''سر میرا نالائق ترین کلاس فیلو ذیشان مجھ سے آگے نکل گیا۔یقین کیجئے اس میں رتی برابر بھی خود اعتمادی نہ تھی۔ اساتذہ کلاس میں کوئی سوال پوچھ لیتے تو ہکلاتے ہوئے سوال دہرانے کی درخواست کر کے ہمیشہ اپنی تذلیل کرواتا‘ جس دن اس کی پریزنٹیشن ہوتی کلاس میں اچھا خاصا لطیفہ بن جایا کرتا‘ کیونکہ ہم سب جانتے تھے کہ آواز کے ساتھ ساتھ ڈائس کے پیچھے اس کی ٹانگیں بھی بری طرح کانپ رہی ہوتیں‘‘۔ گورنمنٹ کالج یونیورسٹی ‘ فیصل آباد میں زیر تعلیم ایم بی اے فائنل ایئر کا طالب علم ارسلان میرے سامنے بیٹھا سی ایس ایس کی تیاری کے سلسلہ میں رہنمائی کیلئے موجود تھا اور مٹھیاں بھینچے اپنا المیہ بیان کر رہا تھا اور میں زیر لب مسکرا رہا تھا۔"''سر آپ مسکرا رہے ہیں؟‘‘اس نے دنیا جہان کا رنج لہجے میں سمو کر بے یقینی سے سوال کیا۔ نہیں! میں محض مسکراہٹ دبانے کی کوشش کر رہا ہوں‘ کیونکہ یہ صرف تمہارا المیہ نہیں‘ بلکہ ہزاروں نوجوان اسی کشمکش کا شکار ہیں کہ آخر دن رات کی انتھک محنت‘ دل میں ذوقِ جستجو‘ منزل تک پہنچنے کی خُواور پھر خوابوں کی تکمیل کی شدید آرزُو کے باوجود بھی انہیں کامیابی کیوں نہیں ملتی اور ناکامی ان کی طرف ایسے بھاگتی ہے‘ جیسے بچھڑے ہوئے بچے کو برسوں بعد سامنے پا کر ماں اس کی طرف لپکتی ہے اور پھر چھوڑنے کا نام نہیں لیتی ہے۔
یہاں پریہ امر بھی قابلِ ذکر ہے کہ بحیثیت ِمسلمان ہمارا مقصدصرف اس دنیا کی کامیابی نہیں‘ بلکہ آخرت کی فلاح بھی ہے۔ ہمارے ہاں ایسے لوگ بھی موجود ہیں‘ جو اس دنیا میں کامیابی کیلئے کوئی محنت طلب کام صرف اس لئے بھی نہیں کرتے کہ ان کے نزدیک یہ دنیا محض ایک عارضی ٹھکانہ ہے۔ انہیں یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ ہمارے دین ِحق میں راہبانیت کی کوئی گنجائش نہیں۔ دین اور دنیا کو ساتھ رکھنا پڑتا ہے اور دونوں جہانوں کی فلاح و کامیابی یقینی بنانے کیلئے اس جہانِ کا رزار سے اپنے کردار کی پختگی اور سچائی سے بخوبی گزرنا پڑتا ہے۔ صرف مسجد میں رہنے سے جنت نہیں ملتی ‘ اگر دنیا کی زندگی اتنی بے مقصد ہوتی تو یہاں لوگوں کی پوری زندگی ریاضت میں صرف نہ ہوتی۔ آخرت میں جواب دہی کا سوچ کر نفسیاتی خواہشات کو کچلنے کا تصور جنم نہ لیتا۔دراصل کامیابی نام ہی آزمائش کی بھٹی میں سے گزر کر منزل کو پالینے کا ہے۔بقول واصف علی واصفؔ:؎
چلے ہو ساتھ تو ہمت نہ ہارنا واصفؔ
کہ منزلوں کا تصور میرے سفر میں نہیں
''تو سر پھر ہم پوری محنت اور ذہانت کے باوجود ناکام کیوں ہوتے ہیں؟‘‘ اس نے اپنی پریشانی میں ایک اور سوال داغ دیا ۔ارسلان میاں !کامیابی کی پہلی شرط یہ ہے کہ آپ اپنے آپ کو پہچانیں ‘ اپنی ذات کو پہچانیں !تب جا کر آپ پر آپ کا مقصد ِحیات آشکارا ہو گا۔ در اصل اپنے من میں ڈوب کر سراغِ زندگی پانا ہی اولین شرط ہے۔ اس کے بعد پھر دعا ‘ رضا اور عطا کے تین اہم مراحل سے گزر کر دونوں جہاں کی فلاح و کامیابی یقینی بن جاتی ہے۔میں نے زندگی میں کامیابی کو بہت قریب سے دیکھا ہے اور یہ شرف مجھے اس لیے حاصل ہوا کہ میں نے اپنی ناکامیوں سے سیکھا اور یوں کامیابی کی رمز رمز سے واقف ہوا‘ تو سوچا آج اسی حوالے سے قلم اٹھائوں۔بات گو ذرا سی ہے‘بات عمر بھر کی ہے۔
کامیابی کا راز اتنا ہی آسان فہم ہے جتنا کہ دوسرے جماعت کی ریاضی کے سوالات‘ لیکن اسے سمجھنے کیلئے شعور کی آنکھ کا کھلا ہونا اور دل کا نرم ہونا ضروری ہے۔ دل کی نرمی کی شرط اس لیے رکھی‘ کیونکہ شعور کے باوجود بھی ہم بہت سی اہم باتیں نظر انداز کر جاتے ہیں ۔ حقیقی کامیابی کیلئے پہلا عمل دعا ہے‘ وہ دعا جو کوئی ایسا شخص آپ کیلئے کرے‘ جسے آپ نے بغیر کسی طمع یا لالچ اور ذاتی مفاد سے بالاتر ہو کر خالص اللہ کی رضا کیلئے کوئی فائدہ پہنچایا ہو ۔وہ بے نوا شخص اس دنیا میں آپ کو آپ کی نیکی کا بدلہ نہیں دے سکتا‘تو ایسی حالت میں وہ آپ کو صدقِ دل سے دعا دیتا ہے۔ یقین کیجئے اس کے منہ سے جو بھی دعائیہ کلمات نکلتے ہیں ‘وہ عرش والا کبھی رد نہیں کرتا اور اکثر جو آپ کے نالائق کلاس فیلوز آپ سے آگے نکل جاتے ہیں ‘یہ عین ممکن ہے کہ وہ دعائیں سمیٹنے میں آپ سے زیادہ خوش نصیب ہوں‘لہٰذا دعائیں لیتے رہا کریں۔ گھر میں یہ سلسلہ ماں باپ کی دعا سے شروع ہوتا ہے‘ پھر اللہ والوں کی دعائیں ہیں۔ دعا کے موتی غم کے ماروں کی دلجوئی اور اشک شوئی میں ملتے ہیں۔ آوازِ خلق نقارہ ِخدا بن جاتی ہے اور ربِ کریم عرش ِ بریں پر آپ کی زندگی میں آسانیاں اور آسودگی کا بندوبست فرما دیتے ہیں‘اگر آپ دعائوں کے حصول میں کامیاب ہو جائیں تو دعائیں سبب بنتی ہیں رضائے الٰہی کا۔ رضائے الٰہی آپ پر رضائے مصطفیﷺ کے خزانے کھول دیتی ہے۔
کہتے ہیں کہ اللہ تک پہنچنے کے بہت سے راستے ہیں‘ لیکن سب سے آسان راستہ مخلوق خدا سے ہو کر جاتا ہے اور جب مخلوقِ خدا‘ رب کے سامنے آپ کے واسطے دعا کیلئے ہاتھ بلند کر دے تو اللہ اور اللہ کے حبیبﷺ کی رضا آپ کے نصیب میں لکھ دی جاتی ہے اور جب اللہ اور اس کے محبوب ﷺ‘ آپ سے راضی ہو جائیں تو مخلوق ِخدا بھی راضی ہوجاتی ہے۔ ان دو مرحلوں سے گزر کر آپ آخری مرحلے میں داخل ہوجاتے ہیں‘ جسے عطا کہتے ہیں ؛ یہ دراصل اللہ تعالیٰ کی عطا ہے اور اس عطا کا آپ کی محنت یا ذہانت سے کوئی تعلق نہیں۔
عام مشاہدہ ہے کہ اللہ ان کو بھی عطا کر دیتا ہے‘ جنہوں نے سکول کی شکل تک نہیں دیکھی ہوتی۔ بلھے شاہ ‘ بابا فرید‘ سلطان باہو اور خواجہ فرید کبھی کسی سکول نہیں گئے‘ مگر لوگ ان ہستیوں پر پی ایچ ڈی کر رہے ہیں‘ یہ عطا ہی تو ہے‘پھر آپ وہ سب حاصل کر لیتے ہیں ‘جس کیلئے آپ نے خواب دیکھے ہوتے ہیں۔ عہدہ‘ دولت ‘ شہرت‘ اولادِ صالح غرض یہ کہ دنیا کی کسی بھی نعمت کی خواہش آپ کے دل میں جنم لے تو وہ آپ کو عطا کر دی جاتی ہے ۔ آپ دنیا کی نظر میں ایک کامیاب انسان ٹھہرنے کے ساتھ ساتھ اللہ کے پسندیدہ بندوں میں بھی شامل ہو جاتے ہیں ۔یوں دنیا اور آخرت کی بھلائی اور کامیابی آپ کا مقدر بن جاتی ہیں۔
اور ہاں جب اللہ تعالیٰ آپ کو عزت دینے کا فیصلہ کر لیتا ہے تو پھر اس کائنات کی ہر شے آپ کو منزل کی طرف دھکیلنے لگتی ہے۔ وہ لوگ جو بظاہر آپ کا اچھا نہیں سوچتے وہ بھی آپ کو نفع پہنچانے میں لگ جاتے ہیں۔ارسلان میاں! یاد رکھنا‘ جب ہم محنت کے باوجودمسلسل ناکام ہو رہے ہوں اور کامیابی ہمارے لیے ایک ٹیڑھی لکیر بن جائے تو سب سے پہلے ناکامی کی تہہ تک پہنچنا ضروری ہوتا ہے اور جب آپ اس حوالے سے سوچیں گے توآپ یقیناجان لیں گے کہ آپ پیدائشی سبز قدم ہر گز نہیں اور یہ جو قسمت سے بے بھائو کی پڑ رہی ہیں‘ ان کا سبب کچھ اور ہے ۔ آپ اپنی وضع بدلیں ‘قسمت خود ہی بدل جائے گی ‘پھر آپ کے نالائق کلاس فیلوز کبھی بھی آپ سے آگے نہیں نکل پائیں گے اور نہ ہی ان کے آگے نکل جانے کا المیہ کبھی آپ کیلئے سوہان ِروح ہوگا۔