مولاجٹ اور نوری نت کیوں پسند ہیں ؟

خاموشی پُرالم اور دردناک ہوتی ہے۔ جو بھی آتشِ سکو ت میں جلتا ہے‘ وہ ضمیر کا قیدی بن جاتا ہے اور ضمیر کا قیدی کبھی رہا نہیں ہوتا۔ کبھی کبھی لگتا ہے کہ ہم گویائی پر قادر نہیں اور خاموشی ہمارا بہترین گوشۂ عافیت ہے کیونکہ پورا معاشرہ سچ بولنے اور سننے کی قوت سے محروم نظر آ رہا ہے۔ ہر شخص نے اپنے گرد ایسا ہالہ بنا لیا جس میں اور کوئی داخل نہیں ہو سکتا۔ ہمیں پہلے لسانی تفریق نے کھوکھلا کیا، پھر مذہبی گروہ بندی نے کمزور کیا اور اب سیاسی تقسیم نے ہماری جڑیں ہلا کر رکھ دی ہیں۔ سیاسی تقسیم کے باعث نفرت، جھوٹ اور بہتان تراشی عام ہو چکی ہے۔ ہم مخالف کی اچھی بات سننے کو تیار ہیں نہ اپنے من پسند لیڈروں کی غلطی نمایاں کرنے کی سعی کرتے ہیں۔ یہی ہمارا سب سے بڑاالمیہ ہے۔ احسان دانش یاد آتے ہیں:
بستیاں آگ میں بہہ جائیں کہ پتھر برسیں
ہم اگر سوئے ہیں تو جگا دو ہم کو
جیسے جیسے الیکشن کا دن قریب آ رہا ہے‘ خواب بیچنے اور سبز باغ دکھانے والوں کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے۔ عوام سے نئے نئے وعدے کیے جا رہے ہیں اور سیاسی پارٹیاں اپنا اپنا منشور پیش کر رہی ہیں۔ کہیں صحت، تعلیم اور معیشت کو ترجیح دی جا رہی ہے اور کہیں آئی ٹی، دہشت گردی اور خارجہ امور پر فوکس کیا گیا ہے۔ کہیں مہنگائی، بے روزگاری اور کاروبار کی ترقی کے دعوے کیے جا رہے ہیں اور کہیں فی کس آمدن، معاشی گروتھ اور روپے کی بے قدری روکنے کے خواب دکھائے جا رہے ہیں۔ کوئی نئی سٹرکیں، انڈر پاسز اور بسیں چلانے کی بات کر رہا ہے اور کوئی موٹر ویز، میٹروز اور اورنج ٹرین جیسے منصوبوں کی امید دلا رہا ہے۔ ملک کی دو بڑی جماعتیں مسلم لیگ (ن) اور پاکستان پیپلز پارٹی اپنا اپنا منشور پیش کر چکی ہیں۔ پی ٹی آئی کے چیئرمین بیرسٹر گوہر نے گزشتہ روز ایک پریس ٹاک میں اپنا پارٹی منشور پیش کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ اسمبلی کی مدت چار سال اور سینیٹ کی مدت چھ کے بجائے پانچ سال کریں گے، آدھے سینیٹ ممبران کو براہِ راست منتخب کرنے کی ترمیم لائیں گے جبکہ وزیراعظم بھی براہِ راست عوام کے ووٹوں سے منتخب ہو گا۔ان کا کہنا تھا کہ ''شاندار مستقبل اور خراب ماضی سے چھٹکارا‘‘ ہمارا نیا منشور ہے۔ دیکھا جائے تو پی ٹی آئی کا منشور غیر واضح ہے‘ اس میں عوام کے لیے زیادہ کچھ نظر نہیں آ رہا۔ اس کی وجہ صاف ظاہر ہے کہ لیڈرشپ کا فقدان ہے۔ عمران خان، شاہ محمود قریشی اور پرویز الٰہی جیل میں ہیں اور کئی متحرک رہنما مفرور ہیں۔ اس وقت پی ٹی آئی کی کمان وکلا کے ہاتھوں میں ہے اور انہیں عدالتوں ہی سے فرصت نہیں ہے۔ ایسے میں وہ منشور کیسے بنا سکتے اور کیسے پارٹی کی انتخابی مہم چلاسکتے ہیں؟ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ عمران خان ملک کے ایک مقبول سیاسی رہنما ہیں اور ان کی مقبولیت کی وجہ ان کی بیانیہ سازی ہے‘ کارکردگی نہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ پی ٹی آئی کے پاس مظلومیت ہے‘ صلاحیت نہیں۔ پی ٹی آئی کی حکمتِ عملی میں بھی یہی نظر آ رہا ہے۔ وہ عمران خان پر مقدمات کی بات کر رہی ہے، لیول پلینگ فیلڈ نہ ہونے کا شور مچا رہی اور گرفتاریوں پر واویلا کر رہی ہے۔ سرِدست عمران خان کی مقبولیت ہی پی ٹی آئی کا منشور ہے اور شاید اسی لیے اس جماعت کے پاس عوام کو دینے کے لیے کچھ نہیں ہے۔
مسلم لیگ (ن) نے ہفتہ کے روز اپنے منشور کا اعلان کیا ہے جس میں اس نے عوام سے درجنوں وعدے کیے ہیں۔ مسلم لیگ (ن) کے منشور میں لکھا ہے کہ: نیب کا خاتمہ کیا جائے گا، عدالتی اصلاحات لائی جائیں گی، پارلیمنٹ کی بالادستی قائم کی جائے گی، آرٹیکل 62 اور 63 کو اصل حالت میں بحال کیا جائے گا، چار سال میں مہنگائی چار سے چھ فیصد پر لائی جائے گی، پانچ سال میں ایک کروڑ سے زائد نوکریاں دی جائیں گی، تین برس میں شرحِ نمو چھ فیصد پر لائی جائے گی، پانچ سال میں غربت میں 25 فیصد اور بے روزگاری میں پانچ فیصد کمی لائی جائے گی، فی کس آمدنی 2000 ڈالر تک بڑھائی جائے گی، پانچ آئی ٹی سٹی بنائے جائیں گے، اعلیٰ تعلیم کا بجٹ بڑھایا جائے گا، بجلی کے ریٹ کم کیے جائیں گے، اقلیتوں کا تحفظ کیا جائے گا، بھارت اور افغانستان کے ساتھ پُرامن اور تجارتی تعلقات قائم کیے جائیں گے۔ بظاہر یہ منشور بہت اچھا اور جامع ہے اور اس میں ملک کو درپیش چیدہ چیدہ سبھی مسائل پر بات کی گئی ہے۔ اصل مسئلہ منشور پیش کرنے کا نہیں ہے‘ ہمارا سب سے بڑا مسئلہ منشور پر عمل درآمد کا ہے۔ الیکشن سے قبل سیاسی جماعتیں جو وعدے کرتی ہیں‘ اقتدار حاصل کرنے کے بعد وہ وعدے یکسر فراموش کر دیتی ہیں۔ اقتدار ملنے کے بعد حکمرانوں کی ترجیح عوام نہیں رہتے اور وہ سیاسی مخالفین کا ناطقہ بند کرنے میں مگن ہو جاتے ہیں۔
اس وقت ملک کی ساری بڑی جماعتیں اقتدار کے مزے لوٹ چکی ہیں۔ گزشتہ بائیس سال میں چار مختلف حکومتیں قائم ہوئی ہیں۔ 2002ء میں (ق) لیگ کی حکومت بنی، 2008ء میں پیپلز پارٹی، 2013ء میں مسلم لیگ (ن)، 2018ء میں پی ٹی آئی برسر اقتدار آئی اور اپریل 2022ء میں پی ڈی ایم کی حکومت بنی۔ اب عوام کو فیصلہ کرنا ہے کہ کون سی عوام دوست حکومت تھی، کس جماعت کے دور میں معیشت بہتر اور مہنگائی کم تھی۔ میری دانست میں عوام کو منشور سے زیادہ ماضی کی کارکردگی کو پیمانہ بنانا چاہیے‘ دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو جائے گا۔ عوام کو چاہیے کہ وہ ووٹ دینے سے قبل یاد کریں کہ ماضی قریب کی چاروں حکومتوں میں سے کس نے ان کے دکھ‘ درد کا مداوا کیا تھا‘ ان کے لیے فیصلہ کرنا آسان ہو جائے گا۔ اس وقت ملک میں معاشی بدحالی عروج پر ہے اور اگر عوام نے الیکشن میں درست فیصلہ نہ کیا تو ملک کا بہت نقصان ہو گا۔ ایک اور بات! عوام کو ووٹ دیتے وقت یہ بھی دیکھنا ہو گا کہ کسی ایک پارٹی کو حکومت بنانے کے لیے ساد ہ اکثریت ملنی چاہیے یا پھر اتحادی حکومت مسائل کو بہتر انداز میں حل کر سکتی ہے‘ پی ڈی ایم نے اتحادی حکومت بنائی تھی‘ پی ٹی آئی کو بھی اکثریت نہیں ملی تھی جبکہ پیپلز پارٹی کو بھی دوسری جماعتوں کے ساتھ مل کر حکومت بنانا پڑی تھی۔ میں سمجھتا ہوں کہ جو بھی پارٹی آئندہ حکومت سنبھالے‘ اس کے پاس سادہ اکثریت ضرور ہونی چاہیے تاکہ اس کے پاس فیصلے کرنے کی آزادی ہو اور وہ اتحادی جماعتوں کے ہاتھوں بلیک میل ہونے کے بجائے اپنے منشور پر عمل کر سکے۔
پاکستان میں قائداعظم محمد علی جناح او ر لیاقت علی خان کے بعد مقبولیت کا تاج تین سیاستدانوں نے پہنا ہے۔ اول: ذوالفقار علی بھٹو، دوم: میاں نواز شریف اور سوم: عمران خان۔ پاکستان میں مقبولیت حاصل کرنے کے دو پیمانے ہیں اور میں سمجھتا ہوں کہ مذکورہ تینوں سیاستدانوں کو مقبولیت انہی کی بددولت ملی ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو، میاں نواز شریف اور عمران خان مقتدر حلقوں کی مدد سے سیاست کے اوجِ کمال پر پہنچے اور پھر انہی کی مخالفت کر کے مقبولیت کا تاج پہنا۔ ذوالفقار علی بھٹو نے ایوب خان کو للکارا اور امریکہ کے خلاف کے تقریریں کیں تو عوام کی آنکھ کا تارا بن گئے۔ میاں نواز شریف نے جب اعلان کیا کہ وہ ڈکٹیشن نہیں لیں گے تو مقبولیت نے ان کی دہلیز پر ڈیر ے ڈال لیے۔ عمران خان کے ساتھ بھی یہی ہوا۔ جب تک انہیں سلیکٹڈ کا طعنہ ملتا رہا وہ پذیرائی کھوتے رہے مگر جیسے ہی انہوں نے امریکہ مخالف بیانیہ بنایا اور مقتدرہ پر الزامات لگائے‘ انہوں نے مقبولیت کی آخری حدوں کو چُھو لیا۔ کتنے دکھ کی بات ہے کہ آج تک ملک میں ایک بھی سیاستدان اپنی کارکردگی کی وجہ سے مقبول نہیں ہوا اور اگر ہوا بھی تو وہ مقبولیت دیرپا نہیں تھی۔ میں سمجھنے سے قاصر ہوں کہ عوام کی ترجیح معاشی، سیاسی اور معاشرتی مسائل سے زیادہ امریکہ اور مقتدر حلقوں کی مخالفت کیوں ہے۔ کیا عوام صرف کھوکھلے نعروں پر یقین کرتے ہیں؟ کیا عوام صحت اور تعلیم جیسے مسائل کو لے کر سنجیدہ نہیں ہیں؟ ہم بطور قوم ترقی کے دشمن کیوں ہیں؟ ہم سیاستدانوں کو ان کی صلاحیت، اہلیت اور کارکردگی پر کیوں نہیں پرکھتے؟ ہمیں مولا جٹ اور نوری نت کیوں پسند ہیں؟ آخر ہم کب تک لکیر کے فقیر بنے رہیں گے؟ ہمیں اپنی آئندہ نسلوں کا خیال کیوں نہیں ہے؟ کیا ہم بھارت، بنگلہ دیش اور ویتنام سے بھی کچھ نہیں سیکھ سکتے؟

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں