سراب سی زندگی

بلاشبہ کتابِ زیست کا مرکزی خیال زندگی کی بے ثباتی اور غیر یقینی سے عبارت ہے کہ 'ثبات اک تغیر کو ہے زمانے میں‘۔ انسان سمیت اس کائنات کی ہر شے راہِ عدم کی مسافر ہے۔ گردشِ ماہ و سال ہو یا داستانِ عروج و زوال‘ سب فنا پر گواہ ہیں۔ روزِ ازل سے آج تک‘ نجانے کتنے ظالم، سفاک، جابر اور طاقتور آئے اور پھر چند ساعتوں کا عہدِ سلطانی گزار کر ہمیشہ کیلئے منوں مٹی تلے جا سوئے۔ آدھی سے زیادہ دنیا فتح کرنے والا سکندرِ ِ اعظم بھی موت کی آغوش میں چلا گیا۔ سیاست، فلسفہ اور طِب میں یکتا افلاطون فالج کا مریض بن کر دنیا سے رخصت ہوا۔ دنیا کی عظیم ترین تہذیبوں کا آج صرف نشان باقی ہے۔ دنیائے سیاست کے سب قد آور نام‘ جارج واشنگٹن، جیفرسن، جیک سن، ابراہیم لنکن، روزویلیٹ، جان کینڈی، مارٹن لوتھر کنگ، قائد اعظم محمد علی جناح، جواہر لعل نہرو، علامہ اقبال، گاندھی، ونسٹن چرچل، مائوزے تنگ، ہٹلر، سٹالن اور رچرڈ نکسن‘ سب آج آسودۂ خاک ہیں۔ فنِ مصوری میں اوجِ کمال پانے والے مائیکل اینجلو، پکاسو اور صادقین بھی ملکِ عدم کے راہی ٹھہرے۔ فنِ تعمیر، تزئین و آرائش اور نقش نگاری کی بدولت انسانی تاریخ میں سات عجوبے قرار پانے والی پُر شکوہ عمارات آج کھنڈرات میں تبدیل ہو چکی ہیں۔ سات سو قبل مسیح میں بنائی گئی عظیم دیوارِ چین ہو یا تین سو بارہ قبل مسیح جنوبی لبنان میں پہاڑوں کا سینہ چیر کر بنایا جانے والا محلات کا مرکزپیٹرا‘ چھ ایکڑ پر محیط اٹلی کے شہر روم میں واقع کولوسییم ہو یا اس کے صوبے پیسا میں کھڑا ٹیڑھا مینار‘ اپنی محبت کو امر کرنے کیلئے مغل حکمران شاہجہاں کاتاج محل ہو یا میکسیکو کے صوبے یکاتان میں بسایا جانے والا شہر چیچن اعتزا یا پیرو کے صوبے کسکو میں بنایا جانے والا شہر ماچوپیچو۔ سب داستانِ عبرت بن کر انسانی جاہ و حشم کے فانی ہونے کی گواہی دے رہے ہیں۔
دوسری جنگِ عظیم کے خاتمے کے بعد سرد جنگ کے پچاس سالہ دور میں مشرقی دنیا کی قیادت روس جبکہ مغربی ممالک کی باگ ڈور امریکا کے ہاتھ رہی۔ سرمایہ دارانہ نظام بالآخر کمیو نزم کو شکست دینے میں کامیاب ہو گیا اور مال و دولت کا ارتکاز چند ملکوں اور افراد تک محدود ہو گیا جبکہ غربت کے سمندر میں معاشی خوشحالی کے محض چند جزیرے ہی باقی بچے۔ مغربی ممالک میں مادی ترقی اور سائنسی تحقیق کے علوم میں بے پناہ ترقی کے دعوے کیے گئے‘ لندن، پیرس، نیویارک، سڈنی، پرتھ، آک لینڈ، اوسلو، میلان، بارسلونا میں پُر شکوہ بلند و بالا عمارات سرمایہ دارانہ نظام کی کامیابی کی دلیل بن گئیں۔ ادھر روس کی شکست کے بعد چین نے انسانی وسائل اور طب و تحقیق پر بے پناہ وسائل خرچ کئے اور امریکا کے مقابلے میں معاشی پیداوار کے تمام اشاریے مثبت کرنے کیلئے شبانہ روز کاوشیں کیں اور اپنی مصنوعات کو عالمی منڈیوں میں پہنچاکر مادی ترقی کے نئے ریکارڈ قائم کیے‘ حتیٰ کہ بات امریکا اور چین کے مابین اک نئی سرد جنگ کے آغاز تک آ پہنچی۔ انسانی ترقی، معاشی خوشحالی، سائنسی تحقیق اور شعبۂ طب میں بے پناہ کامیابیوں نے انسان کو نہایت طاقتور، خود مختار اور خود غرض بنا ڈالا۔ انٹرنیٹ، سوشل میڈیا اور آسان نقل و حرکت کے بے پناہ ذرائع نے پوری دنیا کو اک گلوبل ویلیج بنا دیا اور روزانہ لاکھوں افراد ایک ملک سے دوسرے ملک کا رخ کرنے لگے۔کاروباری اور تجارتی معاملات کے ساتھ ساتھ سیر و تفریح کیلئے بیرونِ ملک سفر میں خاصا اضافہ دیکھنے میں آیا۔ دولت کی ریل پیل، حرص و ہوس اور چکا چوند روشنیاں اکیسویں صدی کے انسان کا طرزِ زندگی ٹھہریں‘ مگر کسے معلوم تھا کہ 31 دسمبر 2019ء کی رات نئے سال کے استقبال کیلئے کی جانے والی آتش بازی انسانی خوشیوں کو بجھا دے گی اور آنے والا سال انسان کیلئے رنج و غم اور مصائب و آلام کے لامتناہی سلسلے شروع کرنے والا ہے۔ جیسے انسانی زندگی کو نظر ہی لگ گئی،خوشیاں یکسر روٹھ گئیں،ہر طرف خوف اور موت کے بسیرے نظر آنے لگے۔ سب سے پہلے سالِ نو کے آغاز میں آسٹریلیا کے جنگلات میں آگ بھڑک اٹھی اور چند ہی دنوں میں اس نے لاکھوں ایکڑ علاقے کو اپنے خوفناک حصار میں جکڑ لیا اور پورے آسٹریلیا میں دھوئیں، خوف اور موت کے سائے منڈلانے لگے۔ہزاروں افراد بے گھر ہوگئے۔ چونتیس افراد جان کی بازی ہار گئے اور ایک اندازے کے مطابق ایک ارب سے زائد جنگلی حیات اس آگ کا لقمہ بن گئی۔ موت کے خوف سے ہزاروں لوگ اپنے گھر بار چھوڑ کر نقل مکانی پر مجبور ہوئے تو بے سرو سامانی میں آسٹریلیا کی شاہراہوں پر انسانوں کا جمِ غفیر زندگی کی بے ثباتی اور غیر یقینی ہونے کی گواہی دے رہا تھا۔ پھر آسمان سے ابرِ رحمت برسا، خوب بارش ہوئی اور موسم ِ گرما کی شدت میں کمی آئی، یوں آسٹریلیا کے باسیوں کی جان میں جان آئی۔ 
مارچ 2020ء میں یورپ میں‘ اٹلی کے شہر میلان میں کورونا کا کیس سامنے آیا تو موت اور خوف کے بادل یورپ سے، امریکا، کینیڈا اور آسٹریلیا تک کے افق پر چھا گئے اور ایک غیر مرئی جرثومے نے چند ہی ہفتوں میں پوری دنیا کو اپنے خونیں پنجوں میں جکڑ لیا۔ چین کے صوبے ووہان سے شروع ہونے والی اس مہلک وبا نے کاروباری زندگی مفلوج کر دی۔ سائنسی ترقی اور شعبۂ طب میں حاصل کی جانے والی سب مہارتیں دھری کی دھری رہ گئیں۔ انسان انسان سے خوف کھانے لگا۔ والدین بچوں سے اور بچے والدین سے فاصلہ رکھنے پر مجبور اور اپنے اپنے کمروں میں محصور نظر آئے۔ ماسک، سینی ٹائزر، ٹوائلٹ رول اور حفظانِ صحت کی دیگر اشیا کی قیمتیں آسمان کو چھونے لگیں اور مصنوعی قلت سے ان اشیا کی فراہمی میں شدید بحران دیکھنے کو ملا۔ پوری دنیا میں سرحدوں کو سیل کیا جانے لگا، ایئر پورٹس، بندرگاہیں، درگاہیں، بازار، شاپنگ مالز، شادی ہالز، سیرو سیاحت کے تمام مقامات،ہوٹلز اور ریسٹورنٹس وغیرہ بند کر دیے گئے۔ انسانی میل جول اور اجتماعات پر مکمل پابندی عائد کر دی گئی۔ کہیں کرفیو، کہیں لاک ڈائون اور کہیں سمارٹ لاک ڈائون سے زندگی کے پہیے کو روک دیا گیا، وقت تھم گیا، خوشیاں روٹھ گئیں، خوف کے بسیرے اور موت کے ڈیرے ہر طرف نظر آئے۔ کورونا کی وبا نے زور پکڑا تو ہسپتالوں میں تل دھرنے کو جگہ نہ رہی، ڈاکٹرز، نرسز، پیرامیڈیک سٹاف، دوائیاں اور بیڈز کم پڑ گئے تو کورونا کے مریض زندگی کی بازی ہارنے لگے۔ علاج کرتے کرتے خود کئی ڈاکٹرز اس خوفناک مرض میں مبتلا ہو کر لقمۂ اجل بن گئے۔ مادی ترقی، سائنسی جدت اور طب و تحقیق کے میدان میں بے پناہ کامیابیوں کے سب دعوے دھرے کے دھرے رہ گئے۔ دنیا بھر میں آٹھ کروڑ سے زائد افراد اس وبا کا نشانہ بنے اور اٹھارہ لاکھ بدقسمت راہِ عدم کے مسافر ٹھہرے۔
2020ء بالآخر اپنے انجام کو پہنچا اور آج نئے سال کا پہلا دن ہے مگر گزشتہ سال سے وابستہ تلخ یادیں اور دل دہلا دینے والے واقعات ہمیشہ ہمارا تعاقب کرتے رہیں گے۔ اس خونیں سال نے دنیا کو یکسر بدل دیا اور انسانی تاریخ میں اک نئے عہد کا اضافہ کیا۔ اب دنیا کورونا سے پہلے اور کورونا کے بعد کے زمانے سے جانی جائے گی۔ 2020ء یقینا اک یادگار کی حیثیت اختیار کر چکا ہے مگر کیا زمانے کو برا بھلا کہا جا سکتا ہے؟ زمانہ تو صرف گواہ ہے، اک سیلِ رواں ہے، وقت کا بہائو ہے، کاروانِ حیات کا تسلسل ہے اور قانونِ قدرت کے پابند نظام کا اہم جزو‘ اس سے زیادہ کچھ نہیں! اگر 2020ء میں ہونے والی خوفناک تباہی کا کوئی ذمہ دار ہے تو وہ انسان خود ہے جس کے بنائے گئے نظام میں وسائل کی غیر منصفانہ تقسیم اور ترسیل کے سبب دولت کا ارتکاز محض چند افراد، اداروں اور ممالک تک محدود ہو کر رہ گیا۔ اگرچہ غربت، پسماندگی، بیماری، لاچارگی اور بے حسی کے اس سمندر میں کہیں کہیں خوشحالی کے جزیرے بھی ہیں۔ کورونا کی عالمی وبا کے خوفناک اثرات نے انسانی حرص و ہوس، طمع و لالچ، مادہ پرستی اور خود غرضی کے کئی بدترین چہرے بے نقاب کیے ہیں۔ اس معمولی سے جرثومے نے یہ ثابت کیا ہے کہ ترقی و خوشحالی کے سب انسانی دعوے جھوٹے اور کھوکھلے ہیں۔ اس نے انسان کے تکبر، خود پسندی اور خود فریبی پر کاری ضرب لگائی ہے اور اسے اس کی حیثیت یاد کرا دی ہے کہ انسانی زندگی محض ایک دھوکا ہے، گلاب، شباب کے سب رنگ عارضی ہیں اور یہ ایک سراب سے زیادہ کچھ نہیں! برج نرائن چکبست یاد آگئے:
زندگی کیا ہے عناصر میں ظہورِ ترتیب
موت کیا ہے اِنہیں اجزا کا پریشان ہونا

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں