تیرہ کا درجن

تین دوست حصولِ علم کیلئے گاؤں سے شہر روانہ ہوئے، تینوں نے اس سلسلے میں ایک ہی شہر کا انتخاب کیا اور خوب دل لگا کر علم حاصل کرنے لگے۔ جب وہ اپنے اپنے شعبے میں مہارت حاصل کر چکے تو واپسی کا قصد کیا۔ گاؤں کے راستے میں ایک دریا آتا تھا‘ جسے عبور کرنے کیلئے وہ کشتی میں سوار ہو گئے۔ اپنے اپنے شعبے پر مہارت اور علم نے ان کے اندر تکبر پیدا کر دیا تھا اور وہ احساسِ برتری کے نشے میں جھومتے‘ گاتے منزل کی طرف رواں دواں تھے۔ ان کی نظر سادہ لوح ملاح پر پڑی تو ایک نوجوان‘ جو فلسفہ پر گرفت رکھتا تھا‘ حقارت سے ملاح سے استفسار کرنے لگا ''بتائو کشتی پانی میں کیسے تیرتی ہے اور اس کی کیا منطق ہے؟‘‘ ملاح نے لاعلمی کا اظہار کیا۔ اس پر یہ سوال پوچھنے والا متکبرانہ لہجے میں گویا ہوا: اگر تم زندگی بھر علمِ فلسفہ نہیں سیکھ سکے تو تم نے عمر ضائع کر دی ہے۔ کچھ دیر بعد دوسرے دوست نے سوچا کہ کیوں نا وہ ملاح سے اپنے مضمون کے متعلق سوال کر کے اپنی علمی برتری ظاہر کرے۔ یہ شخص علم فلکیات پر مہارت رکھتا تھا۔ اس نے ملاح سے پوچھا ''کیا تم بتا سکتے ہو کہ چاند گرہن کب لگتا ہے؟‘‘ ملاح نے ایک بار پھر لاعلمی کا اظہار کرتے ہوئے سر جھکا لیا اور دل ہی دل میں مسافروں کی علمیت کا قائل ہو گیا، اس نوجوان نے کہا: تم نے اپنی پوری زندگی بیکار گزار دی اور علمِ فلکیات تک نہ سیکھ سکے۔ اب تیسرے نوجوان نے سوچا کہ کیوں نا وہ بھی کوئی ایسا سوال پوچھے جس سے ملاح چاروں شانے چت ہو جائے۔ یہ فارسی زبان کا ماہر تھا‘ اس نے ملاح سے کہا ''فارسی کے مشہور شاعر رودکی کو تو سن رکھا ہوگا تم نے؟‘‘ ملاح کو اپنی کم علمی پر تاسف ہوا کہ وہ ایک مشہور شاعر کے متعلق بھی نہیں جانتا۔ اس نے شکست خوردہ لہجے میں جواب دیا: نہیں جناب! میں نے نہیں سنا۔ اس سے پہلے کہ اس تیسرے شخص کے چہرے پر تکبر کے آثار نمودار ہوتے‘ کشتی دریا کے بیچ منجدھار میں پھنس کر اپنا توازن کھونے لگی۔ ملاح اپنی تمام تر توانائیاں صرف کرنے کے باوجود کشتی کو نہ سنبھال سکا تو چیختے ہوئے اس نے پوچھا: کیا تم تینوں کو تیرنا آتا ہے؟ تینوں نے نفی میں سر ہلا دیا، اس پر ملاح یہ کہتے ہوئے دریا میں کود گیا کہ افسوس تم تینوں نے اپنی زندگیاں ضائع کر دیں، اب موت کو مرحبا کہو اور اپنے علمی تکبر کا تعفن زدہ کفن لپیٹ کر احساسِ برتری کے قبرستان میں ہمیشہ کے لیے دفن ہو جاؤ‘‘۔
کچھ لوگوں میں احساسِ برتری حد سے تجاوز کر جاتا ہے‘ میں نے اکثر دیکھا ہے کہ ایسے لوگ جب تک سامنے والے کو اس کی کم علمی کا مکمل یقین نہ دلا لیں اور اپنی علمی برتری ثابت نہ کر دیں‘ تب تک ان کی تشفی ممکن نہیں ہوتی۔ یہ تکبر کا ایک پہلو ہے، تکبر جس رنگ میں بھی ہو‘ انسانی روح کو بے رنگ کر کے چھوڑتا ہے۔ چاہے یہ تکبر نرگسیت کے بانی نارسیس کے دماغ میں جا گھسے اور اسے خود پسندی کا ایسا تحفہ بخش دے کہ وہ پانی میں اپنا عکس تکتے تکتے فنا ہو جائے یا پھر فرعون کے ماتھے کی رگوں پر پھڑپھڑائے اور اسے خود کو طاقتور کہنے پر مجبور کر دے‘ دونوں صورتوں میں زہرِ قاتل ہے، اس کا انجام سوائے ذلت کے اور کچھ نہیں۔ ابلیس کے دماغ میں تکبر کا یہ کیڑا گھسا تو وہ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے دھتکار دیا گیا۔ ایک بار ایک متکبر شخص نے مولانا روم سے نصیحت چاہی تو مرشدِ اقبال مولانا نے اُسے عجیب نصیحت کی، ''تھوڑی دیر کے لیے قبرستان جا اور خاموشی سے بیٹھ کر ان بولنے والوں (متکبروں) کی خاموشی کو دیکھ!‘‘
ہم اپنے سروں کو فلک پر پھینک کر یہ بھول جاتے ہیں کہ ہم کئی سو میٹر اونچی بلند عمارتیں تعمیر کر بھی لیں تو ان کی بنیاد زمین پر ہی رکھی جائے گی اور اگر یہ بنیاد کمزور ہو جائے تو عمارت کو زمیں بوس ہونے میں فقط چند ہی لمحے لگیں گے۔ دوسری طرف عاجزی کا مقام یہ ہے کہ بعض روایات کے مطابق جب خاتم النبیین نبی کریمﷺ معراج پر تشریف لے گئے تو اللہ تعالیٰ نے استفسار کیا کہ میرے لیے کیا تحفہ لائے ہو؟ اس پر آپﷺ نے فرمایا: عاجزی۔
تکبر وہ راستہ ہے جس کی رہنمائی کے لیے جگہ جگہ ابلیس، فرعون اور نارسیس جیسے کردار موجود ہیں۔ جس طرح پیڑ کو دیمک لگ جائے تو وہ آہستہ آہستہ کھوکھلا ہونے لگتا ہے اور پھر ایک دن زمیں بوس ہو کر ہمیشہ کے لیے ختم ہو جاتا ہے‘ اسی طرح تکبر انسان کی صلاحیتوں، روحانی بصیرت، باطنی بصارت اور دل کے نور کو آہستہ آہستہ کھوکھلا اور مدھم کر دیتا ہے۔ یہ انسان کو احساسِ برتری میں مبتلا کر کے ایک کمتر درجے کے انسان میں بدل دیتا ہے۔ تکبر کی آگ انسان کے مٹی سے تخلیق شدہ جسم کو ہمیشہ کے لیے آگ کا لباس پہنا کر اُسے شیطانی قافلے کا مسافر بنا دیتی ہے اور وہ تفاخر اور غرور کے مرض میں بری طرح مبتلا ہو کر دوستوں، رشتہ داروں، رفقائے کار اور عام انسانوں سے کٹ جاتا ہے اور ہمیشہ کے لیے تنہائی اس کا مقدر بن جاتی ہے۔ رسوائیاں اسے چاروں طرف سے گھیر لیتی ہیں اور پھر ذلت بھری زندگی اس کا معمول بن جاتی ہے۔ دولت، حسن، جوانی، کامیابی، شہرت، اولاد، مال و زر کی فراوانی، علم و فضل، زہد و تقویٰ اور عبادت و ریاضت بھی تکبر کی وجہ ہو سکتی ہے۔ اس عالم آب و گِل میں تکبر کا آغاز ابلیس سے ہوا اور وہ ہمیشہ کے لیے ظالموں میں سے ہو گیا۔ کبریائی محض اللہ کریم ہی کے شایانِ شان ہے اور اسی کا زیور ہے جبکہ عجز و انکساری، حلم و نرم خوئی اور اللہ کی مخلوق سے پیار و محبت انسانی کردار اور اخلاقی اقدار کی اعلیٰ ترین شکلیں ہیں۔ عجز اللہ تعالیٰ کو بے پناہ پسند ہے اور وہ ہمیشہ جھکنے والوں کو رفعتیں عطا کرتا ہے۔
میں اکثر یہ سوچتا ہوں کہ سفیدے، سنبل، چیڑ، دیودار کے درخت بہت لمبے نظر آتے ہیں مگر اُن پہ پھول لگتے ہیں نہ پھل، نہ ہی کبھی ایسے درختوں کے سائے میں لوگوں کو بیٹھتے دیکھا ہے۔ اس کے برعکس پھولوں اور پھلوں سے لدے ہوئے پیڑ ہمیشہ تقدیسِ نعمت میں جھکے ہوئے زمین کے قریب تر نظر آتے ہیں۔ جھکی ہوئی ٹہنیاں عاجزی کا استعارہ بن کر سبق سکھاتی ہیں کہ ہمیں تکبر کے منہ زور گھوڑے کو عاجزی کے چابک مار کر اپنے قابو میں رکھ کر دین و دنیا میں اپنی فلاح کو یقینی بنانا ہے وگرنہ انا پرستی کے حصار کا شکار ہو کر متکبر انسان کے نصیب میں دونوں جہاں کی شکست لکھ دی جاتی ہے۔ اس دنیا میں ذلت و رسوائی اور خدا اور اس کی مخلوق کی دھتکار کے مارے یہ بدنصیب اگلے جہان کو بھی گنوا بیٹھتے ہیں اور یوں دونوں جہان ہارنے والے یہ گھمنڈی لوگ ہمارے لیے نشانِ عبرت بنا دیے جاتے ہیں۔ 
واصف علی واصف نے عاجزی و انکساری کے پیکر صاحبِ کرم لوگوں کی خصوصیات خوبصورت پیرائے میں بیان کی ہیں‘ فرماتے ہیں ''میں نے جب بھی کوئی ایسا شخص دیکھا جس پر رب کا کرم تھا تو اسے عاجز پایا۔ پوری عقل کے باوجود بس سیدھا سادہ سا بندہ، بہت تیزی نہیں دکھائے گا، الجھائے گا نہیں، راستہ دیدے گا۔ بہت زیادہ غصہ نہیں کرے گا، آسان بات کرے گا۔ میں نے ہر صاحبِ کرم شخص کو مخلص دیکھا، اخلاص سے بھرا ہوا، غلطی کو مان لیتا ہے‘ معذرت کر لیتا ہے، ہتھیار ڈال دیتا ہے۔ جس پر بھی کرم ہوا ہے میں نے اسے دوسروں کے لیے فائدہ مند دیکھا اور یہ ہو ہی نہیں سکتا کہ آپ کی ذات سے کسی کو نفع ہو رہا ہو اور اللہ آپ کے لیے کشادگی کا راستہ روک دے، وہ اور زیادہ کرم کرے گا۔ میں نے ہر صاحبِ کرم کو احسان کرتے دیکھا ہے، حق سے زیادہ دیتا ہے اور اس کا درجن تیرہ کا ہوتا ہے‘ بارہ کا نہیں۔ اللہ کے کرم کے پہیے کو چلانے کے لیے آپ بھی درجن تیرہ کا کرو اور اپنی زندگی میں اپنے حصے سے زیادہ احسان کر دیا کرو۔ نہیں تو کیا ہوگا... حساب پہ چلو گے تو حساب ہی چلے گا‘‘۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں