وقت سے کون کہے‘ یار! ذرا آہستہ!

سُوت کی ''اٹی‘‘ اُتارتے ہوئے تکلے کی تیز نوک اُس کی اُنگلی میں چُبھی تو سوچ میں ڈوبی بُڑھیا چونک گئی۔ اُسے بے اختیار یہ خیال آیا کہ چرخہ کاتتے اُسے صدیاں گزر چکی ہیں۔ اُس کی سونے کی سی رنگت خاک ہوئی، وجود جھریوں سے اَٹ گیا، شباب کا دریا اتر گیا اور ناقابلِ شکست پیری میں بھی اُسے یہ مشقّت تا دمِ مرگ انجام دینا تھی۔
ایک نظر بڑھیا نے اپنی انگلی پر ڈالی جہاں خون کا ایک قطرہ جم چکا تھا اور دوسری نظر چاند سے دو لاکھ چالیس ہزار میل کی دوری پر موجود زمین کے شمال و جنوب، مشرق و مغرب میں بسنے والے انسانوں کا احاطہ کرنے لگی۔ تاریخِ انسانی کے تمام عروج و زوال کی داستانیں پل بھر میں اُس کی چشمِ تَر میں اُتر آئیں۔ پھر یہ نگاہ برصغیر پاک و ہند میں مغلیہ سلطنت کے آخری ایّام کے ایک منظر (زمانہ ہے 1850کے لگ بھگ اور مقام ہے دہلی) پر جا کر ٹھہر گئی ۔
اس منظر نامے میں مشرق سے اُبھرتے ہوئے سورج کی کرنوں کے ساتھ ہی لال قَلعہ کے شاہی محل میں سرُور و نشاط کی محفلیں اپنے اختتام کو پہنچتی ہیں۔ شاعر داد سمیٹ کر اٹھنے لگتے ہیں۔ رات بھر تازگی بخشنے والے پھول اب باسی دکھائی دے رہے ہیں۔ شمعیں گُل کر دی جاتی ہیں‘جس کے بعد بادشاہ سلامت اور عمائدین اپنی اپنی خواب گاہوں کا رُخ کرتے ہیں جہاں سے واپسی غروبِ آفتاب سے پیشتر ممکن دکھائی نہیں دیتی۔
اس کے برعکس ایسٹ انڈیا کمپنی کے گورے افسران اور ملازمین رات کی پُرکیف نیند لے کر جاگ چکے ہیں۔ انگریز خواتین گھوڑوں پر سوار ہو کر قدرتی خوبصورتی کو رگ و جاں میں سمو رہی ہیں۔ صبح سات بجے تک انگریز افسران اپنی اپنی کرسیاں سنبھال چکے ہیں۔ ایسٹ انڈیا کمپنی کے سفیر مسٹر تھامس مٹکاف دوپہر تک کام کا بیشتر حصہ نمٹا کر بہادر شاہ ظفر کے تازہ ترین حالات کا تجزیہ آگرہ اور کلکتہ روانہ کر چکے ہیں۔
بڑھیا کی نگاہ پلٹی اور ایک پاکستانی گھر کے منظر پر جا کر رک گئی۔ (زمانہ 2017ء وقت رات 3بجے) یہ ایک نوجوان کا کمرہ تھا جس کی کھڑکی میں سے چاند جھانک رہا تھا۔ نوجوان ابھی ابھی وڈیو کال سے فارغ ہوا تھا اور فیس بک پر جھلملاتی تصویروں میں پوری طرح غرق ہو چکا تھا۔
بڑھیا کی حیران کُن نگاہ پلٹی تو راستے میں ایک اور منظر سے ٹکرا گئی۔ یہ امریکی شہر نیویارک کی ایک سائنس لیب کا منظر تھا جہاں ایک نوجوان سائنسدان تجربات میں اس قدر منہمک تھا کہ اسے خود پر رُکی ہوئی بُڑھیا کی گہری نظر کا احساس تک نہیں ہوا۔ ''پھر پلٹ کر نگاہ نہیں آئی!‘‘ چند سالوں بعد قہوہ خانے پر بیٹھے چند پاکستانی نوجوان یہ تبصرہ کر رہے تھے کہ ''گورے بلا کے ذہین ہوتے ہیںاور انہوں نے سائنس کی دنیا میں تہلکہ مچا رکھا ہے‘‘۔ پھر سائنسی ایجادات سے شروع ہونے والی نوجوانوں کی اِس گفتگو کا رُخ انسٹاگرام پر فالوورز بڑھانے کے طریقوں کی طرف مڑ جاتا ہے۔ اس سارے عمل کے دوران چاند پر بیٹھی بڑھیا کے ہاتھ چرخہ کاتتے ہوئے ایک لمحے کے لئے بھی نہیں رکتے اور رکیں بھی توکیسے! یہ ہاتھ تو وقت کا استعارہ ہیں جنہیں بس چلتے رہنا ہے۔
زمین پر بسنے والے انسانوں کی تقسیم‘ رنگ، نسل، مذہب، قومیت، سیاست اور جغرافیائی حدود کی بنا پر کرنے بیٹھوں تو بات بہت دور تلک جائے گی۔ وقت کی قدر و منزلت اور بہترین استعمال کے اعتبار سے میں انسانوں کو تین دائروں میں چلتا ہوا دیکھتا ہوں۔ پہلی صف میں وہ لوگ شامل ہیں جنہیں دنیا '' لیجنڈز‘‘ پکارتی ہے، تاریخ جن کی باندی اور عہد جن کے نام سے زندگی پاتا ہے اور جو اربابِ نشاط کے نغموں کی زینت ہوتے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جن کا دن طویل اور رات مختصر ہوتی ہے۔ جو اوقاتِ کار کے اتنے پابند ہوتے ہیں کہ چند منٹ ضائع ہو جائیں تو افسوس اور تاسّف سے اُن کی رنگت پھیکی پڑ جاتی ہے۔ وقت کو متاعِ جاں اور اثاثۂ حیات سمجھنے والوں کو وقت پلکوں پر بٹھاتا ہے اور یہ دنیا کے عظیم مصلح، حکمران، سپہ سالار، سائنس دان، فلسفی، تاجر اور تخلیق کار کے طور پر تاریخ کے سینے پر ثبت ہو جاتے ہیں۔ یہ ہر لمحہ کچھ نیا سوچتے ہیں اور ہر دن کچھ نیا کر دکھانے کا عزم لیے اپنی صبحِ پُرنور کا آغاز کر تے ہیں۔ یہ دنیا کے نقشے پر کچھ اَن مٹ نقوش چھوڑنے کی خُو میں لگے رہتے ہیں۔ اِن سب عظیم انسانوں کا دن صبح سویرے پرندوں کی چہکار کے ساتھ شروع ہو جاتا ہے اور یہ روزانہ کم و بیش پندرہ سولہ گھنٹے کام کرتے ہیں۔
دوسری صف میں وہ لوگ نظر آتے ہیں جو اس قابل تو ہوتے ہیں کہ اپنا بوجھ خود اٹھا سکیں مگر سطحی سوچ اور محدود اہداف سے آگے نہیں بڑھ سکتے۔ یہ زندگی کے وسیع تر اسرار و رموز سے تادمِ مرگ بے خبر رہتے ہیں۔ اِن کا دن صبح نو بجے شروع ہو کر شام پانچ بجے تک تمام ہو جاتا ہے۔ یہ لوگ خود زندگی کو کوئی نیا مفہوم عطا کرنے کے بجائے دوسروں کے دیے ہوئے معنی کی وضاحت میں تمام عمر گزار دیتے ہیں۔ یوں اِن کی زندگی ایک محدود دائرے میں گھومتی رہتی ہے۔
تیسری اور سب سے طویل صف اُن خواتین و حضرات کی ہے جو پہلے اپنے ہاتھوں وقت کو تباہ کرتے ہیں اور پھر خود وقت کے ہاتھوں برباد ہو کر اپنی تباہی کا سوگ مناتے رہتے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جو صرف دل کے اشاروں پر اپنی تمام عمر گزار دیتے ہیں۔ جب دل کیا سوگئے، آنکھ کھلی توجاگ اُٹھے، شام پانچ بجے لنچ کر لیا اور دل چاہا تو رات دو بجے ڈنر کی غرض سے کچن میں جا گھسے۔ ایسے لوگوں کا کوئی مقصدِ حیات نہیں ہوتا اورنہ انہیں زندگی کی گہرائیوں سے کوئی دلچسپی ہوتی ہے۔ ان کی زندگی پاپ میوزک کی مانند ہوتی ہے جو بجتی ہے تو شور کرتی ہے اور پھر اچانک بِلامقصد تھم جاتی ہے۔ بے نیل و مرام یہ ہستیاں جب صفحۂ ہستی سے مٹائی جاتی ہیں تو زمان و مکاں کے کان پر جوں تک نہیں رینگتی۔ یہ لوگ غبارِ سیاہ کی مانند فضا میں بکھر جاتے ہیں اور کسی ایک شخص کے بھی کاروبارِ حیات میں خلل واقع نہیں ہوتا۔
جہاں پہلی صف سے تعلق رکھنے والے قومی مشاہیر اور بین الاقوامی قد کاٹھ کی شخصیات کا وصال کروڑ دِلوں کو لرزا دیتا ہے، دشمنوں کی رکی سانسیں بحال کرتا ہے، دنیائے سیاست پر اَنمٹ نقوش چھوڑتا ہے، مورخین کو واقعات کی ترتیب اور سوانح نگاروں کو اعداد و شمار جمع کرنے پہ لگا دیتا ہے، وہیں تیسری صف والے کی موت کرۂ ارض پر سوائے ایک اضافی قبر کے اور کوئی وقعت نہیں رکھتی۔
یہ بات روزِ روشن کی طرح عیاں ہے کہ افراد ہوں یا اقوام، معاشرے ہوں یا ممالک، ترقی اور خوشحالی کی شاہراہ پر گامزن وہی نظر آتے ہیں جنہوں نے ایک ایک لمحے کو پوری دیانت داری اور سچی لگن سے اپنی کامیابی یقینی بنانے کے لئے خوب استعمال کیا۔ اب آپ خود فیصلہ کریں کہ وقت کے اس بہتے دھارے میں آپ اپنے آپ کو کہاں دیکھتے ہیں؟ ہماری آنکھوں میں طلوعِ آفتاب کا منظر گہنا چکا ہے اور چاندنی راتوں کے رومانس میں کھوئی ہماری نوجوان نسل کو یہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ ایک دن میں چوبیس گھنٹے کا وقت سب کو ملتا ہے۔ اب یہ آپ پر منحصر ہے کہ آپ خود کو کون سی صف میں دیکھنا چاہتے ہیں۔
یاد رکھیں! وقت بہت عجیب شے ہے، یہ بیک وقت ظالم بھی ہے اور ہمدرد بھی، سخت گیر بھی ہے اور نرم مزاج بھی، عزتوں کے تاج بھی پہناتا ہے اور ذِلتوں کی اتھاہ گہرائیوں میں بھی دھکیل دیتا ہے۔ وقت کے پیروں میں زنجیر نہیں ڈالی جا سکتی۔ ہاں! اگر اس کے گلے میں محنت کے ہار ڈالے جائیں تو آپ کا شمار صفِ اول کے لوگوں میں ہو سکتا ہے اور یہ جان لیں کہ کبھی چاند پر چرخہ کاتتی بڑھیا کی نگاہ آپ پر پڑی تو وہ نولکھے چرخے کی میٹھی کوک پر آپ کے لئے نغمات گائے بنا نہیں رہ پائے گی۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں