1858ء وہ دور تھا جب ایک ہزار سے زائد ایجادات کا موجد، نو بیل انعام یافتہ انیسویں صدی کا سب سے بڑا سائنسدان تھامس ایلوا ایڈیسن ایک گیارہ سالہ نالائق طالبعلم تھا۔ یہ لڑکا اپنے ہم عمر بچوں سے ہر لحا ظ سے پیچھے تھا۔ کچھ عرصہ پہلے تیز بخار نے اس کی سماعت کو شدید متاثر کیا تھا اور اب وہ نیم بہرے پن کا شکار ہو چکا تھا۔ دوسرے لو گ اس کے متعلق کیا رائے رکھتے ہیں‘ اس سے بے نیاز وہ بچہ اپنی ہی دنیا میں مگن رہتا۔ اس کا دماغ عجیب و غریب چیزیں سوچتا رہتا۔ اِنہی دنوں کا واقعہ ہے کہ ایک شام تھامس ایڈیسن اپنے خیالوں میں گم ایک درخت کے نیچے بیٹھا تھا کہ اس کی نظر ایک چڑیا پر پڑی جو درخت کی جڑ کے پاس موجود ننھے منے کیڑوں کو کھا رہی تھی۔ ایڈیسن یہ منظر انتہائی دلچسپی سے دیکھ رہا تھا۔ اس کے ذہن میں اچانک ایک سوچ لپکی کہ شاید چڑیا کی اڑان کا تعلق حشرات الارض سے ہے۔ اگر انسان بھی یہ کھا نا شروع کر دے تو عین ممکن ہے وہ بھی اڑنے لگے۔ اپنی اس سوچ کو عملی جامہ پہنا نے کے لیے اُس نے ان کیڑوں کو ایک بوتل میں بھر لیا اور ان کا سفوف تیا ر کرکے اپنے ایک دوست کو پلا دیا لیکن اس تجربے کے نتائج بے حد بھیانک نکلے اور اس کادوست شدید بیمار ہو گیا۔اس طرح ایڈیسن کو نا صرف بے بھائو کی پڑیں بلکہ وہ ایک ناقابل اعتماد شخصیت بھی ٹھہرا دیا گیا جس نے اسے مزید ناکارہ بنا دیا۔
کچھ عرصہ بعد وہ جس سکول میں زیر تعلیم تھا‘ وہا ں کے پرنسپل نے اُسے ایک سربہ مہر لفافہ تھمایا اور کہا کہ یہ خط اپنے ماں کو دے دینا۔ گھر پہنچ کراس نے وہ خط ماں کے ہاتھ میں تھمایا اور متجسس نگاہوں سے اُسے دیکھنے لگا۔ ماں نے خط پڑھنا شروع کیا تو اس کے چہر ے کی رنگت پھیکی پڑ گئی۔ پھر اس نے تھامس کو بتایا کہ اس خط میں لکھا ہے کہ تمہارا بیٹا تھامس ایک جینیئس ہے‘ یہ سکول اس کے لیے بہت چھوٹا ہے اور یہاں اتنے اچھے استاد نہیں جو اسے پڑھا سکیں‘ لہٰذا آپ اسے خود ہی پڑھائیں۔تھامس نے پہلی بار اپنے متعلق ایسے تعریفی کلمات سنے تو اس کا چہرہ خو شی سے کھل اٹھا۔ وہ اپنے اندر ایک عجیب سی قوت اور خود اعتما دی محسوس کر رہا تھا۔ پھر تھامس کی ماں نے آسانیوں سے منزل کا راستہ پوچھے بغیر اپنے بیٹے کے لیے خود موتی چننا شروع کئے اور یوں محض ایک ذرے سے کائنات کی تفسیر اگلوانے میں کامیاب ہو کر قطر ے کی وسعتوں میں اپنے بیٹے کے لیے علم کا سمندر تلاش کر کے اس کی رگ و جاں میں سمونے میں کامیاب ہو گئی۔ بقول شاعر:
شوق برہنہ پا چلتا تھا اور راستے پتھریلے تھے
گھستے گھستے گھِس گئے آخر پتھر جو نوکیلے تھے
گھریلو حالات بہت اچھے نہیں تھے‘ اسی لیے اس باہمت لڑکے نے محض بارہ سال کی عمر میں ٹرین میں کتابیں بیچ کر اپنے آٹھ بہن بھائیوں کا پیٹ پالنے میں ماں باپ کی مد د شروع کر دی۔ یوں بچپن سے ہی مختلف حادثات کا شکار یہ بچہ زینہ زینہ ترقی کی منازل طے کرنے لگا۔ اور پھر ایک وقت ایسا آیا جب گھر پر تعلیم حاصل کرنے والے اس لڑکے نے سائنس کی دنیا میں تہلکہ مچا دیا۔ اس نے آٹومیٹک ٹیلی گراف کے لیے ٹرانسمیٹرریسیور ایجا د کیا، میگافون، سائونڈ ریکارڈر، سینما مشین اور فونو گرام (جس نے آ گے چل کر گرامو فون کی شکل اختیا ر کر لی) کے علا وہ سینکڑوں ایجادات کا سہر اپنے سر پہ سجایا۔ سب سے بڑھ کر جو تحفہ اس نے مصنو عی روشنی یعنی بلب کی شکل میں دنیا کو دیا اس احسان کے نیچے دنیا کے تمام حسین و دلکش شہر آج بھی دبے ہوئے ہیں۔ بلب کی ایجاد کے سلسلے میں ایڈیسن نے ایک ہزار کے قریب تجربات کیے جن میں نو سو ننانوے بار اسے ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا لیکن جب بھی اس کا کوئی تجربہ ناکام ہوتا اس کے ذہن میں ما ں کے کہے وہ الفاظ گردش کرنے لگتے کہ ''تمہارا بیٹا جینیئس ہے‘‘۔ یہ الفاظ جادوئی پڑ یا کی طرح اسے پھر سے تازہ دم کر دیتے اور وہ بلند آواز میں خو د کلامی کرنے لگتا۔ ''تھامس! تم ایک جینیئس ہو، اگر کائنات کی قسمت میں روشنی ہے تو اس کے موجد تم ہو گے صرف تم!‘‘اور پھر ایسا ہی ہوا۔ ایک شام واقعی بلب جل اٹھا۔ اگلے روز اس نے چند دیگر لوگوں کی موجودگی میں یہ بلب اپنے ملازم کو دیا کہ اسے لگا کر ٹیسٹ کرے۔ وہ ملازم اس قدر ہچکچاہٹ کا شکار ہو ا کہ گھبراہٹ میں بلب اس کے ہاتھ سے گر کر ٹوٹ گیا۔ وہاں موجود تمام لوگ سکتے میں آ گئے لیکن ایڈیسن نے ملازم کی سرزنش کرنے کے بجائے ٹھیک چوبیس گھنٹے بعد دوبارہ بلب تیار کر کے پھر اُسی ملازم کے ہاتھ میں تھماتے ہوئے کہا ''اسے لگائو اور ٹیسٹ کرو‘‘۔ اس بار ملازم نے انتہائی خود اعتمادی سے بلب لگایا اور پورا کمرہ روشنی میں نہا گیا۔ جب ایڈیسن سے پوچھا گیا کہ کل جس نے بلب توڑ دیا‘ آج پھر اسی کو دینے کا کیا جواز تھا؟ تو اس نے کہا ''مجھے محسوس ہوا کہ اگر آج میں اس کو دوبارہ بلب نہ دیا تو اس کے اندر خود اعتمادی ہمیشہ ہمیشہ کے لئے ٹوٹ جائے گی اور میں یہ ہرگز نہیں چاہتا تھا‘‘۔
اپنی 84 سالہ طویل عمر میں تھامس ایڈیسن نے جہدِ مسلسل سے ایجادات کا انبار لگا کر خود کو نہ صرف انیسویں صدی کے بہترین سائنس دان کے طور پر منوایا بلکہ نوع انسانی میں سب سے زیادہ انفرادی ایجادات کے موجد کے طور پر بھی سامنے آیا۔جب تھامسن ایڈیسن کی شہرت آسمان کو چھو رہی تھی‘ ایک شام وہ اپنے گھر کی پرانی الماری میں سے کچھ کاغذات تلاش کر رہا تھا کہ اچانک اس کی نظر ایک بوسیدہ کاغذ پر پڑی‘ یہ وہی خط تھا جو بچپن میں اس نے اپنی والدہ کو سکول کی طرف سے لا کر دیا تھا۔ اب اس کی والدہ کو گزرے عرصہ ہو چلا تھا، اس نے خط کھولا، اس میں لکھا تھا ''آپ کا بیٹا انتہائی غبی (کند ذہن) اور ذہنی طور پر ناکارہ ہے، ہم اسے اب مزید سکول میں نہیں رکھ سکتے، آپ اسے خود گھر میں پڑھائیں‘‘۔ خط کی اصل عبارت پڑھ کر ایڈیسن کی آنکھیں آنسوئوں سے بھر گئیں، وہ جی بھر کر رویا۔ اس رات ایڈیسن نے اپنی ڈائری میں یہ شاندار جملہ لکھا ''تھامس ایلوا ایڈیسن ایک ذہنی طور پر ناکارہ بچہ تھا مگر اس کی عظیم ماں نے اسے ایک جینیئس بنا دیا‘‘۔
ہمیشہ کی طرح گزشتہ ہفتہ بھی طلبہ کے لئے دنیاوی یومِ حشر تھا‘ پے درپے امتحانی نتائج نے طلبہ کو ہلا کر رکھ دیا۔ اس بار بھی کم نمبر آنے پر کتنے ہی طالبعلم اپنے والدین کے غم و غصے کی تاب نہ لاتے ہوئے خودکشی کی آخری حد تک جا پہنچے۔ یاد رکھیں! خود اعتمادی کی دولت سے مالا مال تھامس ایڈیسن نے کرشمے کر دکھائے اور سکول سے نکالے جانے کے باوجود اُس کی ماں نے اسے اپنے سینے سے لگایا، بے پناہ پیار دیا، خوب پڑھایا اور محنت کر کے ایک بظاہر نالائق اور ناکارہ طالبعلم کو علم کے سمندر میں سے موتی چننا سکھائے، اسے خود اعتمادی کی دولت اور بے پناہ محبت کی طاقت سے اپنے عہد کا ایک عظیم سائنسدان بنا دیا۔ بطورِ والدین اس کہانی میں ہمارے لیے بہت بڑا سبق اور کئی اہم سوال ہیں۔ کیا ہم میں اتنا صبر اور حوصلہ ہے کہ اگر ہمارے بچے کا کوئی رزلٹ اچھا نہ آئے تو ہم غصے سے سیخ پا ہو کراُسے ذہنی، جسمانی اور جذباتی اذیت سے دوچار نہ کریں؟ اسے ضدی، نالائق، ناکارہ، کُند ذہن اور نکما جیسے القابات سے نہ نوازیں؟ یہ اٹل حقیقت ہے کہ ایک چھوٹی سی ناکامی پر ہمارے سخت ردعمل سے بچے پر ہمیشہ کے لیے ایک ناکام شخص کا لیبل لگ جاتا ہے اور وہ زندگی بھر ناکامیوں، محرومیوں اور نفسیاتی الجھنوں کے گرداب میں پھنسا رہتا ہے۔ منفی ردعمل سے وہ اپنی ذات میں مخفی گوہرِ نایاب ہرگز دریافت نہیں کر پاتا۔ لہٰذا بطور والدین ہمیں بھی تھامس ایڈیسن کی ماں سے سیکھنا چاہیے اور اپنے بچوں کو خود اعتمادی کی دولت سے مالامال کر کے انہیں ایک جینیئس بنانے میں اپنا کردار بطریقِ احسن ادا کرنا چاہیے کیونکہ عظیم مائیں ہی عظیم قوم بناتی ہیں۔