بس سٹاپ پر کھڑے پسینے سے شرابور ایک بیروزگار نوجوان نے اُکتائی ہوئی نظر گھڑی پر ڈالی اور بیزاری سے اُس سمت دیکھنے لگا جہاں سے مطلوبہ بس کی آمد متوقع تھی۔ یہ جولائی کا ایک گرم ترین دن تھا اور نوجوان کو انٹرویو کے لئے پہلے ہی خاصی دیر ہو چکی تھی۔اسی اثنا میں ایک کار اس کے پاس آ کر رکی۔ ڈرائیونگ سیٹ پر موجود شخص نے اگلا دروازہ کھولا اور نوجوان کو گاڑی میں بیٹھنے کی پیشکش کی۔ایک لمحے کے لئے تصور کیجئے کہ اگر آپ اس نوجوان کی جگہ ہوتے تو کیا یہ آفر قبول کر لیتے؟ کیا ردِ عمل ہوتا آپ کا؟ یقینا آپ کے ذہن میں مختلف سوالات جنم لیتے !مثلاً یہاں اور بھی لوگ موجود ہیں تویہ آفر مجھے ہی کیوں کی گئی؟ کہیں اس ہمدردی کے پیچھے کوئی مجرمانہ سوچ یا گھنائونی سازش تو نہیں ؟ آپ کے ذہن میں اغوا برائے تاوان اور انسانی سمگلنگ کے کئی قصے گھومنے لگتے اور آپ یقینا ایک انجانے خوف میں مبتلا ہو کر یہ آفر ٹھکرا دیتے لیکن اس نوجوان کا رویہ ملاحظہ کیجئے! اس نے جیب سے موبائل نکالا، گاڑی کی نمبر پلیٹ کی تصویر لی اور اسے ایک انتہائی پُر اعتماد دوست کو اس پیغام کے ساتھ وٹس ایپ کر دی ''میں نے اس گاڑی میں لفٹ کی پیشکش قبول کر لی ہے اور اب اپنی منزل کی جانب رواں دواں ہوں‘‘۔ اس کار والے شخص کے مسکراتے ہوئے ہونٹ اچانک سکڑ گئے اور مسکراہٹ کی جگہ سنجیدگی نے لے لی۔ نوجوان نے فوراً موبائل کا فرنٹ کیمرہ آن کیا اور یہ کہتے ہوئے سیلفی لینے لگا، ''انکل یہ تصویر میں فیس بک پر اَپلوڈ کر رہا ہوں کہ یہ وہ عظیم ہستی ہے جس نے مجھے اس کڑکتی دھوپ سے نجات دلا کر ایئر کنڈیشنڈ کار میں بٹھایا اور بلا غرض مجھ غریب کی مدد کی‘‘۔ جی ضرور!، لفٹ دینے والے شخص نے سپاٹ لہجے میں جواب دیا۔اپنی منزل پر پہنچنے کے بعد نوجوان شکریہ ادا کرتا ہوا کار سے اتر گیا اور یوں اپنی ذہانت سے ایک انجانے خوف کو شکست دینے میں کامیاب رہا لیکن اگر اس کی جگہ میں اور آپ ہوتے تو شاید بس کا انتظار ہی کرتے رہ جاتے۔
یہ انجانا خوف ہماری خود اعتمادی کا سب سے خطرناک دشمن اور کامیابی کے راستے کی سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ ہم اہم فیصلہ کرنے، بڑے خواب دیکھنے اور کچھ نیا کرنے میں اکثر ناکام اس لیے رہتے ہیں کہ کہیں نہ کہیں ہمارے اندر یہ انجانا خوف گھات لگائے موجود رہتا ہے۔ صبح کی سیر کے وقت گھاس پر ننگے پائوں چلتے ہوئے اگر کوئی زہریلا کیڑا ہمارے پائوں پہ کاٹ لے تو ہم گھاس کی تراش خراش کے بجائے صبح کی سیر ہی چھوڑ دیتے ہیں۔ سال ہا سال اگر کسی بوڑھے برگد کے درخت کے نیچے سے گزرتے رہیں اور کسی روز ہمیں کوئی یہ کہہ دے کہ اس درخت پر آسیب کا سایہ ہے تو ہم یا وہ راستہ ہی بدل لیتے ہیں یا مختلف دعائوں اور آیتوں کا ورد کرتے ہوئے وہاں سے تیزی سے گزر جاتے ہیں۔ ہمارے دل کی دھڑکن غیر معمولی طور پر تیز ہو جاتی ہے اور خوف ایک آسیب کی طرح ہمیں پیچھے چلتا ہوا محسوس ہوتا ہے۔ بہت سے ماہرین نفسیات خوف کوایک بیماری قرار دیتے ہیں لیکن میری نظر میں خوف بیماری نہیں بلکہ ایک ذہنی کیفیت کا نام ہے جو کسی خطرے سے آگاہی کے سبب پیدا ہوتی ہے،بیماری اسے ہم خود بناتے ہیں۔
یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ہم خوف کا سامنا کرنے کے بجائے پوری زندگی پشتو ادب کے اُس افسانوی کردار کی طرح گزار دیتے ہیں جو ایک جنگل میں بھٹک جاتا ہے‘ جہاں اس کا سامنا ایک خوفناک بھیڑیے سے ہوتا ہے۔ وہ بھیڑیے سے خوفزدہ ہو کر ایک درخت پر پناہ لیتا ہے اور پھر اسی درخت کو اپنا مسکن بنا لیتا ہے۔ یہ درخت بھی انتہائی عجیب و غریب ہوتا ہے،یہاں جو بھی خواہش کی جائے وہ پوری ہو جاتی ہے۔ اگر نرم اور گرم بستر کے بارے میں سوچا جائے تو وہ آدمی خود کو اُسی آرام دہ بستر میں پاتا ہے۔کچھ کھانے کو جی چاہے تو من پسند کھانا فوراًحاضر کر دیا جاتا ہے لیکن ان تمام آسائشوں کے باوجود وہ آزادی کے لیے تڑپتا رہتا ہے۔ اُس میں اتنی جرأت نہیں ہوتی کہ درخت سے اتر کر بھیڑیے کا مقابلہ کرے اور آزادی حاصل کر لے۔ پھر ایک صبح جب وہ شخص بیدار ہوتا ہے تو دیکھتا ہے کہ درخت لمحہ بہ لمحہ چھوٹا ہو رہا ہے اور بھیڑیا اُسی تناسب سے بڑھ رہا ہے۔ اب بھیڑیا اور وہ نزدیک آچکے تھے۔ بالآخر یہ شخص ہمت کرتا ہے اور درخت سے نیچے کُود جاتا ہے۔ بھیڑیا اسے اپنے سامنے پا کر حملہ آور ہوتا ہے لیکن اس سے پیشتر کہ بھیڑیا اسے ہلاک کرے ‘وہ شخص زمین سے ایک نازک سی شاخ اٹھا کر بھیڑیے کو ضرب لگاتا ہے اور ہاتھی جتنا بھیڑیا چند ہی لمحوں میں ٹھنڈا ہو جاتا ہے۔ خوف سے آزادی کی خوشی سے سرشار یہ شخص جب اپنے اردگرد نظر دوڑاتا ہے تو یہ دیکھ کر حیران رہ جاتا ہے کہ اس کے چاروں طرف بے شمار درخت ہیں اور ہر درخت پر کسی نہ کسی شخص نے پناہ لے رکھی ہے اور درخت کے نیچے اس کا بھیڑیا کھڑا غرّا رہا ہے۔
خوف کا یہی بھیڑیا ہماری خود اعتمادی، صلاحیت، توانائی، ذہانت اور ان تمام خلیوں کو ہلاک کر سکتا ہے جو ہمارے زندگی میں آگے بڑھنے اور کچھ منفرد کرنے کے لیے ضروری ہوتے ہیں۔ بہت سے لوگ ناکامی کے خوف سے میدان میں اترنے سے پہلے ہی ہار مان لیتے ہیں، یوں اُن میں چھپی خداداد صلاحیتوں کے خزانے ہمیشہ کے لیے خوف کی قبر میں دفن ہو جاتے ہیں اور وہ اپنی زندگی کے ماہ و سال جیسے تیسے گزار کر دارِ فانی سے ہمیشہ کے لیے کوچ کر جاتے ہیں۔ کہیں ایک خوبصورت آواز معاشرے کے خوف سے گھر کی چار دیواری میں دم توڑ دیتی ہے تو کہیں ایک با صلاحیت فنکار خود اعتمادی کی کمی کے باعث سٹیج پر نمودار ہو کر اپنے فن کا مظاہرہ کرنے میں ناکام رہتا ہے۔ اسی طرح مستقبل کے انجانے اندیشے ہمارے حال کو بے حال کر دیتے ہیں۔ لیکن خوف کی سب سے خطرناک قسم وہ ہے جو وہم کے نتیجے میں پیدا ہو، مثلاً کالی بلی راستہ کاٹ جائے تو گھر کی راہ لیتے ہیں کہ آج کچھ غلط ہونے والا ہے، دودھ زیادہ اُبل جائے تو خواتین پریشان ہو کر خیر و عافیت کی دعائیں مانگنے لگتی ہیں۔ خوف کی وجہ جو بھی ہو، نتائج ہمیشہ تباہ کن ہوتے ہیں۔ آپ اپنے اندر جنم لینے والے خوف کو اپنے ہاتھوں شکست نہیں دیں گے تو کوئی دوسرا بھی اسے ختم نہیں کر سکے گا۔ خوف کا سامنا کر لیں تو بظاہر پہاڑ جیسی نظر آنے والی مصیبتیں روئی کا گالا ثابت ہوتی ہیں۔ خوف کا یہ بھیڑیا ناکامی، مایوسی، افلاس، جدائی، موت، بیماری اور کبھی کورونا کا روپ دھار کر ہمیں خوفزدہ کرتا ہے اور اگر ہم اس کا سامنا کرنے کے بجائے اس کے حصار میں قید رہیں تو عین ممکن ہے یہ خوف ہمیں کھا جائے۔
خوف نے کئی تاریخی کرداروں کو اپنے خوفناک حصار میں جکڑ کر بڑی بے دردی سے شکار کیا ہے۔ 1929ء کے امریکی صدارتی انتخاب میں ہربرٹ ہوور (Herbert Hoover) صدر منتخب ہونے میں تو کامیاب ہو گیا مگر گریٹ ڈپریشن کے بڑھتے ہوئے آثار کے سامنے اُس کی تمام ذہنی اور تخلیقی صلاحیتیں ناکارہ ثابت ہوئیں۔ وہ اِسی انجانے خوف کا شکار ہو کر کوئی بھی منفرد اور بڑا فیصلہ کرنے میں ناکام رہا اور یوں معاشی بحران روز بروز نہ صرف امریکی معیشت کو تباہ و برباد کرتا چلا گیا بلکہ اس ڈپریشن نے عالمی معیشت کو بھی بری طرح مفلوج کر دیا۔ ہر دوسرے روز جب صحافی امریکی صدر سے کچھ بڑا کرنے کے لیے کہتے تو وہ ہمیشہ یہی جواب دیتا ''ایک روشن صبح طلوع ہونے والی ہے‘‘ مگر وہ صبح کبھی طلوع نہ ہوئی حتیٰ کہ 1932ء کے صدارتی انتخاب میں ہوور عبرتناک شکست سے دو چار ہوا۔ نو منتخب امریکی صدر ایف ڈی روزویلٹ نے اپنے پہلے خطاب میں امریکیوں کو گریٹ ڈپریشن سے نکالنے کے لیے جو نسخۂ کیمیا دیا وہ خود اعتمادی کو بحال کر کے خوف سے آزادی کا تھااور اُس کے الفاظ تھے ''ہمیں صرف ایک ہی چیز کا خوف ہے اور وہ ہے خوف کا‘‘۔ تاریخ نے دیکھا کہ اس جملے نے امریکیوں کے اندر ایک نئی زندگی، نیا ولولہ اور منفرد جذبہ اُجاگرکیا جس کی بدولت روزویلٹ مسلسل چار مرتبہ امریکی صدر منتخب ہونے میں کامیاب رہا حتیٰ کہ امریکی آئین میں ترمیم کر کے اُس کے پانچویں انتخاب کا راستہ روکنا پڑا کہ اب کوئی بھی شخص دو سے زیادہ مرتبہ امریکی صدر منتخب نہیں ہو سکتا۔