''میں سر کا خطاب اس وقت تک قبول نہیں کر سکتا جب تک میرے استاد سید میر حسن کو شمس العلما کا خطاب نہ دے دیا جائے‘‘۔ ڈاکٹر علامہ محمد اقبال کا دو ٹوک الفاظ میں کہا گیا یہ جملہ انگریز گورنر کو حیران کر گیا۔ ''لیکن مسٹر اقبال! آپ ایک عظیم شاعر ہیں، فلسفی اور دانشور ہونے کے ساتھ کئی شاہکار کتابوں کے مصنف ہیں، آپ کو یہ خطاب آپ کی علمی و ادبی کاوشوں کے اعتراف کے طور پر دیا جا رہا ہے، آپ کے استاد نے کیا تخلیق کیا ہے؟‘‘ انگریز گورنر کی بات سن کر علامہ اقبال کے ہونٹوں پر ایک دلکش مسکراہٹ ابھری اور پھر اقبال نے وہ تاریخی جملہ کہا جسے ہر تعلیمی ادارے کے مرکزی دروازے پر درج ہونا چاہئے ''میر حسن کی تخلیق اقبال ہے!‘‘۔ علامہ محمد اقبال کا جواب سن کر انگریز گورنر اس قدر متاثر ہوا کہ نہ صرف وہ سید میر حسن کو شمس العلماء کا خطاب دینے پہ رضا مند ہو گیا بلکہ علامہ اقبال کی خواہش پہ تقریب میر حسن کے شہر سیالکوٹ میں منعقد کی گئی تا کہ عظیم استاد کو خطاب کی وصولی کے لیے سرکاری دفتر نہ آنا پڑے اور انہیں بہترین طریقے سے خراجِ تحسین پیش کیا جا سکے۔
چند ماہ قبل پنجاب کی ایک تعلیمی درسگاہ میں پروفیسر عارف علامہ اقبال کی سوانح عمری اور شاعری پر لیکچر دے رہے تھے تو انہیں احساس ہوا کہ فرنٹ سیٹ پر بیٹھا طالبعلم بالکل متوجہ نہیں، ''سٹینڈ اَپ‘‘ پروفیسر عارف نے باتوں میں مشغول نوجوان کو مخاطب کرتے ہوئے کہا۔ نوجوان نے پروفیسر صاحب کو مکمل طور پر نظر انداز کرتے ہوئے اپنا مشغلہ جاری رکھا۔ ''میں آپ سے بات کر رہا ہوں‘‘ پروفیسر صاحب اس بار قدرے اونچی آواز میں گویا ہوئے لیکن طالب علم سنی اَن سنی کر گیا۔ پروفیسر صاحب نے چیخ کر کہا ''گیٹ آئوٹ آف مائی کلاس‘‘، شاید وہ طالب علم اسی جملے کے انتظار میں تھا لہٰذا یہ سنتے ہی وہ کلاس سے باہر چلا گیا۔ پھر کچھ ہی دنوں بعد نوٹس بورڈ پر آویزاں فائنل رزلٹ لسٹ میں اس نوجوان طالبعلم کے رول نمبر کے سامنے جلی حروف میں درج تھا ''فیل‘‘۔ اس سے اگلی ہی شام وہ واقعہ پیش آیا جو تاریخ کے ماتھے پر ایسی سیاہ لکیر ہے جسے وقت بھی نہیں مٹا پائے گا۔ پروفیسر عارف اپنے ہی سٹوڈنٹ کے ہاتھوں زخمی ہو کر ہسپتال میں زندگی اور موت کی کشمکش میں مبتلا تھے۔
ہمارے ہاں استاد کی بے حرمتی کا یہ پہلا واقعہ نہیں۔ آئے روز اخبارات اور ٹی وی چینلز پر اساتذہ پر تشدد کی خبریں گردش کرتی رہتی ہیں۔ چونکہ ''مار نہیں پیار‘‘ کے متبادل کے طور پر ہم ''استاد قوم کا معمار‘‘ جیسا کوئی فلسفہ پیش نہیں کر سکے لہٰذا معاشرے میں استاد کی بے توقیری تیزی سے بڑھی ہے اور یوں اس مقدس پیشے کا وقار بری طرح مجروح ہوا ہے۔ طلبہ کے ذہنوں میں یہ بٹھایا جا چکا ہے کہ ان کی بھاری بھرکم فیسوں سے ہی ان کے اساتذہ کا رزق وابستہ ہے لہٰذا استاد کو انہیں ڈانٹنے کا قطعاً کوئی حق نہیں۔ بد قسمتی سے استاد کی نافرمانی ایک فیشن بن چکا ہے اور استاد کی ڈانٹ کے جواب میں مسکرانا ایک مشغلہ۔ گزشتہ دو ماہ سے سوشل اور الیکٹرونک میڈیا کے مخصوص حصے پر استاد کو ایک بھیانک بھیڑیے کے روپ میں دکھایا جا رہا ہے جو طلبہ کا جنسی استحصال کر رہا ہے اس حوالے سے لاہور کے ایک نجی سکول کا حوالہ پیش کر کے اساتذہ کو نہ صرف سرعام گالیاں دی جا رہی ہیں بلکہ انہیں سولی پر لٹکانے کی خواہش کا اظہار بھی مسلسل کیا جا رہا ہے۔ یہاں پر ہمیں ایک واضح موقف اپنانے کی ضرورت ہے کہ جو اساتذہ ایسی غلیظ حرکات کے مرتکب ہوں‘ ان کو اِس مقدس پیشے کے ساتھ منسلک رہنے کا کوئی حق نہیں اور انہیں قرار واقعی سزا دی جانی چاہیے۔ یہ بھی درست ہے کہ کچھ لوگ حادثاتی طور پر درس و تدریس کے شعبہ سے وابستہ تو ہو جاتے ہیں مگر وہ اس عظیم منصب کے تقدس اور تقاضوں سے بے بہرہ ہوتے ہوئے شدید نااہلی کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ یہی کالی بھیڑیں استاد جیسی مقدس ہستی کا تقدس پامال کرتی ہیں۔ مگر یہ بھی ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ جس زمین پر طلبہ کے ہاتھوں زخمی ہونے والے استاد کا لہو گرے وہاں گلِ لالہ نمودار نہیں ہوتے بلکہ جہالت نمو پاتی ہے، ظلمت کے اندھیرے ابھرتے ہیں، بربریت و سفاکیت پھوٹتی ہے۔ ایسی زمین مکمل طور پر بانجھ ہونے لگتی ہے اور اس کی کوکھ سے قد آور شخصیات پیدا ہونا بند ہو جاتی ہیں۔ جو قوم استاد کو عزت نہیں دے سکتی وہ اقوامِ عالم میں بے وقعت ہو جاتی ہے۔ جو معاشرہ استاد کی بے توقیری کرے وہاں عدل و انصاف ناپید ہو جاتا ہے اور ظلم صاحبِ اولاد ہو نے لگتا ہے۔
باادب بانصیب‘ بے ادب بے نصیب! کلاس روم میں لیکچر کے دوران ہینڈ فری لگا کر میوزک سننے والے اکثر اعلیٰ ڈگری کے ہوتے ہوئے بھی نوکری کے حصول کے لیے در در کی ٹھوکریں کھاتے نظر آتے ہیں۔ اُن کے پاس ڈگری کے کاغذ کا ایک ٹکرا ضرور ہوتا ہے مگر اُن کی شخصیت و کردار میں تعلیم و تربیت کا شدید فقدان ہوتا ہے۔ یہ بھی ایک آفاقی حقیقت ہے کہ استاد کے احترام میں جھکنے والوں نے ہمیشہ رفعتیں پائی ہیں۔ استاد کے رتبے کو پہچاننے والے ہی عزت کی اعلیٰ مسند پر بٹھائے جاتے ہیں اور وہ زمانے میں روشنی بن کر پھیل جاتے ہیں۔ امام ابوحنیفہؒ اپنے عظیم استاد حماد بن سلیمان کے گھر کی طرف پائوں پھیلا کر نہ سوتے حالانکہ استاد اور ان کے گھر کے بیچ سات گلیوں کا فاصلہ تھا۔ استاد کا مقام جاننا ہے تو خلیفہ ہارون الرشید کے بیٹوں سے پوچھیں جو اپنے استادِ محترم کے جوتے اٹھا کر ان کے قدموں میں رکھنے کے لیے آپس میں لڑ پڑتے تھے۔ جب خلیفۂ وقت کو اس کا علم ہوا تو معزز استاد کو دربار میں کھانے کی دعوت پر بلایا۔ ''استادِ محترم آپ کے خیال میں فی الوقت سب سے زیادہ قابلِ تکریم شخصیت کون ہے؟‘‘ استاد نے قدرے سنبھل کر جواب دیا، ''یقینا خلیفۃ المسلمین!‘‘ یہ جواب سن کر خلیفہ مسکرانے لگا اور پھر ایک ایسا جملہ کہا جو استاد کے عظیم مقام و مرتبہ پر مہر ثبت کرتا ہے۔ ''ہر گز نہیں! استاد ِمحترم! فی الوقت سب سے زیادہ قابلِ تکریم وہ ہستی ہے جس کے جوتے سیدھے کرنا خلیفہ وقت کے بیٹے باعثِ فخر سمجھتے ہیں اور وہ ہستی آپ ہیں‘‘۔
اکیسویں صدی کی گوگل جنریشن کے ڈیجیٹل طلبہ اساتذہ کے حقیقی مقام سے اس لیے بھی ناواقف ہیں کہ ان کی علم تک رسائی کے لئے بہت سی موبائل ایپلیکیشنز موجود ہیں۔ وہ انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا کے ذریعے پوری آزادی سے اپنی من پسند چیزیں سیکھ تو سکتے ہیں مگر اس عمل میں وہ تربیت اور تہذیب سے کوسوں دور بھی رہتے ہیں۔ دوسری طرف مادہ پرستی کے اس دور میں بعض اساتذہ بھی اپنے حقیقی منصب کو بھول بیٹھے ہیں۔یوں تعلیم و تربیت کا یہ مقدس پیشہ ایک کاروبار بن کے رہ گیا ہے۔ اب درس و تدریس کے دو ہی مقاصد نظر آتے ہیں، ڈگری اور فیس۔ اساتذہ کو فیس سے غرض تو طلبہ کو محض ڈگری کی فکر! یہی وجہ ہے کہ ہمارے ہاں ڈگری ہولڈرز کی تعداد لاکھوں میں ہے مگر اس بدنصیب ہجوم کی اکثریت تعلیم سے عاری، تربیت سے محروم اور تہذیب سے میلوں دور ہے۔ حقیقی علم کی دولت اور مثالی کردار سے صرف چند خوش نصیب ہی مالا مال ہوتے ہیں اورکامیابی بھی اُنہی کا مقدر بنتی ہے۔
استاد کے منصب کا تقدس اس سے بڑھ کر کیا ہو سکتا ہے کہ ہمارے پیارے نبی حضرت محمدﷺ خاتم النبیین نے فرمایا ''بے شک مجھے معلّم بنا کر بھیجا گیا!‘‘۔ بابِ شہرِ علم حضرت علیؓ نے فرمایا ''جس نے مجھے ایک لفظ بھی سکھایا وہ میرا آقا ہے‘‘ لہٰذا یہاں پر انتہائی احتیاط کی ضرورت ہے کہ جب بھی ہم درس و تدریس کے مقدس پیشہ سے وابسطہ چند غلیظ کردار کے حامل افراد پر تنقید کریں تو ہمیں استاد کے عظیم منصب کی بے توقیری ہر گز نہیں کرنی چاہیے۔ تنقید صرف مخصوص افراد کے مخصوص عمل پر ہونی چاہیے‘ اس عظیم پیشے پر تبریٰ نہیں کیا جانا چاہیے۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ بے توقیری کے اس غیر محتاط عمل میں ہم اپنا قومی وقار مجروح کر بیٹھیں اور ہمارے قابلِ تکریم اساتذہ‘ جن کے منہ سے نکلے چند الفاظ لوگوں کی زندگیاں بدل سکتے ہیں اور قوم کو ایک روشن مستقبل کی نوید دے سکتے ہیں‘ اپنے اس عظیم منصب سے دستبردار ہو جائیں۔ ان عظیم ہستیوں کی خدمات کے صلے میں احترام دینا بطور معاشرہ ہماری اجتماعی ذمہ داری ہے۔ آئیے! ان عظیم باغبانوں کے ساتھ مل کر اپنی ارضِ پاک پر ایسی فصلِ گل کی آبیاری کریں جسے اندیشۂ زوال نہ ہو۔