جب خالقِ کائنات نے زمین پر اپنا نائب اتارنے کی منصوبہ بندی شروع کی اور عرش بریں پر اس سلسلے میں ملائکہ سے گفتگو ہوئی تو دل ہی دل میں سب سے مضبوط امیدوار ابلیس بن بیٹھا‘ کیونکہ اسے اپنی عبادت اور ریاضت کا گھمنڈ تھا‘ مگر اللہ تعالیٰ نے مٹی کے بت میں روح پھونکی اور یوں ہمارے جدِ امجد حضرت آدم ؑ تخلیق ہوئے۔ اللہ تعالیٰ نے سب ملائکہ کو انہیں سجدہ کرنے کا حکم سنایا تو عالم ارواح میں سب اکٹھے ہوئے اور ابلیس کے سوا تمام فرشتے آدم ؑ کے سامنے سجدہ ریز ہوئے۔اللہ کے حکم پر سر تسلیم خم کیا‘ مگر ابلیس نے تکبر کیا اور ظالموں میں سے ہو گیا۔ تب سے وہ شیطان ٹھہرااور روزِ قیامت تک مردود و مقہور قرار پایا۔ اس نے اپنے دل میں تکبر کے ساتھ ساتھ انتقام کی آگ بھڑکائی اور آدم ؑ کے پاس عرشِ بریں پر جا پہنچا ‘انہیں خوب بہکایااور شجرِ ممنوعہ کی طرف راغب کرنے کیلئے اکسایا۔ یوں آدم ؑ جنت سے نکالے گئے اور زمین پر اتار دیئے گئے‘ مگر شیطان کے غصے اور انتقام کی آگ ٹھنڈی نہ ہو سکی اور اس نے انسان کا ازلی دشمن بننے کا فیصلہ کیا۔ شاید ربِ کائنات نے اپنے جامع منصوبہ بندی میں اس کا کردار ہی یہ لکھ دیا کہ جہاں اللہ تعالیٰ انسان کے دل میں اپنے ذکر اور فکر کے کھیت اگائے گا تو شیطان کی طرف سے بھیجے گئے حرص و ہوس اورلغوو لعب کے وحشی درندے اس فصل کو اجاڑدیں گے۔ حق و باطل اور خیر و شر کی معرکہ آرائی میں فیصلہ کن کردار انسان کے دل کو ٹھہرایا گیا۔ اور قرآن مجید میں رب دو جہان نے بہت واضح لکھ دیا کہ بے شک دلوں کا سکون ذکرِ الٰہی میں ہے‘ دوسری طرف شیطان مردود نے بھی انسانی دل کو اپنی تمام مذموم اور ناپاک ریشہ دوانیوں کا مرکز بنایا اور یوں اپنی انسان دشمنی کیلئے تیار کی گئی سب چالیں‘ سب وارداتیں انسان کے دل میں اتارنے کا عہد کیا۔
انسان کے تزکیہ ِنفس ‘توحید کے اقرار اور شرک سے انکار کیلئے اللہ کریم نے حضرت آدم ؑ سے لے کر حضرت عیسیٰ ؑ تک ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیاء اور رسول بھیجے‘ تا کہ وہ بنی آدم کے دل میں ذکرِ الٰہی کے چراغ روشن کر سکیں اور شیطان کی چالوں اور ہتھکنڈوں سے اسے خبردار کریں۔ ہر قوم پر اللہ تعالیٰ نے نبی بھیجا اور اس کو پیغامِ ہدایت کا ذریعہ بنا کر انسان کو اشرف المخلوقات کے منصب کی پاسداری کی تعلیم و تربیت کی ذمہ داری دی۔ اللہ کے رسول فرش پر اور اس کے فرشتے اور ملائکہ عرش پر توحید الٰہی کے نغمے الاپتے رہے تو دوسری طرف شیطان بھی اپنی تمام مذموم چالوں سے انسان کو صراطِ مستقیم سے بھٹکنے پر مجبور کر تا رہا۔ ایک طرف اللہ کے ماننے والے اپنے دلوں کو ذکرِ الٰہی سے منور کرتے رہے تو دوسری طرف شیطانی قافلے کے پیروکار اپنے دل میں شکوک و شبہات کی وجہ سے گمراہی کے گھٹا ٹوپ اندھیروں میں بھٹکتے رہے‘ پھر اللہ تعالیٰ نے اس کائنات کی وجہ تخلیق کو حضرت عبداللہ اور بی بی آمنہ کے گھر اتارا اور ہمارے نبی آخر الزماں حضرت محمد ﷺ کی پیدائش ہوئی۔ آپ ﷺ کی پرورش کی ذمہ داری بنو سعد کی کنیز حضرت حلیمہ کے سپرد کی گئی۔ آپﷺاپنے رضاعی بھائیوں کے ہمراہ جنگل میں بکریاں چرانا شروع ہوئے تو چار سال کی عمر میں ایک روز جنگل میں حضرت جبرائیل ؑ اور میکائیل ؑ انسانی روپ میں حاضر ہوئے‘ آپ کا سینہ اطہر چاک کیا اور آپ کا دل نکال کر آسمان سے لائی گئی ایک سنہری کٹوری میں رکھا اسے صاف کیا اور پھر اذنِ الٰہی سے واپس آپ کے سینہ مبارک میں لگا دیا گیا۔ اس غیر معمولی واقعہ پر آپ کے رضاعی بھائی سخت پریشانی کے عالم میں گھر پہنچے اور اپنی والدہ حضرت حلیمہ سے یہ واقعہ بیان کیا اس پر وہ چلاتی ہوئی جنگل کی طرف دوڑیں تو دیکھا کہ آپ ﷺ ایک گھنے درخت کے سائے میں پُرسکون حالت میں تشریف فرما تھے۔ حضرت حلیمہ آپ کو لے کر واپس گھر پہنچیں۔ دوسری مرتبہ یہی عمل گیارہ سال کی عمر میں ‘ تیسری دفعہ نبوت کے وقت اور آخری مرتبہ معراج کی رات دہرایا گیا۔یوں حضرت محمد ﷺ کے قلبِ اطہر کو شیطانی صفات ‘ شہوانی عادات‘ نفسانی خواہشات اور جملہ بشری کمزوریوں سے پاک کر دیا گیا اور آپﷺ کو سدرۃ المنتہیٰ تک پہنچنے‘ ربِ دو جہاں سے شرفِ ملاقات اور اس سے جڑے ہوئے انوار و تجلیات کے لئے تیار کیا گیا ۔ در اصل یہ ساری تمہید ‘ تمثیل اور توضیح میں نے اس لئے پیش کی کہ عالم ارواح سے لے کر عالم ِ آب و گل تک انسانی دل کی منفرد اور نمایاں حیثیت ثابت کی جا سکے اور یہ نکتہ واضح کیا جائے کہ چشمِ ما روشن سے زیادہ مقدم ہے دل کے نگر کا آباد ہونا ۔ یہ لازم ہے کہ دل کی بستی میں نورِ ایمان اور توحید الٰہی کا ظہور ہو اور حب ِ مصطفی ﷺ کے پھول مہکائیں تو پھر چشمِ ماشاد قدرتی امر بن جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ میرے نزدیک دلِ ما روشن چشمِ ما شاد ہی درست اور فطری ترتیب ہے۔ یہ میرا یقین ِ محکم ہے کہ انسان کا دل دراصل وہ محور ہے ‘جو دین ِ حق کی بقاء اور سلامتی کا ضامن ہے ‘جو خیر اور شر کی روزِ ازل سے شروع ہونے والی معرکہ آرائی کا اصل میدانِ جنگ ہے۔ یہ حق و باطل کی پنجہ آزمائی میں انسان کو فرشتوں سے بلند مقام تک پہنچانے یا پھر وحشی درندوں سے بھی بد تر بنانے کا ذریعہ بنتا ہے۔
انسان اپنے تمام اعمال ‘ جملہ ارادوں اور ساری خواہشات کے نقطہ آغاز سے لے کر ان کے منطقی انجام تک دل کے تابع ہے‘ جس نے بھی اپنی نفسانی خواہشات اور انسانی کمزوریوں پر غلبہ حاصل کر لیا اور ذکرِ الٰہی سے دل کی دنیا آباد کر لی وہی انسان دونوں جہاں کی فلاح کا مستحق ٹھہرا‘ اُسی روشن دل میں ہی امید کے پھول کھلتے ہیں ‘ ایمان کے چراغ جلتے ہیں اور انسانی ہمدردی کے جذبات پروان چڑھتے ہیں۔ دل میں ماں کی محبت سر چڑھ بولے تو حضرت اویس قرنی کا مقام ملتا ہے اور عشقِ رسولﷺ کی دولت ہاتھ آتی ہے۔ یہ دل ہی تو ہے جس کی فصلِ گل کی آبیاری تمام انبیاء ‘ جملہ اولیاء ‘صحابہ اکرام‘ تابعین اجمعین اور صوفیاء اکرام ہمیشہ اپنی اولین ذمہ داری سمجھتے رہے اور انہوں نے کبھی بھی شیطانی وسوسوں سے اپنے دل کو کے چمن کو اجڑنے نہیں دیا‘ بلکہ شیطان کے تمام ناپاک ہتھکنڈوں کا ڈٹ کر مقابلہ کیا۔ انہوں نے ہمیشہ اپنے من کی دنیا میں ڈوب کر سراغِ زندگی پایا اور اپنا اصل مقصدِ حیات پہچانا۔ یہ دل ہی تو ہے جو قوتِ عشق سے روشن ہو تو پھر دہر میں بھی عشقِ محمدﷺ سے اُجالا ہو جاتا ہے اور انسان اپنے ربِ کریم کے بر گزیدہ بندوں میں شامل ہو جاتا ہے ‘لہٰذا ضروری امر یہ ہے کہ ہم اپنی دل کی دنیا ذکرِ الٰہی اور عشق ِ مصطفیﷺسے روشن کر لیں تو پھر ہماری چشمِ پرنم میں مایوسی کے آنسوئوں کی بجائے امید کی شبنم اتر آئے گی اور یوں دلِ ما روشن چشم ما شاد کی انوکھی ترتیب نہایت آسانی سے واضح ہو جائے گی۔اللہ تعالیٰ نے اپنے محبوبؐ کو رحمت ِ دو جہاں بنایا تو اس کی پوری تیاری کی ۔ یوں آپﷺ کے دل میں رحمت ‘ شفقت‘ محبت‘ ایثار‘ صبرو رضا‘ جودو سخا‘ فیاضی و غنا اور خیرالورایٰ کے جملہ اوصافِ حمیدہ اور جذباتِ جمیلہ کے صدا بہار چمن مہکا دیے ۔ گویا دل ہی وہ مرکزی مقام ہے جسے روشن کر کے انسان اپنے کردار کی معراج پا سکتا ہے ۔
یہ میری خوش نصیبی ہے کہ روز نامہ دنیا میں کالم لکھنے کا ارادہ کیا تو قارئین کرام کے دل کی دنیا روشن کرنے کا عہد کیااور اسی لیے کالم کا نام '' دلِ ما روشن ‘‘ منتخب کیا۔ میری دلی دعا ہے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ ہمارے دلوں کو ذکرِ الٰہی سے منور فرمائے اور انہیں عشقِ مصطفی ﷺ کا گہوارہ بنائے۔(آمین)