مائنس ون یا مائنس ٹو ؟

مائنس وَن ہو چکا، مائنس ٹو کی چاپ دور سے سنائی دے رہی ہے۔ جیسے جیسے حالات کروٹ لے رہے ہیں‘ ویسے ویسے امکانات بڑھ رہے ہیں کہ پی ٹی آئی چیئرمین کے بعد مسلم لیگ نواز کے قائد بھی الیکشن کی دوڑ سے باہر ہو جائیں گے۔ وہ وطن واپسی کے بعد بھی الیکشن لڑنے کے لیے اہل نہیں قرار پائیں گے۔ اس کی وجہ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کا فیصلہ ہے نہ سیاست سے تاحیات نااہلی‘ انتخابات میں حصہ نہ لینے کا سب سے بڑا عذر وقت ہے جو ان کی مٹھی سے ریت کی مانند پھسلتا جا رہا ہے۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ انہوں نے واپسی میں تھوڑی تاخیر کردی ہے۔ انہیں انتخابات میں حصہ لینا تھا تو پھر چھ ماہ قبل وطن لوٹ آنا چاہیے تھا۔
ایک سابق وزیراعظم اس وقت جیل میں ہیں اور درجنوں مقدمات کا سامنا کر رہے ہیں۔ وہ سرِ دست الیکشن لڑنے کے لیے اہل نہیں ہیں کیونکہ وہ سزا یافتہ ہیں۔ دوسری طرف میاں نواز شریف بھی دو مقدمات میں سزا یافتہ ہیں اور ان کی آمد آمد ہے۔ وہ لندن سے سعودی عرب پہنچ چکے ہیں اور کچھ دن بعد دبئی چلے جائیں گے‘ جہاں سے اکیس تاریخ کو ان کی واپسی ہو گی۔ مسلم لیگ (ن) دعویٰ کر رہی ہے کہ دس لاکھ افراد ان کے استقبال کے لیے مینارِ پاکستان کے گریٹر اقبال پارک میں اکٹھے ہوں گے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ موجودہ حالات میں لاکھوں افراد کو جلسہ گاہ میں لے کر آنا مسلم لیگ (ن) کے لیے ممکن ہے بھی یا نہیں؟ کیا شہباز حکومت کی بدترین معاشی کارکردگی کے بعد ایسا ہو سکے گا؟ کیا میاں نواز شریف عوامی سطح پر آج بھی اُتنے ہی مقبول ہیں جتنے ماضی میں ہوا کرتے تھے؟ کیا عوام ان کے بیانیے کو شرفِ قبولیت بخشیں گے؟ میں سمجھتا ہوں کہ اکیس اکتوبر کا جلسہ مسلم لیگ (ن) اور میاں نواز شریف کی سیاست کے لیے بہت اہم ہے۔ اگر وہ اپنے اہداف حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئے تو اس کے اثرات دوررس ہوں گے اور مسلم لیگ (ن) کی سیاست کا نیا باب شروع ہو جائے گا۔ ہمارا سماجی مسئلہ ہے کہ ہم دیکھا دیکھی بہت سے کام کرتے ہیں۔ اگر (ن) لیگ عوام میں یہ پیغام پہنچانے میں کامیاب ہو جاتی ہے کہ میاں نواز شریف آج بھی ماضی کی طرح مقبول ہیں تو پھر الیکشن میں کامیابی یقینی بنائی جا سکتی ہے۔ دوسری طرف اگر معاملہ الٹ ہو گیا اور اہالیانِ پنجاب سڑکوں پر نہ نکلے تو مسلم لیگ (ن) کی سیاست کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچے گا۔ اکیس تاریخ کا استقبالی جلسہ بہت بڑا امتحان ہے اور یہ امتحان مسلم لیگ (ن) کے لیے پاس کرنا بہت ضروری ہے۔ آپ کو یاد ہو گا کہ 30 اکتوبر 2011ء سے قبل پی ٹی آئی کی سیاسی حیثیت نہ ہونے کے برابر سمجھی جاتی تھی مگر جیسے ہی لاہور کا تاریخی جلسہ ہوا‘ اس کے وارے نیارے ہو گئے۔ دیکھتے ہی دیکھتے پی ٹی آئی کی مقبولیت کو پَر لگ گئے۔ اگر مسلم لیگ (ن) جلسے میں لاکھوں افراد کو لے آئی تو میں سمجھتا ہوں کہ 2011ء کی تاریخ دہرائی جا سکتی ہے۔ (ن) لیگ کے مردہ گھوڑے میں جان پڑ سکتی ہے اور مقبولیت کا ٹمٹماتا ہوا چراغ ایک بار پھر روشن ہو سکتا ہے۔
کچھ حلقوں کو لگتا ہے کہ سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کے فیصلے کے بعد میاں نواز شریف کی واپسی تاخیر کا شکار ہو جائے گی مگر میں ان سے اتفاق نہیں کرتا۔ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کے فیصلے کا میاں نوازشریف پر کوئی اثر نہیں ہو گا۔ اس فیصلے سے سپریم کورٹ نے جہاں پارلیمنٹ کی بالادستی قائم کی ہے‘ وہیں اس بحث کو بھی جنم دیا ہے کہ آرٹیکل 184/3 کے مقدمات میں اپیل کا حق ماضی سے نہ ملنے کے باعث میاں نواز شریف واپس نہیں آئیں گے۔ وہ سیاست سے تاحیات نااہل ہیں اور اب ہمیشہ نااہل ہی رہیں گے۔ میں سمجھتا ہوں کہ اس فیصلے سے میاں نواز شریف کو فرق نہیں پڑے گا کیونکہ الیکشن ایکٹ میں ترمیم سے آئین کے آرٹیکل 62 ون ایف کے تحت نااہلی کی مدت پانچ سال مقرر کر دی گئی ہے۔ ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ یہ قانون سازی سپریم کورٹ ہی کے حکم پر ہوئی تھی۔ اپریل 2022ء میں صدرِ مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے اس وقت کے وزیراعظم کی ایڈوائس پر ایک صدارتی ریفرنس سپریم کورٹ بھیجا تھا اور پی ٹی آئی کے منحرف ارکان بارے رائے طلب کی تھی جس میں سپریم کورٹ سے چار سوالوں کے جواب پوچھے گئے تھے۔ سپریم کورٹ نے تین سوالوں کے جواب دے دیے تھے اور آرٹیکل 63 پی کے تحت منحرف ارکان کی نااہلی کی مدت بارے لکھا تھا کہ یہ کام پارلیمنٹ کا ہے اور اسے قانون سازی کرکے خود اس کا تعین کرناچاہیے۔ آرٹیکل 63 پی اور 62 ون ایف کے تحت نااہلی سے متعلق آئین خاموش تھا۔ اب اگر دونوں آرٹیکلز کے تحت نااہلی کی مدت کا تعین قانون سازی کے ذریعے کر دیا گیا ہے تو اس میں کیا قباحت ہے؟ جسٹس ثاقب نثار کی عدالت نے آرٹیکل 62 ون ایف کی جو تشریح کی تھی اور نااہلی کو تاحیات قرار دیا تھا‘ بعض قانونی ماہرین کے مطابق‘ وہ نئی قانون سازی کے بعد غیر مؤثر ہو چکی ہے۔ سپریم کورٹ آئین کے ان آرٹیکلز کی تشریح کرتی ہے جو مبہم ہوتے ہیں اور اگر پارلیمنٹ نے قانون بنا دیا ہے تو پھر اگر مگر کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہتی۔ الیکشن ایکٹ میں ترمیم اگر غیر آئینی ہے تو پھر اسے تادمِ تحریر کسی جماعت نے سپریم کورٹ میں چیلنج کیوں نہیں کیا؟ جب تک یہ قانون سپریم کورٹ میں چیلنج نہیں ہوتا اور عدالت اسے کالعدم قرار نہیں دیتی تب تک یہ قانون سازی بالادست رہے گی۔ میری معلومات کے مطابق میاں نوازشریف ویسے بھی اپیل میں جانے کا ارادہ نہیں رکھتے تھے۔ دوسری جانب خود عوام کو بھی فیصلہ کرنا چاہیے کہ آرٹیکل 62 ون ایف کے تحت تاحیات نااہلی انصاف کے تقاضے پورے کرتی ہے یا نہیں؟ اگر کوئی شخص دہشت گردی یا قتل جیسے گھناؤنے جرم کا مرتکب ٹھہرایا جائے تو وہ پانچ سال کے لیے نااہل ہو گا لیکن یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ کوئی شخص جھوٹ بولے یا محض اپنے اثاثے چھپانے پر تاحیات انتخابی سیاست کے لیے نااہل قرار پائے؟ کیا جھوٹ کی سزا قتل اور دہشت گردی سے زیادہ سنگین ہونا قرینِ انصاف ہے؟
پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کا فیصلہ خوش آئند ہے۔ اس سے سپریم کورٹ کی توقیر میں اضافہ ہوا ہے۔ تاریخ میں پہلی بار کسی چیف جسٹس نے اپنے اختیارات کو کم کیا ہے۔ اس قانون سازی کا سب سے اہم پہلو آرٹیکل 184/3 کے مقدمات میں اپیل کا حق ملنا ہے۔ میری رائے میں سوموٹو کیسز میں اپیل کا حق نہ ہونا بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی اور فیئر ٹرائل کے منافی تھا۔ کیسے ممکن ہے کہ ایک شخص کا مقدمہ سول کورٹ سنے نہ سیشن عدالت اور نہ ہی ہائیکورٹس‘ کیس سیدھا سپریم کورٹ میں چلے اور جو بھی فیصلہ آئے وہ حرفِ آخر قرار پائے۔ اسے مہذب معاشروں میں فیئر ٹرائل کیسے کہہ سکتے ہیں؟ پارلیمنٹ کے بعد سپریم کورٹ نے بھی تسلیم کر لیا کہ اپیل کا حق نہ ہونے سے بنیادی انسانی حقوق متاثر ہو رہے تھے۔ میری رائے میں اپیل کاحق ماضی سے دینا چاہیے تھا۔ ایک شخص کو اپیل کا حق دینا جبکہ دوسرے شخص سے وہی حق چھین لینا مناسب معلوم نہیں ہوتا۔ ایک ملزم کا فیصلہ قانون سازی سے پہلے آئے اور دوسرے کا ایک سال بعد‘ تو کیا اس سے جرم کی نوعیت تبدیل ہو جاتی ہے؟ اگر ماضی سے اپیل کاحق دے دیا جاتا تو زیادہ بہتر ہوتا۔ اس طرح سب کو فیئر ٹرائل کاحق مل جاتا۔
البتہ جیسے پہلے کہا‘ اپیل کا حق نہ ملنے سے میاں نواز شریف کو کوئی فرق نہیں پڑے گا مگر ایون فیلڈ کیس اور العزیزیہ کیس میں سنائی جانے والی سزائیں ان کے پاؤں کی بیڑیاں ضرور بنیں گی۔ وہ راہداری ضمانت لے کر ملک واپس تو آ جائیں گے مگر کیا مذکورہ دونوں مقدمات میں ان کی اپیلوں پر فیصلے ایک‘ دو ماہ میں ہو جائیں گے؟ اسلام آباد ہائیکورٹ نے مریم نوازکی اپیل کافیصلہ چار سال میں کیا تھا۔ میں سمجھنے سے قاصر ہوں کہ میاں نواز شریف کا فیصلہ اتنی جلدی کیسے ہو سکتا ہے۔ اسی بنیاد پر میں یہ سمجھتا ہوں کہ نواز شریف الیکشن میں حصہ نہیں لے سکیں گے۔ ہاں البتہ! اتنا ضرور ہو سکتا ہے کہ ایون فیلڈ کیس کی طرح العزیریہ کیس میں بھی ان کی سزا معطل ہو جائے اور اس کے بعد وہ انتخابی مہم میں حصہ لینے لگیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں