اگلی حکومت کون بنائے گا؟

العزیزیہ ریفرنس میں بھی میاں نواز شریف کو بری کر دیا گیا ہے۔ چھ سال قبل جب یہ مقدمات بنائے گئے‘ تو تحقیقات کم کی گئیں‘ عزت زیادہ اچھالی گئی۔ چور‘ چور کے نعرے لگائے گئے اور انہیں بددیانت تک کہا گیا۔ اس وقت کے منصوبہ سازوں نے شاید فیصلہ کیا تھا کہ میاں نواز شریف کو بدنام کرکے عمران خان کی عزت افزائی کرنی ہے مگر قدرت کا اپنا نظام ہوتا ہے۔ آج صورتِ حال یہ ہے کہ ایک ایک کرکے نواز شریف کو تمام مقدمات سے بریت مل چکی ہے۔ اب گنگا الٹی بہہ رہی ہے۔ میاں نواز شریف الیکشن میں حصہ لیں گے اور اپنی جماعت کی جانب سے وزیراعظم کے امیدوار ہوں گے۔ دوسری طرف عمران خان الیکشن لڑ سکیں گے اور نہ ہی اپنی جماعت کی انتخابی مہم چلانے کے لیے دستیاب ہوں گے۔
اس میں کیا شبہ ہے کہ میاں نواز شریف پر مقدمات سیاسی بنیادوں پر بنائے گئے تھے اور قانون کو نظر انداز کرکے انہیں سزائیں سنائی گئی تھیں۔ اس کھیل میں اس وقت کی عدلیہ اور مقتدرہ برابر کے حصہ دار تھے۔ سوال یہ ہے کہ اس قسم کے مقدمات میں ٹیکنیکل گراؤنڈز پر کسی وزیراعظم کو عہدے سے کیسے ہٹایا جا سکتا ہے؟ کیا کروڑوں لوگوں کے ووٹ کی کوئی اہمیت نہیں؟ کیا فیصلہ سازوں کو ملک کی کوئی پروا نہیں تھی؟ عمران خان کو وزیراعظم بنوانے کے لیے ملکی معیشت کی قربانی کیوں دی گئی؟
اب ایون فیلڈ ریفرنس کے بعد العزیزیہ ریفرنس میں بھی میاں نواز شریف کو باعزت بری کر دیا گیا ہے۔ نیب اپنا کیس ثابت کرنے میں ناکام رہا اور احتساب عدالت کی طرف سے دی گئی سزا کا دفاع نہیں کر سکا۔ نیب پراسیکیوٹر نے کہا کہ ان کا سارا کیس جے آئی ٹی کے سربراہ واجد ضیا کے تجزیے کی بنیاد پر تھا اور انہوںنے فوٹو کاپی ڈاکیومنٹس پر انحصار کیا‘ اس کے علاوہ ان کے پاس کوئی ثبوت نہیں۔ اس کے جواب میں چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ نے کہا کہ مفروضے پر کبھی سزا نہیں ہوتی اور انہوں نے نواز شریف کو کیس سے بری کر دیا۔ میں سمجھتا ہوں کہ نواز شریف کی قانونی پوزیشن مضبوط تھی اور ان کی بریت سے انصاف کے تقاضے پورے کیے گئے ہیں مگر اس کے باوجود دو اعتراضات ہیں۔ اول: نیب کا رویہ بالکل بھی پروفیشنل نہیں تھا اور اس نے ٹھیک سے دلائل بھی نہیں دیے، کیوں؟ کیا اس پر کوئی دباؤ تھا؟ یا پھر اسے بھی اندازہ ہو گیا ہے کہ ہواؤں کا رخ بدل چکا ہے اس لیے لاحاصل مشق نہ کی جائے؟ دوم: احتساب عدالت میں جو کیس دس ماہ چلتا رہا‘ وہ دو سماعتوں ہی میں کیسے ختم ہو گیا؟ اگر یہ مقدمات اتنے ہی کھوکھلے تھے تو پھر مریم نواز شریف کا کیس اسی عدالت میں چار سال تک کیوں لٹکا رہا؟ کیا کوئی ہے جو ان سوالا ت کے جواب دے سکے؟ میں سمجھنے سے قاصر ہوں کہ ملک میں سیاسی مقدمات بنانے کا سلسلہ کب بند ہو گا؟ ہو گا بھی یا نہیں؟ ایک لمحے میں کوئی شخص چور اور ڈاکو ہوتا ہے اور دوسرے لمحے وہی شخص تمام الزامات سے بری ہو کر ملک کی وزارتِ عظمیٰ کا امیدوار ہوتا ہے۔ اس میں اصل قصوروار کون ہے؟ اس سے ملک کا کتنا نقصان ہوتا ہے‘ کیا ہم نے کبھی اس کا تجزیہ کرنے کی کوشش کی ہے؟
اس وقت صورتِ حال یہ ہے کہ ایک‘ دو نہیں بلکہ چھ سابق وزرائے اعظم کے مقدمات عدالتوں میں زیرِ سماعت ہیں۔ ذوالفقارعلی بھٹو کیس کی سپریم کورٹ میں سنوائی ہو رہی ہے، عمران خان، میاں نواز شریف، شاہد خاقان عباسی، یوسف رضا گیلانی اور راجہ پرویز اشرف کے مقدمات بھی عدالتوں میں زیرِ سماعت ہیں۔ نواز شریف کی دو مقدمات میں بریت کے بعد اگر ذوالفقار علی بھٹو کیس میں عدالت اس نتیجے پر پہنچتی ہے کہ انہیں غیر قانونی طور پر پھانسی دی گئی تھی تو اس سے عوامی سطح پر کیا پیغام جائے گا؟ کیالوگ یہ سوچنے اور سمجھنے میں حق بجانب نہیں ہوں گے کہ سیاست دانوں پر ہر دور میں جھوٹے اورسیاسی مقدمات ہی بنائے جاتے رہے۔ کیا عوام میں یہ تاثر پیدا ہونے سے بانی چیئرمین پی ٹی آئی کو فائدہ نہیں ہو گا؟ کیا ان کے ووٹرز اور سپورٹرز یہ بیانیہ نہیں بنائیں گے کہ ذوالفقارعلی بھٹو اور میاں نواز شریف کی طرح بانی تحریک انصاف پر بھی جھوٹے مقدمات بنائے گئے ہیں؟ اب سوال یہ اٹھتا ہے کہ ایسی ریاضت کا کیا فائدہ جس سے عوامی سطح پر غلط پیغام جائے؟ یاد رکھیں! سیاسی مقدمات بنانے سے حکومتوں کو کوئی فرق نہیں پڑتا مگر بدنامی ریاست کے حصے میں آتی ہے‘ لوگ عجیب و غریب قسم کے تصورات پالنے لگتے ہیں۔
اہم بات یہ ہے کہ ذوالفقار علی بھٹو اور میاں نواز شریف کی طرح بانی تحریک انصاف کے خلاف مقدمات کی نوعیت بھی کیا سیاسی ہے؟ کیا انہیں غلط انداز میں ان مقدمات میں پھنسایا گیا ہے؟ میں سمجھتا ہوں کہ ایسا نہیں ہے! پی ٹی آئی کے بانی چیئرمین پر سنجیدہ نوعیت کے جتنے بھی مقدمات ہیں‘ وہ ان کے اپنے اعمال کا شاخسانہ ہیں۔ سائفر گمشدگی کیس میں ان پر جتنے الزامات ہیں‘ وہ تمام وہ خود تسلیم کر چکے ہیں۔ اگر ملک کا قانون کہتا ہے کہ خفیہ دستاویزات کو عوام کے سامنے نہیں لایا سکتا تو اس پر عمل کیوں نہیں کیا گیا؟ سابق وزیراعظم نے عوام کے سامنے سائفر کو جلسے میں کیوں لہرایا؟ قوم سے خطاب کرتے ہوئے امریکہ کا نام لے کر اس پر سازش کا الزام کیوں لگایا؟ وہ سائفر کی کاپی گھر کیسے لے گئے اور پھر اسے گم کیونکر کر دیا؟ سائفر کے مندرجات کو صحافیوں کے ساتھ شیئر کیوں کیا گیا؟ جب بھی کوئی وزیراعظم یہ کرتا ہے تو وہ ملکی قانون کی خلاف ورزی کرتا ہے۔ کیا قانون توڑنے والوں کو سزا نہیں ملنی چاہیے؟ کیا عدالت میں کیس نہیں چلنا چاہیے تاکہ دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو سکے؟ توشہ خانہ بھی سیدھا سادہ کیس ہے۔ توشہ خانہ سے پیسے دے کر تحائف لینا کوئی جرم نہیں مگر بانی چیئرمین نے اخلاقی گراوٹ کا مظاہر ہ کیا اور ان تحائف کو سستے داموں خرید کر بیچنے کو ایک کاروبار بنا لیا۔ پھر اس سے حاصل ہونے والی آمدن کو دو سال تک الیکشن کمیشن سے چھپائے رکھا۔ انہیں اپنے سالانہ گوشواروں میں یہ آمدن ظاہر کرنا تھی مگر انہوں نے ایسا نہیں کیا۔ یہ قانون کی خلاف ورزی تھی۔ اگر اس کیس میں انہیں سزا سنائی گئی تو اس پر اتنا واویلا کیوں؟ کسی بھی قانون شکنی کی طرفداری کیسے کی جا سکتی ہے؟ القادر ٹرسٹ کیس میں بھی پراپرٹی ٹائیکون کو فائدہ دینے کے لیے کابینہ پر دبائو ڈال کر فیصلہ کرایا گیا۔ بظاہر جو پیسے قومی خزانے میں جمع ہونا چاہئیں تھے‘ ان پیسوں سے پراپرٹی ٹائیکون کو فائدہ دیا گیا اور اس کا جرمانہ ادا کیا گیا، بدلے میں مبینہ طور پر القادر ٹرسٹ کے نام پر زمین تحفے میں لی گئی۔ اگر قانون کی کوئی خلاف ورزی ہوئی ہے تو پھر مقدمہ کیوں نہیں چلنا چاہیے؟ سابق وزیراعظم پر نو مئی کے مقدمات بھی چلائے جا رہے ہیں‘ پولیس چالان میں انہیں دس مقدمات میں قصوروار قرار دیا گیا ہے۔ کیا کوئی دعویٰ کر سکتا ہے کہ نو مئی کے پُرتشدد واقعات میں پی ٹی آئی ملوث نہیں تھی؟ جس طریقے سے ملک بھر میں احتجاج کیا گیا، کور کمانڈر لاہور کے گھر کو نذرِ آتش کیا گیا، جی ایچ کیو پر حملہ کیا گیا، سرکاری اور نیم سرکاری املاک کو نقصان پہنچایا گیا، شہدا کی یادگاروں کو نقصان پہنچایا گیا، کیا اس کے ذمہ داروں کو سزا نہیں ملنی چاہیے؟ جس طرح سابق چیئرمین پی ٹی آئی اپنی تقریروں میں لوگوں کو مشتعل کرتے تھے‘ کیا اس پر ان کا محاسبہ نہیں ہونا چاہیے؟
میاں نواز شریف اور عمران خان پر بننے والے مقدمات میں ایک اور فرق ہے۔ میاں نواز شریف پر بنائے گئے مقدمات کرپشن، ذاتی کاروبار اور پراپرٹی کے حوالے سے تھے مگر بانی تحریک انصاف پر لگائے گئے الزامات سرکاری فرائض کی انجام دہی میں غفلت اور لوگوں کو اکسانے سے متعلق ہیں‘ اب فیصلہ عوام نے کرنا ہے کہ وہ کس کے موقف کو درست سمجھتے ہیں اور الیکشن میں کس کو ووٹ دے کر حکومت بنانے کا موقع فراہم کریں گے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں