پی ٹی آئی کا مستقبل

ایسی گاڑی کا کیا فائدہ جسے کوئی چلانے والا ہی نہ ہو؟ اس ندی کو کون ندی کہے گا جس پر ہمہ وقت برف جمی رہتی ہو؟ اور ایسے پھول کی قدرکیسے ہو گی جس سے خوشبو نہ آتی ہو؟ سوال یہ ہے کہ حکومت بنانا اہم ہے یا اُسے چلانا؟ مسندِ اقتدار پر کوئی بھی بیٹھ سکتا ہے مگر اس کے ساتھ انصاف کرنا ہر کسی کے بس کی بات نہیں۔ بادشاہ تو بہادر شاہ ظفر اور محمد شاہ رنگیلا بھی تھے مگر کیا انہیں جلال الدین محمد اکبر اور اورنگزیب عالمگیر کا درجہ مل سکتا ہے؟ کیا اکیس کے اکیس مغل بادشاہوں کی قدر و منزلت ایک جیسی ہے؟ یا پھر پہلے چھ بادشاہوں کا مقام مختلف ہے اور آخری پندرہ کی حیثیت الگ؟ تاریخ گواہ ہے کہ جب بھی کرسیٔ اقتدار کسی ایسے شخص کے ہاتھ آئی جو اسے سنبھالنے اور حکومت چلانے کی اہلیت نہیں رکھتا تھا تو بڑی سے بڑی سلطنت بھی خس و خاشاک کی مانند بکھر گئی۔
دوروز قبل میری پی ٹی آئی کے اہم رہنما سے ملاقات ہوئی اور انہوں نے دو دعوے کیے۔ پہلا دعویٰ یہ تھا کہ عمران خان عوام کی ضد بن چکے ہیں اور وہ ہر حال میں پی ٹی آئی کے بانی چیئرمین کے ساتھ کھڑے ہیں جبکہ دوسرا دعویٰ تھا کہ تمام تر خدشات، تحفظات اور اعتراضات کے باوجود پی ٹی آئی 8 فروری 2024ء کو الیکشن بہ آسانی جیت جائے گی۔ پی ٹی آئی رہنما نے کہا کہ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ عمران خان پارٹی کے چیئرمین رہتے ہیں یا نہیں‘ اور نہ ہی بڑے بڑے اکابرین کے پارٹی چھوڑنے کی اہمیت ہے۔ کچھ بھی ہوجائے عوام الیکشن میں بلے کے نشان ہی پر مہر لگائیں گے۔ بدلے میں دو سوال میں نے بھی ان سے پوچھے‘ جن کا کوئی خاطر خواہ جواب ان کے پاس نہیں تھا۔ میرا سوال تھا کہ اگر پی ٹی آئی الیکشن میں جیت جاتی ہے تو کیا بطور جماعت اس میں اتنی سکت ہے کہ وہ حکومت چلا سکے؟ جبکہ دوسرا سوال تھا اگر پی ٹی آئی کی موجودہ قیادت حکومت چلانے کی صلاحیت سے محروم ہے تو پھر عوام کی ضد عمران خان کو ہونا چاہیے یا پاکستان کو؟
30 اکتوبر 2011ء کے جلسے کے بعد پی ٹی آئی نے مقبولیت کی بلندیوں کو چھوا تو لوگ جوق در جوق عمران خان کے گرد جمع ہونا شروع ہو گئے۔ ان میں زیادہ تر لوگ Opportunist یعنی موقع پرست تھے اور کچھ مثالیت پسند (Idealist) تھے۔ ابن الوقت چڑھتے سور ج کو سلا م کر رہے تھے اور اقتدار کی ہنڈیا سے اپنا حصہ وصول کرنے کے خواہش مند تھے جبکہ Idealist تبدیلی کے خواہاں تھے۔ وہ چاہتے تھے کہ ملک میں دو جماعتی نظام ختم ہو اور کوئی نئی قوت ابھرے تاکہ معاشی مسائل میں کمی آ سکے۔ Idealist کی بڑی تعداد نے عمران خان سے آس لگائی اور انہیں اپنا مسیحا مانا۔ اس فہرست میں سیاست دان کم تھے اور عوام زیادہ۔ عام آدمی کو پہلا جھٹکا اس وقت لگا جب انہیں 2018ء کے انتخابات کے بعد پتا چلا کہ صوبوں کو چلانے کے لیے پی ٹی آئی کے اوپننگ بیٹسمین عثمان بزدار اور محمود خان ہیں۔ عمران خان جیسے تیسے وزیراعظم تو بن گئے تھے مگر حکومت چلانے کے لیے ان کے پاس ٹیم نہیں تھی۔ ان کی معاشی ٹیم میں ایک بھی اکانومسٹ نہیں تھا۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ پی ٹی آئی حکومت اپنے دعووں اور منشور کو پورا کرنے میں بری طرح ناکام ہو گئی مگر Idealist مایوسی کے باوجود یہ سوچ کر پُرامید تھے کہ پی ٹی آئی حکومت کی ناکامی عمران خان کی ناکامی نہیں بلکہ ان کی ٹیم کی ناکامی ہے۔ ٹیم اچھی ہوتی تو حالات یکسر مختلف ہوتے۔ پہلے سے مایوس طبقے کی مایوسی اس وقت دوچند ہو گئی جب عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد کامیاب ہوئی اور پھر جس طرح کا بیانیہ بنایا گیا اس سے لوگوں کے جذبات مزید بھڑک گئے۔ رہی سہی کسر عمران خان کی گرفتاری، بڑے زعما کی پارٹی سے بے وفائی، توشہ خانہ کیس میں عمران خان کو سزا سنانے، سائفر کیس، القادر ٹرسٹ ریفرنس اور نو مئی کے مقدمات نے پوری کر دی۔ اب صورتِ حال یہ ہے کہ تمام موقع پرست پارٹی چھوڑ چکے ہیں اور Idealist غصے، نفرت اور اشتعال انگیزی کے حصار میں ہیں۔ یقین نہیں آتا تو سوشل میڈیا پر اس طبقے کی جانب سے اٹھایا گیا طوفانِ بدتمیزی اور نازیبا ریمارکس کو دیکھ لیں، ساری کہانی سمجھ میں آ جائے گی۔ یہ Idealist مایوسی،غم اور غصے کا امتزاج بن چکے ہیں اور اسی کیفیت میں دعویٰ کرتے دکھائی دیتے ہیں کہ عمران خان عوام کی ضد بن چکے ہیں۔ اس دعوے میں کتنی حقیقت ہے‘ اس کا فیصلہ الیکشن کرے گا اور الیکشن اب زیادہ دور نہیں ہے۔
دوسرا دعویٰ تھا کہ پی ٹی آئی بہ آسانی اگلا الیکشن جیت جائے گی۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ عمران خان اس وقت مقبول ترین سیاستدان ہیں مگر مقبولیت کا خمار صرف پنجاب اور خیبر پختونخوا کی حد تک ہے۔ بلوچستان اور سندھ میں صورتِ حال بالکل مختلف ہے۔ کراچی کے لوگ بھی پی ٹی آئی حکومت کی کارکردگی سے مایوس ہیں۔ اگر کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ لیول پلیئنگ فیلڈ ملنے کے بعد عمران خان جس کسی کو بھی ٹکٹ دیں گے‘ وہ پنجاب اور خیبر پختونخوا سے الیکشن جیت جائے گا تو ایسا ہرگز نہیں ہے۔ انتخابات میں وسائل، افرادی قوت، انتخابی مہم کی حکمت عملی اور لیڈرشپ کی موجودگی کا بھی بہت اثر ہوتا ہے۔ ہو سکتا ہے کہ خیبر پختونخوا میں پی ٹی آئی حکومت بنانے کی پوزیشن میں آ جائے مگر پنجاب میں مجھے ایسا ہوتا دکھائی نہیں دے رہا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ پنجاب کے لوگوں کا مزاج بالکل مختلف ہے۔ وہ دلیل اور منطق کو زیادہ اہمیت دیتے ہیں اور بے جا ضد کے جھانسے میں نہیں آتے۔ دوسرا‘ پنجاب مسلم لیگ (ن) کا ہوم گراؤنڈ ہے اور میاں نوازشریف کی واپسی سے اس کی مقبولیت میں بہتری آئی ہے۔ اب بھی یہاں ایسے لوگ موجود ہیں جو نواز شریف کے گزشتہ ادوار کو یاد کرتے ہیں۔ اس سب کے باوجود یہ بھی حقیقت ہے کہ اب شہروں میں پی ٹی آئی کا بھی بہت زور ہے۔ لاہور کی چودہ، فیصل آباد کی دس، گوجرانوالہ کی چھ، سیالکوٹ کی چار، سرگودھا کی پانچ، راولپنڈی کی سات، ملتا ن کی چھ، بہاولپورکی چھ، رحیم یار خان کی سات اور مظفرگڑھ کی چھ قومی اسمبلی کی نشستوں پر جس کے حق میں ہوا چل گئی‘ اس پارٹی کے حالا ت بدل جائیں گے۔ میں سمجھتا ہوں کہ پی ٹی آئی پورے ملک میں قومی اسمبلی کی ستر سے اسی نشستیں جیت جائے گی مگر اس سے زیادہ کی توقع رکھنا شاید مناسب نہیں ہو گا۔
ایک لمحے کے لیے فرض کر لیتے ہیں کہ پی ٹی آئی عمران خان کی مقبولیت کے زور پر سادہ اکثریت حاصل کرنے میں کامیاب ہو جاتی ہے اور حکومت بنانے کی پوزیشن میں آ جاتی ہے، اب کیا موجودہ پی ٹی آئی میں اتنی اہلیت ہے کہ وہ حکومت کو چلا سکے؟ میری دانست میں نو مئی کے بعد پی ٹی آئی میں حکومت چلانے کی سکت ختم ہو گئی ہے۔ الیکشن جیتنے کے بعد سب سے بڑا امتحان یہ ہو گا کہ وزیراعظم کسے بنایا جائے؟ وزیر خزانہ کون ہو گا؟ خارجہ، داخلہ، تجارت، پلاننگ اینڈ ڈویلپمنٹ، آئی ٹی اور سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کی وزارتیں کس کو دی جائیں گی؟ اور سب سے بڑھ کر‘ پنجاب اور کے پی میں وزیراعلیٰ کون ہو گا؟ صوبوں میں اہم وزارتوں کے قلمدان کن لوگوں کو سونپے جائیں گے؟ اس وقت پی ٹی آئی میں صرف وکلا ہی نظر آ رہے ہیں۔ وہ وزارتِ قانون سنبھال لیں گے مگر دیگر وزارتیں چلانے کے لیے یہ افراد اہل ہوں گے؟ ملک کو اس وقت بڑے بڑے چیلنجز کا سامنا ہے اور سب سے بڑا چیلنج معیشت کا ہے۔ عمران خان کی معاشی ٹیم میں پہلے بھی کوئی اکانومسٹ نہیں تھا اور اب تو حالات اور بھی دگرگوں ہو چکے ہیں۔ یہاں سوال یہ ہے کہ اگر موجودہ پی ٹی آئی الیکشن جیتنے کے بعد حکومت چلانے کی صلاحیت ہی نہیں رکھتی تو پھر اس کے برسر اقتدار آنے کا کیا فائدہ؟ محض ضد کی بنیاد پر تو ملک کی معیشت کو داؤ پر نہیں لگایا جا سکتا؟ عوام یقینا اپنے اور ملک کے مستقبل کو مدنظر رکھ کر الیکشن میں اپنے ووٹ کا استعمال کریں گے۔ اگر ووٹ دیتے ہوئے غصے اور نفرت کو بنیاد بنایا گیا تو اس سے معیشت کا بہت نقصان ہو گا جو کسی طور ملک کے مفاد میں نہیں۔ اگر ایک بار پھر پی ٹی آئی حکومت بنانے کے بعد ناکامی کی دلدل میں دھنس گئی تو اس پوری جماعت کا مستقبل مزید مخدوش ہو جائے گا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں