معصوم سی خواہش!

گزشتہ رات پھر ایک پرائیویٹ سفید کرولا کار‘ نیلی گھومتی ہوئی لائٹ کے ساتھ مجھے اوور ٹیک کرتے ہوئے برق رفتاری سے گزری اور لمحوں میں میری نظروں سے اوجھل ہو گئی۔ ایک دفعہ پھر میرے ذہن پر نقش سینکڑوں واقعات تازہ ہو گئے تو میں سوچنے لگا کہ اس کالم میں کم از کم تین واقعات آپ کی خدمت میں پیش کروں:۔
پہلا واقعہ مجھے کوئی سولہ سترہ برس پہلے اس وقت کے ڈی پی او منڈی بہائوالدین نے سنایا‘ جو آج کل ایک صوبے میں ایڈیشنل آئی جی پولیس ہیں۔ کہنے لگے کہ ایک اتوار کی شام وہ اپنے لاہور والے گھر سے واپس ڈیوٹی پر منڈی بہائوالدین کے لیے روانہ ہوئے۔ موٹروے سالم انٹر چینج سے اُتر کر تھانہ گوجرہ کراس کرتے ہوئے جا رہے تھے کہ سامنے سے ایک نیلی بتی والی گاڑی تیزی سے آئی اور انہیں کراس کر گئی۔ جب ان کی نظر پڑی تو وہ ایک پرائیویٹ کرولا کار تھی‘تو فوراً اپنی سرکاری گاڑی میں بیٹھے وائرلیس آپریٹر کے ذریعے تھانہ گوجرہ اطلاع دی کہ تھانہ کے سامنے لگے بیریئرپر اس گاڑی کو روکا جائے اور چیک کیا جائے‘ جبکہ ڈی پی او نے بھی اپنی گاڑی واپس موڑ کر اس سفید کار کا تعاقب شروع کر دیا؛ چونکہ بیریئر پر موجود پولیس اہلکار تھوڑی دیر قبل ہی ڈی پی او صاحب کو گزرتے ہوئے دیکھ کر پوری طرح چوکس کھڑے تھے اور وائرلیس کی اطلاع نے انہیں مزید مستعد کر دیا۔ کچھ ہی لمحات میں وہ سفید کرولا کار تھانہ گوجرہ کے سامنے بیریئر پر دھر لی گئی۔ اس میں سوار ڈرئیور کے علاوہ دو اور لوگ تھے‘ جو کہ منڈی بہائوالدین کے ایک متوسط زمیندار گھرانے سے تعلق رکھتے تھے اور لاہور پولیس میں بطور ِکانسٹیبل تعینات تھے۔ ابھی ابتدائی پوچھ گچھ شروع ہی ہوئی تھی کہ ڈی پی او صاحب بھی خود موقع پر پہنچ گئے۔ دورانِ تفتیش پتا چلا کہ جب بھی یہ دونوں بھائی لاہور سے گھر چھٹی آتے تو شاپر میں نیلی لائٹ ساتھ لاتے۔ موٹروے سالم انٹر چینج تک لفٹ لے کر پہنچتے اور اپنے گائوں سے ٹیکسی کار منگواتے ‘اس پر نیلی گھومتی ہوئی لائٹ لگاتے اور سرِشام اپنے گائوں میں بڑی شان و شوکت کے ساتھ پہنچ جاتے۔ بالکل اُسی انداز سے واپسی پر اتوار کی رات گائوں سے نکلتے اور پورے علاقے کو اپنے محکمے کا دبدبہ دکھاتے ہوئے موٹروے پرپہنچتے ‘ وہاں پھر لفٹ لے کر یا کسی بس کو روک کر لاہور پہنچ جاتے اور نیلی بتی شاپر میں ڈال لیتے۔ جب ڈی پی اوصاحب نے ان سے پوچھا کہ وہ ایسا کیوں کرتے ہیں تو ان کا جواب سُن کر خود ڈی پی او صاحب لاجواب ہو گئے۔ ''صاحب جی! ہم شریکوں والے بندے ہیں اور نیلی بتی لگا کر گائوں میں آنے جانے سے ہماری چوہدراہٹ بنی ہوئی ہے۔ ویسے بھی سر! اس معصوم سی خواہش کی وجہ سے کسی کا کیا نقصان ہوتا ہے۔ ‘‘ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ اس واقعہ پر ہم دونوں کافی دیر ہنستے رہے تھے۔
دوسرا واقعہ مجھے میرے استاد انسپکٹر بلوچ صاحب نے سنایا کہ وہ ایک دیہاتی علاقے کے تھانے میں ایس ایچ او تعینات تھے ۔ایک رات بسلسلہ گشت سرکاری گاڑی میں ایک ذیلی سڑک پر موجود تھے تو سامنے سے آنے والی ایک کار پر نیلی لائٹ ‘بہت بڑی سبز نمبر پلیٹ اور جھنڈے کے لیے لگا ہواسپیشل ڈنڈا اور اس کے اُوپر چمڑے کا کور بھی دِکھائی دیا۔ بلوچ صاحب کہنے لگے کہ گاڑی کی وضع قطع دیکھ کر میں ذرا دب گیا اور اپنے ڈرائیور کو گاڑی ایک طرف کرنے کا کہا؛ ایسے محسوس ہوتا ہے کہ جیسے کسی جسٹس صاحب کی گاڑی ہو‘ لیکن فوراً خیال آیا کہ کوئی جعلی ڈراما بھی ہو سکتا ہے۔ شک کی بنیاد پر میں نے گاڑی رکوانے کا فیصلہ کیا۔ جب گاڑی کو ڈرتے ڈرتے چیک کی گیا تو دیکھا کہ گاڑی کی سبز نمبر پلیٹ کے اوپر والے حصے پر ''ناظم یونین کونسل ‘‘کے الفاظ تانبے میں مزّین تھے اور موصوف ناظم خود گاڑی چلا رہتے تھے۔ اس کے بعد انسپکٹر بلوچ صاحب نے ناظم صاحب کی معصوم سی خواہش کے ساتھ کیا سلوک کیا ؟یہ انہوں نے نہیں بتایا۔ استاد کا لفظ اس لیے لکھا کہ میں نے بطور زیر تربیت پولیس انسپکٹر ڈی کورس کے دوران بلوچ صاحب کی شاگردی میں بہت کچھ سیکھا۔
تیسرا واقعہ میری پولیس میں بطورِ ایس ایچ او تھانہ صدر فیصل آباد کی تعیناتی کا ہے۔ جنوری 2001ء کی ایک سرد رات تھی اور میرے ایک دیرینہ دوست بھٹہ صاحب‘ مجھے ملتان سے لاہور جاتے ہوئے ملنے آئے۔ رات کا کھانا میرے ساتھ تھانے میں کھایا۔ ابھی ہم چائے پی رہے تھے تو مجھے اطلاع ملی کہ اگلی صبح لاہور ہائی کورٹ ایک مقدمے میں ریکارڈ سمیت حاضر ہونا ہے۔میں نے بھٹہ صاحب کی موجودگی کو غنیمت جانا اور اُن کے ساتھ لاہور کے سفر کا ارادہ کیا ۔ مِثل مقدمہ گاڑی کی پچھلی سیٹ پہ رکھوا دی اور ایک وردی ہینگر پر لگوا کر ڈرائیونگ سیٹ کے عقب میں گاڑی کی دستی پر لٹکا دی۔ میں نے گاڑی کی ڈرائیونگ سیٹ سنبھالی اور بھٹہ صاحب فرنٹ سیٹ پر براجمان ہو گئے۔ گاڑی میں بیٹھتے ہی بھٹہ صاحب نے اپنی معصوم سی خواہش کا اظہار کرتے ہوئے گاڑی پر نیلی بتی لگانے کا مطالبہ کیا اور اپنی دلیل میں یہ فرمایا کہ براستہ شاہ کوٹ‘ شیخوپورہ سردیوں کی کالی سیاہ رات میں لاہور کا سفر غیر محفوظ بھی ہو سکتا ہے‘ لہٰذا نیلی بتی ہمیں تحفظ دے گی۔ میں نے وہ مطالبہ ساری دلیلوں سمیت مسترد کر دیا اور رات نو بجے ہم تھانہ صدر فیصل آباد سے لاہور کے لیے روانہ ہو گئے۔ ٹھیک پندرہ منٹ بعد میرے ہی تھانہ کا نا کہ مکّو آنہ آگیا۔ نا کے پر پہنچتے ہی ہمیں رکنے کا اشارہ ہوا۔ سیل والی بیٹری سے اہلکاروں نے گاڑی کی طرف دیکھا۔ میں نے شیشہ نیچے کیا۔ مجھے پہچان کر انہوں نے سیلوٹ کیا اور میں انہیں شاباش دیتا ہوا آگے بڑھ گیا۔ اس کے بعد راوی ٹال پلازہ لاہور تک ہمیں لگ بھگ دس بارہ مرتبہ پولیس کے ناکوں پر روکا گیا۔ وہی بیٹری لیے پولیس اہلکار ہماری جانب بڑھے۔ کہاں سے آرہے ہیں؟ کدھر جا رہے ہیں؟ ذرا ڈِگی کھولیں۔ باہر تشریف لائیں۔ گاڑی کے کاغذات دکھائیں۔ میں نے بڑی خندہ پیشانی کے ساتھ اُن کے ہر سوال کا جواب دیا اور یوں ہم رات بارہ بجے بخیر و عافیت لاہور پہنچ گئے۔ 
سارے راستے میں بھٹہ صاحب‘ نیلی بتی والی دلیلیں دہراتے رہے اور مجھے میری غلطی کا احساس دِلاتے رہے‘ مگر میں ٹَس سے مَس نہ ہوا۔ بھٹہ صاحب نے اُکتا کر مجھے ایک بُزدل‘ نِکمّا اور ناکارہ پولیس افسر قرار دیا اور آئندہ میرے ساتھ سفر نہ کرنے کا اعلان فرمایا۔ وہ بھی بہت بااُصول آدمی ہیں۔ ہماری گہری دوستی کے باوجود آج تک اپنی بات پر قائم ہیں اور ہم دوبارہ اکٹھے سفر نہیں کر سکے۔ مشترکہ دوستوں میں میری خوب دُرگت بناتے ہیں اور اُس رات والے سفر میں میری ''بزدلی ‘‘کا قصہ مزے لے کر سناتے ہیں۔ کہتے ہیں کہ مجھے ایک ہی گلہ ہے کہ یہ صاحب اگر میری معصوم سی خواہش کے احترام میں نیلی بتی لگا لیتے تو ہمیں جگہ جگہ پولیس کے ہاتھوں ''ذلیل‘‘ نہ ہونا پڑتا۔ میرا جواب ہمیشہ بڑا سادہ ہوتا ہے کہ آپ کی پرائیویٹ گاڑی پر نیلی بتی لگانا خلافِ قانون عمل تھا اور میں قانون کا محافظ خود اس جرم کا ارتقاب کیسے کرتا ؟ویسے بھی پولیس سارے سفر میں ہمارے تحفظ کو یقینی بنانے کے لیے ہر جگہ مستعد نظر آئی اور یوں ہمارا سفر محفوظ رہا۔ 
اب دل میں یہ خیال آتا ہے کہ اپنی زندگی میں ہی بھٹہ صاحب سے معافی مانگ لوں۔ میری وجہ سے اُن کی دل آزاری ہوئی اور بطورِ دوست میں اُس رات اُن کی امیدوں پر پورا نہ اُتر سکا۔ جب ہر دوسری موٹر سائیکل پر صحافی‘ پریس‘ وکیل‘ اٹارنی ‘ بینک افسر‘ چیئر مین‘ نمبر دار اور بہت سے دیگر خود ساختہ عہدے اور محکمے دیکھتا ہوں اور بڑی بڑی گاڑیوں پر مختلف رنگ و نسل کی نمبر پلیٹوں کے علاوہ گھومتی ہوئی نیلی لائٹس بھی نظر آتی ہیں تو میں بھٹہ صاحب کے سامنے واقعی خود کو ''شرمندہ ‘‘محسوس کرتا ہوں۔
ہو سکتا ہے کہ اپنی اس ''غلطی ‘‘کی تلافی کے لیے کسی روز اپنی سرکاری گاڑی پر نیلی بتی لگائوں ‘بھٹہ صاحب کے میاں چنوں والے گھر پہنچ کر انہیں ساتھ بٹھائوں اور رات نو بجے براستہ ساہیوال لاہور کے لیے روانہ ہو جائوں!

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں