سیاستدان معافی کب مانگیں گے؟

خود احتسابی دنیا کا مشکل ترین کام ہے۔ خال خال ہی لوگ اس ڈگر پر چلتے ہیں۔ ایسا کون سا شخص ہے جو اپنی ہی غلطیوں‘ کوتاہیوں اور غلط کاریوں کا اعتراف کرے؟ ایساکون سا ادارہ ہے جو اپنے ماضی پر نادم ہو اور آئندہ غلطیاں نہ دہرانے کا عزم رکھتا ہو؟ ایسی کون سی سیاسی جماعت ہے جو طاقتور حلقوں کی پروردہ ہونے سے گریزاں ہو؟ ایساکون سا سیاستدان ہے جو ''لاڈلا اور سلیکٹڈ‘‘ ہونے سے انکار کر رہا ہو؟ حقیقت یہ ہے کہ سیاستدانوں کو لاڈلا ہونے میں جو سہولت نظر آتی ہے وہ سیاسی جدوجہد کے نتیجے میں نہیں ملتی۔ اس لیے وہ آسان راستہ چنتے ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا شخصیات‘ ادارے اور سیاسی جماعتیں اپنے اپنے ماضی سے سبق سیکھیں گے؟ کیا آئندہ ملک کو آئین وقانون کی منشا پر چلنے دیا جائے گا؟ کیا ملک کی معاشی سمت درست ہو سکے گی؟
اس میں کیا شبہ ہے کہ پاکستان کے ہر بڑے سیاستدان کو لاڈلا ہونے کا شرف حاصل رہا ہے اور ہر سیاسی جماعت کو مقتدرہ کے تعاون سے اقتدار تک پہنچنے کی سہولت ملی ہے۔ پیپلز پارٹی ہو یا مسلم لیگ (ن)‘ پی ٹی آئی ہو یا ایم کیو ایم‘ BAP ہو یا جماعت اسلامی‘ (ق) لیگ ہو یا جی ڈی اے۔ سبھی جماعتیں ایک ہی گھاٹ سے پانی پیتی رہی ہیں۔ یہی نہیں‘ ذوالفقار علی بھٹو ایوب خان کے لاڈلے تھے‘ میاں نواز شریف ضیا الحق کو بہت پیارے تھے اور عمران خان پرویز مشرف‘ قمرجاوید باجوہ‘ احمد شجاع پاشا‘ ظہیر الاسلام اور فیض حمید کی آنکھ کا تارا تھے۔ میثاقِ جمہوریت کے بعد احمد شجاع پاشا نے عمران خان کا انتخاب کیا‘ ظہیر الاسلام نے آبیاری کی اور فیض حمید نے قمر جاوید باجوہ کے ساتھ مل کر انہیں اقتدار کے سنگھاسن پر بٹھایا۔سچ بہت کڑوا ہوتا ہے اور اسے بولنے کے لیے ہمت اور سننے کے لیے حوصلہ درکار ہوتا ہے۔ کیا کیا جائے‘ ہماری تینوں بڑی سیاسی جماعتوں کا ماضی ایسا ہی ہے اور ماضی کا مسئلہ یہ ہوتا ہے کہ اسے بدلا نہیں جا سکتا۔ جو ہو گیا سوگیا۔ ہاں البتہ‘ ماضی سے سبق ضرور سیکھا جا سکتا ہے اور جو غلطیاں ماضی میں ہو چکی ہوں‘ ان کو مستقبل میں نہ دہرانے کا اعلان تو ہو سکتا ہے۔ کیا ایسا ممکن ہے؟ کیا کوئی ہے جو ملک کے روشن مستقبل کیلئے ماضی کی سیاہ کاریوں کا اعتراف کرے؟ کیا کوئی ہے جو اپنے مفادات کو ملک کے مفادات پر قربان کر دے؟
میاں نواز شریف کی جب سے دونوں مقدمات میں بریت ہوئی ہے ان کا لہجہ بدلا بدلا سا ہے۔ وہ ان تما م کرداروں کے احتساب کا نعرہ لگا رہے ہیں جنہوں نے 2014ء میں عمران خان اور طاہر القادری سے دھرنے کروائے تھے‘ جنہوں نے ملک میں سیاسی عدم استحکام بڑھایا تھا‘ جنہوں نے سیاستدانوں پر جھوٹے مقدمات بنوائے‘ جنہوں نے وزیراعظم کو اقتدار سے بے دخل کر دیا تھا‘ جنہوں نے عدالتوں پر اثر انداز ہو کر میاں نواز شریف اور مریم نواز کے خلاف فیصلے کروائے۔ اور سب سے بڑھ کر جنہوں نے 2018ء کا الیکشن چوری کیا تھا۔ جس کے بعد ملک سیاسی عدم استحکام کا شکار ہوا اور معیشت کا جنازہ نکل گیا۔ 2018ء میں ملک کا مجموعی قرضہ 24ہزار ارب روپے تھا مگر آج 60ہزار ارب روپے سے زائد ہے۔ اس وقت قرضوں کی ادائیگی کیلئے سالانہ بجٹ میں 1500ارب روپے درکار ہوتے تھے مگر رواں سال 7000ارب روپے رکھے گئے ہیں۔ 2018ء میں مجموعی مہنگائی کی شرح 4 فیصد سے کم تھی اور اب 30فیصد ہے۔ ترقی کی شرح 6فیصد تھی لیکن سردست دو فیصد پر ہے۔ ڈالر 115روپے میں میسر تھا اور اب 284روپے کا ہے۔ غریب آدمی کا جینا محال ہے اور مڈل کلاس کی قوتِ خرید کم ہو گئی ہے۔ کاروبار بند ہو رہے ہیں اور بے روزگاری پنجے گاڑ رہی ہے۔ کون جانے اقتدار میں کٹھ پتلیاں بیٹھانے کا سلسلہ کب بند ہو گا؟ اور کب عوام کے حقیقی نمائندے ملک کی باگ ڈور سنبھالیں گے؟
جب سے قاضی فائز عیسیٰ صاحب نے بطور چیف جسٹس اور جنرل سید عاصم منیر نے بطور آرمی چیف کمان سنبھالی ہے‘ میری ذاتی رائے ہے کہ اداروں میں خود احتسابی کا عمل شروع ہو چکا ہے۔ دونوں ادارے اپنی اپنی غلطیوں کو سدھارنے میں لگے ہیں۔ یقین نہیں آتا تو شوکت صدیقی کیس کی سماعت سن لیں۔ سارے عقدے خود بخود کھل جائیں گے۔ یوں گمان ہوتا ہے جیسے سپریم کورٹ فیض حمید کی سیاست میں مداخلت اور اس کے نتیجے میں فائدہ اٹھانے والی شخصیات کے کردار کو سامنا لانا چاہتی ہے۔ فیض حمید کو شوکت صدیقی کیس میں فریق بنا لیا گیا ہے اور انہیں نوٹس بھی جاری ہو گیا ہے۔ اس کیس کی آخری سماعت سے یہ گمان بھی ہوتا ہے جیسے شوکت صدیقی کی برطرفی کا معاملہ فیض حمید سے ہوتا ہوا عمران خان تک جا سکتا ہے۔ یہ سوال اٹھایا جا رہا ہے کہ فیض حمید کی سیاست میں مداخلت اور میاں نواز شریف کو سزا دلوانے کے پیچھے محرکات کیا تھے۔ اس سارے عمل کا فائدہ کس کو ہوا؟ فیض حمید میاں نواز شریف کو سیاست سے بے دخل کرکے کس کو وزیراعظم بنوانا چاہتے تھے؟ ان تمام سوالوں کے جواب سامنے آئے اور مزید پرتیں کھلیں تو عمران خان کے گرد بھی گھیرا تنگ ہو گا۔ اس کیس کا فیصلہ بتائے گا کہ کون کون آئین سے تجاوز کرتا رہا۔ فیض حمید نے اپنے حلف کی کیسے خلاف ورزی کی؟ اور نظامِ انصاف میں آئین و قانون کے تابع ہو کر فیصلے کیوں نہیں کیے جا رہے تھے؟ ثاقب نثار‘ آصف کھوسہ اور شیخ عظمت سعید کا کیا کردار تھا؟ اگر شوکت صدیقی کیس کا فیصلہ ماضی میں اعلیٰ عہدوں پر بیٹھی شخصیات کے کردار پرسوال اٹھاتا ہے تو پھر یہ خود احتسابی کی طرف سب سے بڑا قدم ہو گا۔
سپریم کورٹ نے جس طرح ذوالفقار علی بھٹو کیس کو سننے کا فیصلہ کیا ہے وہ قابلِ تحسین ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو کیس کا فیصلہ تاریخ کا سیاہ دھبہ ہے اور اسے جوڈیشل مرڈر کہا جاتا ہے۔ اگر اس کیس کا فیصلہ آتا ہے اور ریفرنس میں پوچھے گئے پانچ سوالوں کے جواب دیے جاتے ہیں تو عدلیہ اور ضیا آمریت کاگٹھ جوڑ واشگاف ہو جائے گا۔ اسے ہم خود احتسابی نہیں تو کیا کہیں گے؟ پرویز مشرف کا کیس بھی برسوں بعد زیر سماعت ہے۔ جس طرح لاہور ہائیکورٹ کے تین رکنی بینچ نے پرویز مشرف کو پھانسی کی سزا سنانے والی خصوصی عدالت کو غیر آئینی قراردیا تھا‘ وہ فیصلہ ریورس ہوتا دکھائی دے رہا ہے کیونکہ لاہور ہائیکورٹ نے تب اپنے دائرہ اختیار سے تجاوزکیا تھا۔ اگر پرویز مشرف کی اپیل اور خصوصی عدالت کو کالعدم قرار دینے پر سپریم کورٹ فیصلہ کرتی ہے تو پھر یہ اداروں میں خود احتسابی ہی کہلائے گی۔ فیض آباد دھرنا کیس کے فیصلے پر عمل درآمد نہیں ہوا کیونکہ اس میں فیض حمید کا کردار واضح تھا۔ اب یہ کیس سنا جا رہا ہے اور کسی نے روکا نہیں تو اس کا مطلب ہے کہ خود احتسابی شروع ہے۔ 2018ء میں آئین کے آرٹیکل 62(ون) (ایف) کی جو تشریح کی گئی تھی‘ وہ سیدھا سیدھا انصاف کا قتل تھا۔ چیف جسٹس صاحب اس کا سو موٹو ایکشن لے چکے ہیں اور قاضی فائز عیسیٰ اور جسٹس اطہر من اللہ کے ریمارکس سے لگتا ہے کہ اب اس ناانصافی کا راستہ روکا جائے گا۔ یہی نہیں‘ سابق چیف جسٹس عمر عطاء بندیال بروقت الیکشن اور فوجی عدالتوں میں سویلین کے ٹرائل کے مقدمات سرد خانے میں ڈال گئے تھے۔ قاضی فائز عیسیٰ نے آتے ہی ان مقدمات کے فیصلوں کو یقینی بنایا بلکہ لاہور ہائیکورٹ کے ایک فیصلے سے الیکشن کی راہ میں رکاوٹ ڈلتی نظر آئی تو دوبارہ عدالت لگائی گئی اور یقینی بنایا گیا کہ الیکشن آٹھ فروری کو ہی ہوں۔ سپریم کورٹ میں اس وقت بھی حاضر سروس جج کے خلاف ریفرنس کی اوپن سماعت ہونے والی ہے اور مقتدرہ نے نومئی کے پُرتشدد واقعات میں غفلت برتنے پر ایک لیفٹیننٹ جنرل‘ تین میجر جنرلز‘ سات بریگیڈیرز سمیت پندرہ افسران کے خلاف تادیبی کارروائی کی ہے۔ ایسا پہلے کب ہوتا تھا؟ یہ سب خود احتسابی نہیں تو کیا ہے؟ ادارے اگر اپنے ماضی سے سبق سیکھ رہے ہیں تو کیا سیاستدان بھی ایسا کریں گے؟ میاں نواز شریف‘ عمران خان اور آصف زرداری اپنے حصے کی معافی کب مانگیں گے؟

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں