کیا قائداعظم کے بغیر قیامِ پاکستان ممکن تھا؟

''اگر سہنا ایک صوبے کا گورنر بن سکتا ہے تو کوئی دوسرا کیوں نہیں بن سکتا؟ اگر سہنا لارڈ کا خطاب حاصل کر سکتا ہے تو کسی اور کو کیوں نہیں مل سکتا؟‘‘ برطانوی وزیرِاعظم لارڈ ریمزے میکڈونلڈ کے اس جملے کو گالی کے مترادف گردانتے ہوئے قائداعظمؒ یہ کہتے ہوئے فوراً کمرے سے باہر نکل آئے ''آئندہ میں آپ سے کبھی نہیں ملوں گا۔ آپ کا کیا خیال ہے؛ میں کوئی بکائو مال ہوں؟‘‘ برطانوی وزیراعظم کا ان سے الوداعی مصافحے کی غرض سے بڑھایا جانے والا ہاتھ ہوا میں معلّق رہ گیا۔ ''محمد علی جناح!‘‘(اس نے زیرِ لب دہرایا)۔ وزیراعظم کے چہرے پر ابھرنے والے پسینے کے ننھے قطرے اس بات کا ثبوت تھے کہ وہ سخت سبکی محسوس کر رہا تھا۔ اُسے لگا کہ وہ محمد علی جناح کو صوبائی گورنر کے عہدے اور لارڈ کے خطاب کے عوض خرید لے گا لیکن یہ اس کی خام خیالی تھی۔ اِس بار اس کا پالا ایک غیور، با ضمیر اور اصول پرست انسان سے پڑا تھا جو اس کی طاقت کا نشہ ہوا میں اڑا کے جا چکا تھا۔
بیسویں صدی کے آغاز میں برصغیر پاک و ہند برطانوی سامراج سے آزادی کے حصول کے لیے سیاسی طور پر بہت متحرک ہو چکا تھا۔ کبھی گاندھی جی ''ہندوستان چھوڑ دو‘‘ کی تحریک کا آغاز کر کے اپنی آواز بلند کرتے تو کبھی کوئی مسلمان مقرر اپنے جوش خطابت سے پنڈال پر وجد طاری کر کے مسلمان قوم کی نمائندگی کرتے ہوئے یہ کہتا کہ اگر جنگ ِ عظیم دوم کے دوران خلافت ِعثمانیہ کا شیرازہ بکھرا تو برطانوی حکومت کے قدموں تلے سے زمین کھینچ لیں گے ۔اسی طرح جواہر لعل نہرو اور پٹیل جی انگریز سرکار کو اپنے مطالبات نہ ماننے کی صورت میں خطرناک نتائج کی دھمکیاں دیا کرتے تھے لیکن انگریز سرکار کے کان پر جوں تک نہ رینگی اور جب اسے لگتا کہ چیونٹیوں کے پر نکل رہے ہیں تو عوامی جلسے میں نہتے عوام پر فائر کھول کر یہ آوازیں بند کرا دی جاتیں۔ پھر ایک منفرد لہجے نے انگریز سرکار کو چونکا دیا۔ غیر جذباتی منطقی انداز‘ پُر وقار لہجہ‘ آنکھوں سے جھلکتی ذہانت‘ یہ قائداعظم محمد علی جناح تھے۔ جو بات پر زور دینے کے لیے اونچی آواز کے بجائے دلائل کا سہارا لیتے، جذباتی بیانات کے بجائے مضبوط اِستدلال پیش کرتے۔ یہی وجہ تھی کہ جس انگریز سرکار کو گاندھی جی کی بھوک ہڑتال اور سول نافرمانی کی تحریک پریشان نہ کر سکی‘ وہ حکومت ایک فردِ واحد کی ذہانت ، متانت ، دیانت اور فطانت کے سامنے بے بس دکھائی دی۔ اس کا اعتراف بر صغیر میں آخری وائسرائے لارڈ مائونٹ بیٹن نے برطانوی نشریاتی ادارے کو دیے جانے والے ایک انٹرویو میں کچھ ان الفاظ میں کیا ''مجھے صرف اس مقصد کے لئے ہندوستان بھیجا گیا کہ اقتدار متحدہ ہندوستان کو ہی منتقل کروں۔ میں نے اس مقصد کے لئے راتوں کی نیندیں حرام کیں لیکن میرے مقصد کی راہ میں ایک شخص رکاوٹ بنا رہا اور وہ تھا محمد علی جناح‘‘۔ جواہر لعل نہرو کی بہن وِجے لکشمی پنڈت نے تو قائداعظم کے کردار کی عظمت کا اعتراف کرتے ہوئے یہاں تک کہہ دیا کہ ''اگر مسلم لیگ کے پاس ایک سو نہراور دو سوابو الکلام آزاد ہوتے اور کانگریس کے پاس صرف محمد علی جناح ہوتے تو ہندوستان کبھی تقسیم نہ ہوتا‘‘۔ برطانوی وائسرائے نے قائداعظم کو نہ صرف مسلم قوم کا عظیم رہنما بلکہ ایک سچا وکیل بھی کہا جنہوں نے پاکستان کا کیس ایک ایسی عدالت میں لڑا جہاں منصف کا جھکائو دوسرے فریق کی طرف واضح تھا ،جہاں سے انصاف حاصل کرنا پتھر میں درخت بونے کے مترادف تھا اور جہاں عدل کا چشمہ خشک ہو چکا تھا۔ یقیناد وسرا فریق ہر لحاظ سے مضبوط پوزیشن میں تھا۔
جب کانگریسی قیادت نے مسلم بغض اور تعصّب پر مبنی نہرو رپورٹ پیش کر کے تنگ نظری اور گھمنڈ کے نئے ریکارڈ قائم کیے تو قائداعظمؒاس بے اصولی پر سخت برہم ہوئے ۔ یہ وہ وقت تھا جب قائداعظمؒکی آواز پر لبیک کہنے والوں کی کمی نہ تھی۔ ان کی ایک کال پر لاکھوں کا مجمع اکٹھا ہو کرکانگریسی قیادت کی تنگ نظری کا بدلہ لے سکتا تھا لیکن قائداعظمؒ آئین اور قانون کی بالا دستی کا عَلم تھامے ایک تعمیری سوچ کے ساتھ قیامِ پاکستان کے لئے اپنی جدوجہد کرتے رہے۔ جس کا اظہار انہوں نے ایک جلسے میں ان الفاظ میں کیا کہ ''آزادی حاصل کرنے کے لئے جنگجویانہ جذبات اور جوش و خروش کا مظاہرہ آسان ہے اور ملک و ملت کی تعمیر کہیں زیادہ مشکل!‘‘یہی وہ جذبۂ تعمیر تھا جس کی بدولت قائداعظمؒ نے نہ صرف مسلمانانِ برصغیر کے لئے ایک الگ مملکت کے خواب کو عملی تعبیر دی بلکہ مسلمان قوم کا الگ تشخص منوانے کے لیے دو قومی نظریہ پیش کیا۔ انہوں نے نہرو رپورٹ کے جواب میں اپنے تاریخی چودہ نکات پیش کر کے مسلمانانِ ہند کی سیاسی جد و جہد کی حکمتِ عملی وضع کی اور یہ ثابت کیا کہ تعمیری سوچ کے ساتھ بڑے سے بڑے مقصد میں بھی کامیابی پُر امن انداز میں یقینی بنائی جا سکتی ہے ۔
جب انگریز سرکار اور ہندو قیادت کو یقین ہو چلا کہ وہ دلائل میں اس ذہین اور حاضر جواب شخص سے کبھی نہیں جیت سکیں گے تو انہوں نے نہایت چالاکی کے ساتھ آخری چال چلی اور کیبنٹ مشن پلان پیش کر دیا۔ جس کے مطابق ''ہندوستان ایک وحدت کی حیثیت سے آزاد ہوگا لیکن اس کے تین زون ہوں گے اور دس سال بعد اگر کوئی زون چاہے تو آزاد مملکت قائم کر سکتا ہے‘‘۔ اس منصوبے کے روح ِرواں متحدہ ہندوستان کے سب سے بڑے حامی ابو الکلام آزاد تھے۔ کانگریسی قیادت کو اس بات کا مکمل یقین تھا کہ قائداعظم محمد علی جناحؒ کیبنٹ مشن پلان کسی صورت بھی قبول نہیں کریں گے اور یوں تاجِ برطانیہ اقتدار کانگریس کو منتقل کرنے میں کامیاب ہو جائے گا لیکن قائداعظم نے حیرت انگیز طور پر یہ منصوبہ قبول کر کے نہ صرف کانگریس کے اس مذموم منصوبے کو خاک میں ملا دیا بلکہ اُسے اس قدر حواس باختہ کر دیا کہ جواہر لعل نہرو کے منہ سے وہ جملہ نکل گیا جس کا خمیازہ اسے تقسیمِ ہند اور قیامِ پاکستان کی صورت میں بھگتنا پڑا۔ ''ایک بار متحدہ ہندوستان کو اقتدار منتقل ہو جائے تو پھر کون کسے الگ ہونے دے گا‘‘۔ قائداعظم محمد علی جناحؒ نے ہمیشہ کی طرح کمال حاضر دماغی کی بدولت اسی جملے پر اپنا موقف قائم کر لیا اور پھر اس وقت تک چین سے نہیں بیٹھے جب تک تقسیمِ ہند کا اعلان نہیں کر دیا گیا۔
قائداعظمؒ کی شخصیت و کردار کی بے پناہ منفرد خوبیوں میں سے ایک خوبی مضبوط قوتِ فیصلہ بھی تھی۔ وہ ہمیشہ اپنا فیصلہ سوچ سمجھ کر کرتے اور پھر اپنے موقف پر سختی سے ڈٹے رہتے ،یہاں تک کہ لوگ ان کے ہمنوا ہو جاتے ۔ اس ضمن میں گاندھی جی اور بانیٔ پاکستانؒ کے مابین ہونے والا ایک مکالمہ دلچسپی سے خالی نہیں۔ گاندھی جی جو قائداعظم کی ذہانت اور سیاسی حکمتِ عملی سے شدید متاثر تھے‘ ایک بار قائداعظمؒ سے دورانِ ملاقات یہ سوال پوچھ بیٹھے۔ ''مسٹر جناح !آپ اپنے سیاسی فیصلے کیسے کرتے ہیں؟‘‘ قائداعظمؒایک لمحے کے توقف کے بغیر پُر اعتماد لہجے میں گویا ہوئے ''میں اپنے سیاسی فیصلوں کا فارمولا بتانے سے پہلے یہ بتانا چاہتا ہوں کہ آپ اپنے سیاسی فیصلے کیسے کرتے ہیں‘‘۔ ''جی بتائیے!‘‘گاندھی جی نے متجسس لہجے میں کہا۔ ''آپ سیاسی میدان میں کوئی بھی قدم اٹھانے سے پہلے یہ معلوم کرتے ہیں کہ لوگوں کا مزاج، موڈ اور رائے کیا ہے اور جب آپ کو لوگوں کی رائے معلوم ہو جاتی ہے تو آپ ان کو خوش کرنے کیلئے اپنا فیصلہ سناتے ہیں۔ لیکن میں ہمیشہ اس کے برعکس کرتا ہوں۔ میں صرف یہ دیکھتا ہوں کہ صحیح کیا ہے اور غلط کیا،اس کے بعد جو صحیح ہوتا ہے میں وہ کرتا ہوں کیونکہ ایک صحیح فیصلہ ایسے ہزار فیصلوں سے بہتر ہوتا ہے جو صرف لوگوں کو خوش کرنے کیلئے کیا جائے‘‘۔
اگر قائداعظم محمد علی جناحؒ دو قومی نظریہ کی بنیاد پر قیامِ پاکستان کے مطالبے پر ذرا سی بھی لچک کا مظاہرہ کرتے تو آج ہم ایک آزاد مملکت میں مذہبی آزادی، تاریخی تشخص اور منفرد ثقافتی اقدار کی روشنی میں اپنی زندگیاں کبھی نہ گزار پاتے۔ جنہیں قائداعظم کی قائدانہ صلاحیتوں ، دو قومی نظریہ کی سچائی اور قیامِ پاکستان کی ضرورت پہ ذرا سا بھی شک ہو‘ وہ ہمسایہ ملک بھارت میں مسلمانوں پر مودی سرکار کی طرف سے ڈھائے جانے والے مظالم اور جنت نظیر وادی میں گزشتہ ایک برس سے جاری کرفیو سے پیدا ہونے والی انسانی حقوق کی تشویشناک صورتحال پر نظر ڈال لے۔ یقینا اسے اپنے شکوک و شبہات پر مبنی کئی سوالات کے جواب مل جائیں گے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں