔ یہی نہیں‘ دو دن پہلے ایف آئی اے نے سائفر کیس کا چالان بھی خصوصی عدالت میں جمع کرا دیا جس میں سابق وزیراعظم عمران خان اور شاہ محمود قریشی کو قصوروار قرار دیا گیا ہے اور عدالت سے سزا دینے کی استدعا کی گئی ہے۔ چالان میں کہا گیا ہے کہ چیئرمین پی ٹی آئی نے سائفر اپنے پاس رکھا اور سٹیٹ سیکرٹ کا غلط استعمال کیا۔ سائفر کی کاپی سابق وزیراعظم عمران خان کے پاس پہنچی مگر واپس نہیں کی گئی۔ شاہ محمود قریشی نے چیئرمین پی ٹی آئی کی معاونت کی۔ چالان میں 27 گواہوں کے دفعہ 161 کے بیانات جبکہ مبینہ وعدہ معاف گواہ اعظم خان کا دفعہ 164 کا بیان بھی منسلک کیا گیا ہے۔
اس مقدمے میں آفیشل سیکریٹ ایکٹ کی شق 5 اور 9 جبکہ پی پی سی کی دفعہ 34 شامل ہے۔ ذرائع کے مطابق شق پانچ چیئرمین پی ٹی آئی کے لیے اور شق نو اور دفعہ 34 شاہ محمود قریشی کے لیے ہے۔ یہ کیس انتہائی سنگین نویت کا ہے کیونکہ اس میں سزا دو سال سے لے کر چودہ سال تک ہے۔ سائفر کیس اب آخری مرحلے میں داخل ہو چکا ہے۔ چند دنوں میں فردِ جرم عائد ہو جائے گی اور پھر ایک ماہ میں اس کیس کا فیصلہ ہو جائے گا۔ قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر اس کیس میں ملزمان کو سات سال یا زیادہ کی قید سنائی جاتی ہے تو پھر اعلیٰ عدالتوں سے سزا معطل ہونا تو دور‘ ضمانت ملنا بھی محال ہو جائے گا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں