نئی سیاسی جماعت کی ضرورت؟

خواہشات بے لگام ہو جائیں تو سمجھ بوجھ کمتر ہو جاتی ہے، قوتِ فیصلہ ساتھ چھوڑ دیتی ہے اور انسان خود کو افلاطون کا ہم پلہ سمجھنے لگتا ہے۔ یہ انسانی فطرت ہے اور اس سے لڑا نہیں جا سکتا۔ سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی، مفتاح اسماعیل اور مصطفی نواز کھوکھر اگر نئی سیاسی جماعت کے قیام کا خواب دیکھ رہے ہیں تو اس میں برائی کیا ہے؟ خواب دیکھنا سب کا حق ہے اور اپنی صلاحیتو ں کا لوہا منوانا وقت کی ضرورت۔ مسئلہ یہ نہیں کہ شاہد خاقان عباسی نئی سیاسی پارٹی بنانے کے خواہاں کیوں ہیں، اختلاف اس بات پہ ہے کہ وہ خود بھی کنفیوژن کا شکار ہیں۔ وہ ایک قدم آگے بڑھانے کے بعد دو قدم پیچھے ہٹ جاتے ہیں۔ وہ چاہ کر بھی مسلم لیگ (ن) کو چھوڑ نہیں پا رہے۔ وہ اختلافات کے باوجود نئی جماعت کے قیام کا اعلان کرنے سے قاصر ہیں۔ وہ شہبازشریف اور مریم نواز کی قیادت میں کام کرنے سے صاف انکار کے بعد بھی میاں نواز شریف سے الگ نہیں ہونا چاہتے۔ داغ دہلوی کا ایک شعر عباسی صاحب کی نذر :
خوب پردہ ہے کہ چلمن سے لگے بیٹھے ہیں
صاف چھپتے بھی نہیں سامنے آتے بھی نہیں
شاہد خاقان عباسی کا ماننا ہے کہ ملک کو ایک نئی سیاسی جماعت کی ضرورت ہے۔ مسلم لیگ (ن) سمیت تمام سیاسی جماعتیں ملک کے مسائل حل کرنے میں ناکام ہو چکی ہیں۔ یہ پارٹیاں عوام کو مہنگائی کے گرداب سے نکال سکی ہیں نہ روزگار مہیا کر سکی ہیں۔ معیشت کو ٹھیک کر سکی ہیں نہ امن و امان کی صورتحال کو بہتر بنا سکی ہیں، صنعتوں کوفروغ دے سکی ہیں نہ زراعت کے شعبے کو ترقی مل سکی ہے، برآمدات میں اضافہ ہوا ہے نہ زرمبادلہ کے ذخائر بڑھ سکے ہیں۔ ملک میں ہر گزرتے دن کے ساتھ کرپشن بڑھتی جا رہی اور خزانہ خالی ہوتا جا رہا ہے۔ ان کا خیال ہے کہ سیاسی جماعتوں میں جمہوریت نہ ہونے کی وجہ سے پارلیمنٹ میں جمہوریت آ سکی نہ سیاسی جماعتیں ادارہ ہی بن سکیں۔ یہ نظام اب تباہ حال ہے اور ڈِلیور کرنے سے قاصر ہے۔ اس میں کیا شبہ ہے کہ تمام حکومتیں ملک کے مسائل حل کرنے میں ناکام رہی ہیں۔ پیپلز پارٹی ہو یا مسلم لیگ (ن)، تحریک انصاف ہو یا آمرانہ حکومتیں۔ کوئی ایک بھی عوام کی امیدوں پر پورا نہ اتر سکی۔ کسی وزیراعظم کی نااہلی آڑے آئی اور کسی کو آمروں نے چلنے نہ دیا،سیاسی حکومتوں آگے بند باندھے گئے، کسی وزیراعظم کو پھانسی پر چڑھا دیا گیا اور کسی کو جلاوطن ہونا پڑا اور کسی کو عدالتوں کے ذریعے نااہل ہونا پڑا۔ سرِدست سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ معیشت کے مسائل حل کیسے ہوں گے؟ سیاسی عدم استحکام کا خاتمہ کیسے ممکن ہے؟ ملک میں الیکشن کی فضا کیسے قائم ہو گی؟ کون سی جماعت الیکشن میں حصہ لے گی اور کون سی پارٹی کا نشان بیلٹ پیپر پر نہیں ہو گا؟ اس وقت ملک میں نئی سیاسی جماعت کے قیام کی ضرورت ہے بھی یا نہیں؟ نئی سیاسی جماعت دوسری پارٹیوں سے کیسے مختلف ہو گی؟ عوام نئی جماعت کو قبول کریں گے یا نہیں؟ نوجوان ووٹرز اپنی توجہ نئی جماعت کی جانب مبذول کریں گے یا نہیں؟ اور سب سے بڑھ کر‘ نئی سیاسی جماعت مقبولیت کی سیاسی دوڑ میں شامل ہو گی یا قبولیت کے پیچھے بھاگتی رہے گی؟ کیا نئی سیاسی جماعت کے علمبردار ان سوالات کے جوابات دیں گے؟
میں سمجھتا ہوں کہ اس وقت نئی سیاسی جماعت کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ حال ہی میں دو سیاسی جماعتوں کا قیام عمل میں آیا ہے۔ جس میں جہانگیر خان ترین کی استحکام پاکستان پارٹی اور پرویز خٹک کی پاکستان تحریک انصاف پارلیمنٹیرینز شامل ہیں۔ نئی سیاسی جماعت کے متقاضی ذرا غور کریں کہ کیوں ان جماعتوں کو عوامی پذیرائی نہیں مل سکی؟ الیکٹ ایبلز کی کثیر تعداد کے باوجود یہ جماعتیں تاحال غیر مقبول کیوں ہیں؟ عوام انہیں دل میں جگہ دینے کو تیار کیوں نہیں؟ ملک بھر میں اس وقت بھی سینکڑوں سیاسی جماعتیں الیکشن کمیشن کے پاس رجسٹرڈ ہیں مگر ان میں کارآمد کتنی ہیں؟ چھہتر برسوں میں صرف تین جماعتیں ایسی ہیں جن کا ووٹ بینک پورے ملک میں موجود ہے، درجن بھر جماعتوں کی پہچان علاقائی نوعیت کی ہے اور باقی ماندہ کا ہونا‘ نہ ہونا ایک برابر ہے۔ اگر عباسی صاحب کو لگتا ہے کہ پی ٹی آئی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے‘ اس کی لیڈرشپ جیلوں میں بند ہے اور بیشتر ٹکٹ ہولڈرز پارٹی کو خیرباد کہہ چکے ہیں‘ اس لیے عوام ان کو خان صاحب کے متبادل کے طور پر انہیں قبول کر لیں گے تو یہ ان کی خام خیالی ہے۔ پورا ملک اس وقت شدید سیاسی تقسیم کا شکار ہے، پی ٹی آئی کے ووٹرز نے اب ورکرز کا روپ دھار لیا ہے وہ کسی صورت عباسی صاحب کو ووٹ نہیں دیں گے۔
میں سمجھنے سے قاصر ہوں کہ شاہد خاقان عباسی جیسے جہاندیدہ سیاستدان اور ان کے رفقا کو نئی سیاسی پارٹی بنانے کا خیال کیسے آیا؟ کیا کسی طرف سے اشارہ کیا گیا ہے یا پھر وہ خو د ہی مفروضوں کی بنیاد پر ایسا سوچ رہے ہیں؟ اگر وہ کسی اور کی منشا پر نئی سیاسی جماعت کی داغ بیل ڈال رہے ہیں تو مجھے ایک التجا کرنی ہے۔ سیاسی جماعت ضرور بنائیں مگر خدارا! پی ٹی آئی کا تجربہ دہرانے کی ضرورت نہیں۔ مقتدر حلقوں میں برسوں پی ٹی آئی کو حکومت میں لانے کی منصوبہ بندی کی گئی مگر حکومت چلانے کا خیال انہیں نہیں آیا۔ جب 2018ء میں پی ٹی آئی برسر اقتدار آئی تو محسوس ہوا کہ وہ سیاستدان تو پارٹی میں شامل ہی نہیں جو حکومت چلانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ مگر تب کیا ہو سکتا تھا! پی ٹی آئی نے حکومت تو بنا لی مگر پونے چار سال تک اسے چلانے کی صلاحیت سے محروم رہی۔ اگر سیاست کے بڑے کھلاڑی شاہد خاقان عباسی پر دستِ شفقت رکھ رہے ہیں تو پھر اہلیت کو ضرور مدِنظر رکھیں۔ دوسری طرف اگر نئی جماعت بنانے کا منصوبہ شاہد خاقان عباسی، مفتاح اسماعیل اور مصطفی نواز کھوکھر کا اپنا ہے تو پھر اس کا کوئی جواز نظر نہیں آتا۔ یہ تینوں یقینا بہت قابل سیاستدان ہیں مگر عوامی مقبولیت کے معیار پر پورا نہیں اترتے۔ شاہد خاقان عباسی سابق وزیراعظم ہوتے ہوئے بھی 2018ء کے الیکشن میں مری کے اپنے آبائی حلقے سے ہار گئے تھے اور پھر مسلم لیگ (ن) نے انہیں اندرون لاہور سے حمزہ شہباز کی خالی کردہ سیٹ سے الیکشن میں کامیاب کرایا تھا۔ اس سے پہلے بھی وہ پرویز مشرف دور میں الیکشن ہار چکے ہیں۔ مفتاح اسماعیل بنیادی طور پر ٹیکنوکریٹ ہیں مگر انہوں نے دو بار الیکشن میں حصہ لیا اور دونوں بار جیت سے دور رہے۔ مصطفی نواز کھوکھر نے گزشتہ چار انتخابات میں حصہ لیا مگر چاروں بار شکست ہی ان کا مقدر ٹھہری۔ پیپلز پارٹی نے انہیں سندھ سے سینیٹر بنایا مگر وہ اس کی مدت بھی پوری نہ کر سکے اور مستعفی ہو گئے۔ سوال یہ ہے کہ جو رہنما بڑی سیاسی جماعتوں کے ٹکٹ پر بھی اپنے حلقوں میں کامیاب نہیں ہو سکے‘ وہ اپنی الگ پارٹی کیسے بنا سکتے ہیں؟ ان کے ساتھ کون سے چوٹی کے سیاستدان شامل ہوں گے؟ وہ حکومت بنائیں گے کیسے اور چلائیں گے کیسے؟ لہٰذا نئی پارٹی بنانے کے بجائے انہیں اپنی اپنی جماعتوں میں رہ کر ملک کی بہتری کے لیے کام کرنا چاہیے، اسی میں ان کا فائدہ ہے، ورنہ نئی جماعت بنانے کا خیال کتنے ہی مقبول اور معقول لوگوں کے دل میں ابھرتا ہے مگر وہ ایسا کرنے سے گریز کرتے ہیں، کیوں؟ کیونکہ زمینی حقائق جانے بغیر نئی جماعت بنانا خود فریبی کے سوا کچھ نہیں۔ اس وقت زمینی حقائق یہ ہیں کہ خاص وعام میں پی ٹی آئی مقبول ترین جماعت ہے اور اس کی مقبولیت میں تاحال کوئی کمی نہیں آ رہی۔
چند روزقبل شاہد خاقان عباسی نے میاں نواز شریف سے لندن میں ملاقات کی تھی۔ دونوں رہنماؤں کے بیچ کیا طے ہوا‘ مصدقہ اطلاعات اس حوالے سے سامنے نہیں آ سکیں مگر ایک بات طے ہے کہ جب عباسی صاحب نواز شریف سے پارٹی چھوڑنے کی اجازت مانگ رہے ہوں گے تو انہیں چودھری نثار علی خاں ضرور یاد آئے ہوں گے۔ عباسی صاحب کو وزیراعظم بنانے کیلئے نواز شریف نے چودھری نثار کی قربانی دی تھی مگر انہوں نے نئی سیاسی جماعت بنائی نہ خان صاحب کی خواہش اور اصرار کے باوجودپی ٹی آئی میں شمولیت اختیار کی۔ اس میں عباسی صاحب کیلئے بھی سبق ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں