دین ِ اسلام سے قبل ‘انسانی تاریخ کے اوراق پلٹیں تو عرب سے عجم تک‘ یورپ سے افریقہ اور افریقہ سے رو م تک عورت مردوں کے بنائے ہوئے درندگی ‘ حقارت اور جہالت کے دو پاٹوں کے درمیان پِستی چلی آ رہی تھی۔ محبت اور وفا کی مٹی سے گندھا ''بیٹی ‘‘کا یہ میٹھا لفظ عربوں کے لیے ایک گالی سے زیادہ وقعت نہ رکھتا تھا۔وہ اس کی پیدائش پر اُسے زندہ درگور کر کے بربریت اور سفاکیت کی ہر حدسے گزر جاتے۔جہالت کا عالم یہ تھا کہ اس روایت پر عمل نہ کرنے والے کو بے غیرت قرار دیا جاتا اور اسے اس قدر ذلیل کیا جاتا کہ بالآخروہ بھی اس مکروہ فعل پر مجبور ہو کر اپنے لخت ِجگر کو دو لخت اور اپنے ہی خون کا خون کر کے قبیلے میں سر خُروہو جانے پر فخر کرتا۔
مگر جہالت کے اس گھٹا ٹوپ اندھیرے کو نور ِاسلام سے منور کرنے کیلئے خالق ِدوجہاں نے خاتم النبین حضرت محمد ﷺکو مبعوث فرمایا تو آپ ﷺ نے اپنی رضائی والدہ حضرت حلیمہ سعدیہ کی عزت ‘ ازواجِ مطہرات سے حُسنِ سلوک اور اپنی بیٹی حضرت فاطمۃ الز ہراؓ کی تعظیم کر کے عورت کو تاریخِ انسانی میں پہلی مرتبہ بلند مقام پر فیض کر دیا‘ پھر وہ باپ جو اپنی بیٹیوں کو زندہ گاڑ کر فخر سے مکہ کی گلیوں میں دندناتے پھرتے تھے ‘قرآن کی تعلیمات اور آپﷺ کے فرمودات سے نورِہدایت پاکر اپنے کیے پر اس قدر پشیمان ہوئے کے تھپـڑوں سے اپنے ہی چہرے سرخ کر ڈالے ۔ جب وہ دیکھتے کہ نبی پاکﷺ اپنی بیٹی کے استقبال کے لیے اپنی نشست سے اٹھ کر تعظیماًکھڑے ہو جاتے اور ان کیلئے اپنی چادرِ اطہر بچھا دیتے تو مکہ والے اہلِ ایمان اپنی بیٹیوں پر ناز کرتے۔ جب وہ سنتے کہ نبی آخر الزماں محمد ﷺ اپنی بیٹی کو جنتی عورتوں کی سردار پکارتے ہیں تو انہیں اپنی بیٹیوں پر فخر محسوس ہوتا۔سرکارِ دوعالم‘ رحمت دو جہاں ﷺنے ایک مرتبہ ہاتھ کی درمیان والی دو انگلیاں ملاتے ہوئے فرمایا کہ ''جس نے اپنی دو بیٹیوں کی اچھی طرح پرورش کی ‘وہ قیامت والے دن اس طرح اُن کے ساتھ ہوگا‘‘۔الغرض یہ ہے اسلام کا اصل ‘روشن اور تابناک چہرہ ‘جس پر آج بھی ہمیں بطورِ مسلمان فخر ہے۔
مگر صد افسوس کہ پاکستانی معاشرے میں آج بھی ہم عورت کو اس کے کئی بنیادی حقوق دینے سے گریزاں ہیں ۔ہو نا تو یہ چاہیے تھا کہ ہم نبی ِآخرالزماں ‘شفیع ِدوجہاں ﷺکی سنت کو سینے سے لگا کر رکھتے اور بیٹی کو نورِ چشم بنا کر رکھتے‘ مگر ہم نے کیا کِیا؟ غیرت کے نام پر عورت کا قتل ‘نام نہادغیرت مند مردوں کاپسندیدہ مشغلہ ہے۔اکثر درندہ صفت مرد رشتہ سے انکا رکی صورت میں لڑکی کا چہرہ تیزاب سے جلانا اپنا حق سمجھتے ہیں۔ایک طرف قبائل میں آج بھی کاروکاری‘وٹہ سٹہ اور ونی جیسی انسانیت سوز رسمیں عورت کی شہ رگ چھلنی کر رہی ہیں تو دوسری طرف شہروں اور پڑھے لکھے خاندانوں میں آج بھی بیٹی کی پیدائش پر پھیکی مسکراہٹ کے علاوہ کچھ نہیں ملتا۔وہ عورت‘ جس سے تیسری بیٹی پیدا کرنے کا ''جرم‘‘ سرزد ہوجائے یا تو طلاق کا داغ دے کر رخصت کر دی جاتی ہے یا پھر تین بیٹیاں پیدا کرنے والی بہُو کے کچن کا سلنڈر اکثر حادثاتی طور پر پھٹ جاتا ہے ‘جس میں وہ بدنصیب بہو جھلس کر زندگی سے ہی ہاتھ دھو بیٹھتی ہے۔ جائداد کے تحفظ کی خاطر آج بھی لڑکیوں کی شادی قرآن سے کر دینے کی رسم زندہ ٔ جاوید ہے۔
دوسری طرف یہ امر قابلِ راحت و تسکین ہے کہ آج بھی ہمارے ملک میں تعصبات کے سمندر میں کچھ جزیرے موجود ہیں ‘جہاں بیٹیوں کو بیٹوں کے برابر عزت ‘ اہمیت اور فوقیت حاصل ہے۔ ایسے گِنے چُنے گھرانے اور والدین موجود ہیں‘ جنہوں نے اپنی بیٹیوں کو بہترین تعلیم اور مثالی تربیت کے زیور سے آراستہ کر کے انہیں اپنی زندگی میں بڑے خواب دیکھنے کا حق بھی دیا اور اس کیلئے تمام سہولتیں اور مواقع بھی فراہم کئے۔ انہی خوش نصیب گھرانوں میں ایک گھرانہ ہری پور کے ملک رفیق اعوان صاحب کا ہے ‘جو واپڈا سے ریٹائرڈ آفیسر ہیں۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے انہیں پانچ بیٹیوں کی دولت سے نوازا ‘تو ان کے خاندان نے انہیں طرح طرح کی باتیں کیں‘ طعنے دیے اور دل دکھایا ‘ مگر ملک رفیق اعوان صاحب اور ان کی شریکِ حیات محترمہ خورشید چوہدری جو کہ خود بھی گریجوایٹ ہیں‘انہوں نے اپنی پانچوں بیٹیوں کو سنتِ نبویﷺ سمجھ کر اور باعثِ رحمت جان کر بہترین تعلیم اور مثالی تربیت کے تمام مواقع فراہم کئے۔اس حوالے سے محترمہ خورشید چوہدری کی پانچوں بیٹیاں قابلِ تحسین ہیں کہ انہوں نے اپنے والدین کے تمام خواب چُن چُن کر نا صرف پورے کئے‘ بلکہ پاکستانی سول سروس کی تاریخ میں ایک نئے باب کا اضافہ کیا۔
حال ہی میں 17جون کو سی ایس ایس 2019ء کے حتمی نتائج کا اعلان ہوا تو ملک رفیق اعوان صاحب کی سب سے چھوٹی بیٹی ضحی بھی اپنی چار بڑی بہنوں کے نقشِ پا پہ چلتے ہوئے کامیاب ٹھہری۔ تو کچھ ہی لمحات میں ان کے راولپنڈی والے گھر میں میڈیا نمائندگان اور عزیز و اقارب کا تانتا بندھ گیا۔
تاریخ لکھے گی کہ ان پانچ بیٹیوں کا باپ ملک رفیق اعوان‘ وہ روایت شکن انسان تھا کہ جب اس کی پانچویں بیٹی ضحی کی پیدائش پر خاندان والے اظہارِافسوس کرنے آئے تو اس نے ننھی ضحی کو گود میں لے کر اس کا ماتھا چوما اور فخر سے کہا کہ '' اس کی بیٹی روشنی کی وہ کرن ثابت ہوگی ‘ جوجہالت کے اندھیروں کو اپنی اعلیٰ تعلیم وتربیت‘محنت ولگن‘عزم وہمت اور فہم و ادراک سے نگل جائے گی‘‘۔
اور پھر دنیا نے دیکھا کہ رفیق اعوان کا کہا ہوا حرف حرف سچ ثابت ہوا اور اس کی وہ بیٹیاں‘ جن کی پیدائش پر انہیں اور ان کی شریک ِ حیات محترمہ خورشید چوہدری کو طرح طرح کے طعنے سننے کو ملے‘مگر انہوں نے اپنی بیٹیوں کی آگے بڑھنے کی لگن کو دیکھ کر فیصلہ کیا کہ وہ معاشرے کی ان فرسودہ روایات کو جڑ سے اکھاڑ پھینکیں گے ‘جہاں بیٹیوں کو بوجھ سمجھا جاتا ہے۔محترمہ خورشید چوہدری کی بڑی بیٹی لیلیٰ ملک شیر ‘آج کل بطورِ ڈپٹی کمشنر ان لینڈ ریونیو کراچی میں اپنی خدمات سر انجام دے رہی ہیں۔شیریں ملک شیر کامیابی کی روایت کو برقرار رکھتے ہوئے سول سروسز کے لیے منتخب ہو کر بطورِ ڈائریکٹر ایڈمنسٹریشن ‘ نیشنل ہائی وے ‘ اسلام آباد میں اپنے فرائض ِ منصبی انجام دے رہی ہیں۔تیسری بیٹی سسی ملک شیر ڈپٹی سی ای او کے عہدے پر فائز ہیں‘ جبکہ ماروی ملک شیر‘ خیبر پختونخوا کی صوبائی سول سروس میں کامیابی حاصل کر کے بطورِ ایڈیشنل اسسٹنٹ کمشنر اپنی خدمات انجام دے رہی ہیں اور اب‘ ضحی ملک شیر نے سول سروسز کا امتحان پاس کر کے نا صرف والدین کا سر فخر سے بلند کیا ‘بلکہ تاریخ ِپاکستان میں ایک روشن باب کا بھی اضافہ کر دیا۔قابلِ صد تحسین ہیں ملک رفیق اعوان صاحب‘ جیسے اعلیٰ ظرف والد اور محترمہ خورشید چوہدری جیسی عظیم اور بلند حوصلہ ماں کہ جنہوں نے معاشرے کو ایک نئی سوچ دی‘ بیٹی کو ایک نیامفہوم دیا‘ وطن ِعزیز کو پانچ پُروقار اور محب الوطن آفیسرسے نوازا۔
دو روز قبل اس سنہری کامیابی پر میں نے سب سے چھوٹی بہن ضحی ملک شیرکو مبارکباد پیش کی اور اس کالم کے لیے ضروری معلومات حاصل کیں تو یقینا وہ خود اعتمادی اور عاجزی کا مجسمہ نظر آئیں ۔ مجھے ذاتی طور پہ ملک رفیق اعوان صاحب اور ان کی شریکِ حیات سے صرف ایک بات پر اختلاف ہے کہ جب ان پانچ قابلِ فخر بیٹیوں کی والدہ سے صحافی نے پوچھا کہ کیا آپ کو کبھی بیٹے کی کمی محسوس ہوئی؟ تو اس موقع پر محترمہ خورشید چوہدری نے ایک تفاخرانہ نظر اپنی بیٹیوں پر ڈالی اورمضبوط لہجے میں جواب دیا ''بالکل نہیں !‘‘ وہ کہنے لگی کہ '' ان کی ہر ایک بیٹی پانچ سو بیٹوں پر بھاری ہے ‘‘اور اسی بات سے مجھے اختلاف ہے کہ محترمہ خورشید صاحبہ نے انتہائی عاجزی سے اور اعداد و شمار کو نظر انداز کرتے ہوئے یہ بات کہی ۔پاکستان میں خواتین کی آبادی اور سول سروسز میں نمائندگی کو مدنظر رکھا جائے تو مجھے یہ کہنے میں کوئی عار نہیں کہ ان کی ہر بیٹی لاکھوں بیٹوں پر بھاری ہے ۔