گزشتہ صبح بچے سکول جانے کی تیاریوں میں مصروف تھے اور میں ٹی وی سکرین پر نظریں جمائے بظاہر بے نیاز ہو کر کنکھیوں سے انہیں دیکھ رہا تھا۔ اُن کی ایک ایک ادا میں اکیسویں صدی کی جھلک تھی۔ انہیں صاف ستھرے خوبصورت یونیفارم میں دیکھ کر مجھے اپنے سکول کی سادہ سی وردی یاد آ گئی اور ذہن کے نہاں گوشوں سے ماضی کروٹ لے کر بیدار ہو گیا۔ لگ بھگ پینتیس برس قبل گائوں کی مسجد سے اذانِ فجر کی صدا بلند ہوتے ہی نیند کی تہیں آنکھوں سے ایک ایک کرکے اترنے لگتیں۔ صبح کی سردی میں وضو کے دوران پانی کہنیوں تک جاتا تو پورا جسم عجب لذت سے ہمکنار ہوتا۔ نماز مسجد میں ادا ہوتی اور اس کے بعد اما م صاحب ہمیں قرآن مجید کا درس دیتے۔ کبھی اچھا سبق سنانے کے انعام میں بادام والی ٹافی ملتی تو گویا پورا منظر نکھر جاتا، اتنی خوشی ہوتی کہ جیسے کوئی بہت بڑا معرکہ مار لیا ہو۔ مسجد سے گھر آکر غسل کر کے اپنی ماں کے ہاتھ سے بنا تازہ مکھن سے مزین پراٹھا، دیسی انڈے کا آملیٹ اور گھر کی لسی پر مشتمل ناشتہ تیار ہوتا، جس کی منفرد خوشبو آج بھی تازگی بخشتی ہے۔ سکول یونیفارم میں ملبوس ہم کھاد کی بوری ہاتھ میں لیے گھر سے نکلتے ہی دوڑ لگا دیتے کیونکہ کھلے میدان میں اپنے دوست اور اپنی جگہ پر قبضہ کرنا اولین ترجیح ہوتی تھی۔ سکول داخل ہوتے ہی اپنی پسندیدہ جگہ پر باقاعدہ لیٹ کر قبضہ یقینی بنایا جاتا تھا۔ ٹھنڈی زمین پر کھاد کی بوریاں بچھا کر نہ صرف سردی کی شدت کم کی جاتی بلکہ یہ فرنیچر کا نعم البدل بھی تھیں۔ جب استادِ محترم سکول کے بڑے دروازے سے داخل ہوتے تو پورا سکول ان کے احترام میں کھڑا ہو جاتا اور اسمبلی کے لیے قطاریں بن جاتیں۔ پرائمری سکول تک تعلیم اپنے گائوں میں مکمل کی مگر مڈل سکول کی سہولت ہمارے گائوں سے سات کلومیٹر کے فاصلے پر میسر تھی تو سیف بھائی اور میں نے مڈل سکول کے لیے روزانہ پیدل سفر شروع کیا۔ ہر روز سکول آنے جانے کیلئے چودہ کلومیٹر کا سفر پیدل طے کیا جاتا۔ اپنے گائوں سے نکلتے ہی کھیت کھلیان میں واقع پگڈنڈیوں سے گزرتے سکول کے لیے عازمِ سفر ہوتے تو ہر کھیت میں مخصوص سرگرمیاں دیکھنے کو ملتیں۔ اکثر کسان علی الصبح اپنے اپنے کھیت میں بیلوں کے ذریعے ہل چلا رہے ہوتے تھے، بیلوں کے گلے میں بندھی گھنٹیاں مسحور کن آواز سے ہمارے کانوں میں رس گھول جاتیں۔ وہ سادہ لوح دیہاتی کسان ہمیں سکول جاتا دیکھتے تو اپنے دل کی اتھاہ گہرائیوں سے نکلی اخلاص سے بھرپور دعائیں دیتے۔ برق رفتاری سے چلتے چلتے ہم سات کلومیٹر کا سفر تقریباً چالیس منٹ میں طے کر لیتے۔ کبھی کبھار آپس میں ریس بھی لگ جاتی تو فاصلہ تیس پینتیس منٹ میں کٹ جاتا۔ سکول میں تفریح کے وقت‘ اپنے بستے میں موجود رومال میں پراٹھا، آملیٹ اور گھر کے بنے اچار پر مبنی ''لنچ باکس‘‘ کھولا جاتا اور ساتھیوں کے ساتھ بیٹھ کر تناول کیا جاتا۔ بسا اوقات کلاس میں موجود بڑی عمر اور تگڑے قد کاٹھ والے لڑکے ہمارے ''لنچ باکس‘‘ پر قبضہ جما لیتے اور ہمیں محض لال رومال ہی واپس ملتا، پھر ہم اپنی پاکٹ منی سے شکر قندی اور مالٹے خرید کر کھا لیتے۔
واپسی کا سفر شروع ہوتا تو بھوک کی شدت ستا رہی ہوتی تھی، کماد کی فصل سے گنے، بیری کے بیر اور شلجم ہماری مرغوب خوراک تھی‘ جو راستے میں موجود فصلوں کی سہولت کی وجہ سے ہمارا آسان ہدف بن جاتی۔ چاقو، نمک مرچ اور دیگر ضروری آلات ہمارے سکول بیگ میں ہمیشہ موجود ہوتے‘ جنہیں واپسی پر استعمال میں لا کر بھوک کو مٹانے کا بندوبست کیا جاتا تھا۔ واپسی کا سفر عموماً ڈیڑھ گھنٹے میں کٹتا تھا اور چار بجے کے قریب ہم گھر پہنچتے تھے۔ ہماری لگن، اساتذہ کی محنت، کسانوں کی بے لوث دعائوں اور ماں باپ کی بے پناہ توجہ اور مسلسل رہنمائی ہمارے لیے سرمایۂ حیات ثابت ہوئی اور آج زندگی کے سفر پر گامزن‘ پیچھے مڑ کے دیکھیں تو سر فخر سے بلند ہو جاتا ہے کہ اس لمبے، صبر آزما اور کٹھن راستے پر ہم چلتے رہے، رکے نہیں، بھٹکے نہیں، کہیں قدم ڈگمگائے بھی تو فوراً سنبھل گئے۔ بے لوث دعائوں کی صدائوں میں اور اپنے گائوں کی دھوپ چھائوں میں ہم بڑے ہوتے گئے اور وقت تیزی سے آگے بڑھتا رہا۔
گائوں کی زندگی سادہ تھی، گھر زیادہ تر کچے مگر لوگ سچے اور رشتے پکے تھے۔ بڑی بڑی حویلیاں، چھوٹی چھوٹی دیواریں اور دروازے بہت کم، مگر زندگی محفوظ اور پُرسکون تھی۔ خوف نہیں تھا، رنج و ملال کے بجائے سکوں، اپنائیت، اُنس اور شرم و حیا کی وجہ سے رشتے ناتے زیادہ گہرے اور مضبوط تھے۔ معاشرتی تنظیم اور اجتماعیت کی لڑی میں پروئے ہوئے گائوں میں ایک دوسرے کی ڈھارس اور امداد کو ذاتی مفاد پر ترجیح دینا قابل فخر کردار کی عملی مثال تھا۔ فصل کی بیجائی ہو یا کٹائی، سب مل کر باری باری ایک سے دوسرے کھیت میں پھیل جاتے اور سب کی فصلیں ایک ہی قد و قامت اور رنگ و روپ میں لہلہانے لگتیں۔ غریب اور بے زمین کامے کسی نہ کسی زمیندار سے منسلک ہوتے جو ان کی خدمات کے عوض ان کے گھروں میں گندم، چاول، لکڑی، لسی، مکھن اور دودھ تک ساری ضروریاتِ زندگی کی ترسیل کو یقینی بناتا اور اسے اپنی چودھراہٹ اور باپ دادا کی عزت کی ضمانت سمجھتا۔ گائوں کے سب جوان کھیل تماشے، شغل میلہ، ہنسی مذاق، سخی سرور کے سنگ، کبڈی، ریچھ کتوں کی لڑائی اور بیلوں کی ریس جیسے ثقافتی میلے ٹھیلے بڑی دھوم دھام سے منعقد کرواتے اور آس پاس کے سبھی دیہات ان میں شریک ہوتے تو ایک سماں بندھ جاتا۔
گائوں میں کسی گھر میں شادی کی تیاری شروع ہوتی تو اس کا انتظام و انصرام گویا سارے گائوں کی اجتماعی ذمہ داری بن جاتی۔ شادی سے کم از کم پندرہ بیس دن پہلے رات کو ڈھول کی تھاپ پر گائوں کے سارے جوان اور بزرگ ثقافتی رقص کرتے، جھومر ڈالتے، بھنگڑے سے لطف اندوز ہوتے اور رات گئے تک عید کا سا سماں رہتا۔ شادی سے ایک دو روز قبل دور دراز سے قریبی رشتہ دار اور دوست احباب پہنچ جاتے تو پورے گائوں سے چارپائیاں، بستر اور تکیے اکٹھے کئے جاتے اور مہمانوں کی خاطر تواضع کے لیے مختلف گھروں کا انتخاب کیا جاتا‘ جہاں ان کے سونے، نہانے اور کھانے کے مناسب انتظامات کو یقینی بنایا جاتا۔ صبح ناشتے کے لیے مسجد میں اعلان کروایا جاتا اور اس طرح شادی کی جملہ رسومات کی بخیر و خوبی انجام دہی میں گائوں کے بزرگ اور جوان‘ سب اپنا اپنا حصہ ڈالتے۔ گائوں سے جب کسی لڑکی کی ڈولی اٹھتی تو تقریباً ہر آنکھ اشکبار ہوتی گویا کہ وہ پورے گائوں کی عزت تھی جو اب پرائی ہو چلی تھی۔
بارش ہوتی تو گائوں کے سب جوان نہانے کیلئے گھروں سے باہر نکل آتے اور کھیل تماشے شروع ہو جاتے۔ گائوں کے اطراف میں موجود بیری، جامن، امرود اور آم کے درخت ہمارا نشانہ بنتے اور سب اپنے مرغوب پھل توڑنے کیلئے ٹولیاں بنا کر درختوں پر حملہ آور ہوتے۔ کبھی کبھار مالکان نے دیکھ بھی لینا تو واجبی سی گالیوں اور وعظ و نصیحت کے ساتھ جوانوں کو بھگانے کی کوشش کی جاتی جو اکثر ناکام رہتی۔ پھر اچانک مشینری، ٹیکنالوجی، سائنسی ترقی اور آلات نے ایسا رنگ جمایا کہ گائوں کی اجتماعیت کا شیرازہ بکھر گیا۔ نفسانفسی، آپا دھاپی، مفاد پرستی، کینہ، بغض، حرص و ہوس، حسد اور لالچ نے انسان کو انسان سے دور کر دیا۔ رشتے ناتے، دوست احباب اور قربت کی ساری شکلیں فاصلوں اور دوریوں میں بدل گئیں۔ دیہاتی زندگی میں شہری زندگی کی تیزی اور مادہ پرستی نے زور پکڑ لیا اور آج میرے گائوں سمیت دیہاتی زندگی اک اجڑے ہوئے گلشن کا نقشہ پیش کرتی ہے۔
اب گائوں کے بچے بھی صبح سویرے اپنے سکول کی وردی میں ملبوس موٹر سائیکل یا رکشوں پر سوار ہو کر اپنے سکول جاتے ہیں، المیہ یہ ہے کہ ان کو راستے میں دعائوں کی صدائیں لگانے والے وہ سچے اور بے لوث کسان نہیں ملتے۔ شاید دعائوں سے عاری بظاہر یہ خوشحال دیہات اسی لیے تیزی سے اجڑتی ہوئی زمین کا نقشہ پیش کر رہے ہیں جس کے بارے میں احمد ندیم قاسمی نے برسوں پہلے لکھا تھا ؎
شاید اسی دکھ سے اجڑتی چلی جاتی ہے زمیں
کہ اب تو انسان کا ستاروں پہ بسیرا ہو گا