کل صبح سویرے حسبِ معمول اخبارات کا مطالعہ شروع کیا تو گھر کی گھنٹی مسلسل تین بار بجی‘ مجھے فوراً آنے والے مہمان کا اندازہ ہو گیا کہ ہو نہ ہو یہ ''جیدی میاں‘‘ ہی ہوں گے‘ ان کے علاوہ کوئی نہیں ہو سکتا، سو میں بھی ملازم کے پیچھے چلتا ہوا گھر کے مرکزی دروازے تک پہنچ گیا۔ دروازہ کھلا تو سامنے جیدی میاں گرم جیکٹ اور اُونی مفلر میں ملبوس اپنی روایتی مسکراہٹ کے ساتھ کھڑے تھے۔ سلام دعا کے بعد میں نے اندر آنے کا کہا تو فوراً جیکٹ کی اندرونی جیب میں ہاتھ ڈالتے ہوئے ایک بند لفافہ نکالا اور ایک خط میرے حوالے کرتے ہوئے کہنے لگا کہ یہ ''بابا جی‘‘ نے آپ کے لیے بھیجا ہے اور تاکید کی ہے کہ آپ اسے اپنے اگلے کالم میں بغیر کسی ترمیم و اضافہ شامل کر دیں۔ مزید کہنے لگا کہ بابا جی سخت سردی، دُھند اور کورونا وبا کی بڑھتی ہوئی شدت کی وجہ سے خود حاضر نہیں ہو سکے‘ لہٰذا نئے سال کی مبارکباد کے لیے بعد میں وہ خود تشریف لائیں گے۔ اتنی بات کر کے جیدی میاں نے اجازت طلب کی اور روانہ ہو گئے۔ میں اپنے سٹڈی روم میں آکر بیٹھ گیا اور بلا تاخیر اپنے تجسس کی تسکین کے لیے بابا جی کی طرف سے بند لفافے میں بھیجا گیا 'کھلا خط‘ پڑھنے لگا جو آپ سب کی نذر ہے:
''اسد میاں! امید ہے آپ بخیر و خوبی زندگی کے معاملات بطریق احسن نبھا رہے ہوں گے اور سالِ نو‘ 2021ء میں پورے جوش و جذبے سے مزید بڑے خوابوں کے تعاقب میں نکل پڑے ہوں گے۔ بقول اقبال 'ڈھونڈنے والوں کو دنیا بھی نئی دیتے ہیں‘ آپ اپنا سفر جاری رکھیں، چلتے رہیں، سمت درست رکھیں، حوصلہ نہ ہاریں، راستے کی مشکلات‘ کانٹوں اور پتھروں سے گھبرانے کے بجائے اُن سے نبرد آزما ہونے کا سلیقہ اختیار کریں، رنج سے خوگر ہو کر اُسے مٹانے کی چارہ جوئی کریں تو تمام مشکلیں آساں ہو جاتی ہیں۔ ہمیشہ کی طرح اس بار بھی مجھے فیس بک، میسنجر ، وٹس ایپ اور موبائل فون پر میسجز کی صورت میں ہزاروں مہربانوں نے نئے سال کی مبارکباد کے پیغامات بھیجے ہیں مگر نجانے کیوں شاندار لفاظی، حسنِ ترتیب اور رنگا رنگ جملوں کے باوجود سب پیغامات مجھے جذبات سے عاری، مروت سے محروم، اپنائیت سے خالی اور سچائی و احساس سے میلوں دور دکھائی دیتے ہیں۔ الفاظ پرائے، چنائو کسی اور کا اور مخاطب بھی کوئی اور، لکھنے والے کا علم نہ ہی اصل مخاطب کا پتا‘ جانے کس نے کس کو بھیجا اور وہ موبائل فون بدلتا بدلتا‘ فارورڈ ہوتا ہوا، مشینی انداز میں مجھ تک آن پہنچا۔ مجھے ان میں کوئی جذبہ، احساس اور محبت محسوس نہیں ہوئی لہٰذا میں نے اُن سب پیغامات کو پڑھنا تک گوارا نہیں کیا۔ نئے سال کی آمد کی خوشی میں میرے دو پرانے یار آئے، بیٹھک میں میرے ساتھ بیٹھے، خوش گپیاں لگائیں، عہدِ شباب کے قصے بھی چھیڑے اور گلاب رُت کے سہانے سپنے بھی یاد آئے، خواہشوں کے ریلے اور یادوں کے جھمیلے میں بیتے ماضی کے کئی یادگار لمحات بھی زیرِ بحث رہے، جواں جذبوں اور گئی رُتوں کا تذکرہ ہوا تو بچھڑنے والے دوستوں کے ذکر پر آنکھوں سے ساون بھی برسا۔ یوں بچپن کے اُن دوستوں کے ساتھ تین گھنٹے پل بھر میں گزر گئے۔ اُن پیار بھری ساعتوں نے پورے سال کے لیے مجھے تروتازہ کر دیا۔ وہ چلے گئے مگر سچے جذبات سے لبریز اُن کی نیک تمنائیں اور دعائیں میرے ساتھ رہ گئیں۔ بھلا دوبدُو ملاقات اور گرمیٔ جذبات کے مقابلے میں مصنوعی پیغامات کی کوئی حیثیت ہو سکتی ہے؟ ہرگز نہیں! اسی لیے میں نے آج تک کسی کو کبھی ان ذرائع سے مبارکباد یا تعزیت کا کوئی پیغام نہیں بھیجا۔ کوشش کرتا ہوں خود جا کر دوستوں کی خوشی‘ غمی میں شریک ہو جائوں، ورنہ فون کر کے اپنے جذبات پہنچاتا ہوں اور فون نہ کر سکوںتو خط لکھتا ہوں کہ 'دل سے جو بات نکلتی ہے اثر رکھتی ہے‘۔
نئے سال کے استقبال پر آتش بازی اور گولہ باری دیکھ کر یوں لگا کہ جیسے خوشحالی کی ریل پیل ہونے والی ہے، عدل و انصاف کا بول بالا ہونے والا ہے، ہر چوک‘ چوراہے پر عدلِ جہانگیری کی زنجیر لٹکنے والی ہے، غریب‘ امیر کی تفریق ختم ہونے والی ہے، محروم و محکوم طبقہ دودھ اور شہد کی نہروں سے اپنی بھوک اور پیاس مٹانے والا ہے، ظلم کا خاتمہ ہونے والا ہے، ظالم اور جابر کا محاسبہ ہونے والا ہے، مظلوم اور معصوم لوگوں کی داد رسی ہونے والی ہے، باطل کے گھٹا ٹوپ اندھیروں کی کالی سیاہ رات کے خا تمے کی گھڑی آن پہنچی ہے، حق کی فتح کی نوید سنانے اک صبح پُرنور مشرقی افق پر نمودار ہونے والی ہے اور بے بسی، بے کسی میں بُری طرح پھنسی انسانیت جرم و جہالت کی اتھاہ گہرائیوں سے نکلنے والی ہے، معاشی و سماجی مساوات، عدل و انصاف اور اخوت کے سنہرے دور کا آغاز ہونے والا ہے۔ چور، ڈاکو اور لٹیروں کے گرد قانون کی گرفت سخت ہونے والی ہے اور وحشی درندوں سے ہمیشہ کے لیے آزادی اور چھٹکارا ملنے کی خوشخبری سنائی جانے والی ہے۔ معصوم بچوں اور ننھی کلیوں کو مسلنے والے اوباش درندوں کو قانون کے شکنجے میں جکڑنے کیلئے قانون نافذ کرنے والے ادارے نئے عزمِ صمیم اور اک مربوط حکمتِ عملی کے ساتھ میدان میں کود پڑے ہیں۔ ہر طرف امن و آشتی کے گیت اور پیار محبت کے سُر سنگیت چھڑنے والے ہیں۔ ہاں! اگر ایسا ہے تو پھر میں بھی نئے سال کی آمد کی خوشیوں میں شامل ہو جاتا ہوں مگر ایسا ہوتا دکھائی نہیں دیتا۔ اُسی پرانے کیل پر نیا کیلنڈر لگا دیا جائے گا اور شہرِ بے نوا میں بھوک، ننگ، غربت، مفلسی، لاقانونیت، محرومی، محکومی، ظلم اور افلاس کا راج ہو گا۔ میں یہ سوچ کر لرز جاتا ہوں اور پھر نئے سال کی مبارکباد دینے کی خواہش دم توڑ جاتی ہے۔سوشل میڈیا پر بھیجے جانے والے بلا تفریق اور اندھا دھند پیغامات کے میں اس لیے بھی خلاف ہوں کہ ان میں ایسے لوگ بھی شامل ہو جاتے ہیں جو ہماری نیک تمنائوں اور دعائوں کے ہر گز مستحق نہیں۔ وہ گوالا جو دودھ میں پانی ملاتا ہے، وہ دکاندار جو ناپ تول میں ڈنڈی مارتا ہے، اشیا میں ملاوٹ کرتا ہے، گراں فروشی میں ملوث ہے، ذخیرہ اندوزی کرتا ہے، وہ ڈاکٹر جو مسیحائی کے بجائے اپنی فیس کو ترجیح دیتا ہے، وہ جو عدل و انصاف کی قیمت وصول کرتا ہے، وہ استاد جو پیغمبرانہ پیشے کا حق ادا نہیں کرتا اور اسے اپنی معاشی ضروریات کی تسکین کا ذریعہ بنا رہا ہے، وہ اہلکار جو معصوم شہریوں پر ظلم اور ظالموں سے سازباز کرے اور ملک میں قانون کے نفاذ کے بجائے لاقانونیت کو فروغ دے، وہ سیاستدان جو خدمت کے بجائے تجارت کو فوقیت دے، وہ غنی جو سخاوت کر کے احسان جتلائے، وہ سخی جو دے کر ریا کاری کرے، وہ عابد جسے اپنی عبادت پر فخر ہو، وہ عالم جو علم کو انسانیت کی فلاح کے بجائے معاشرے میں فساد، انتشار اور بگاڑ کے لیے استعمال کرے۔ کیا یہ سب بھی نئے سال پر مبارک باد کے مستحق ہیں؟
اسد میاں! 2020ء اپنے تمام مصائب اور آلام سمیت اب ہمیشہ کے لیے رخصت ہو کر تاریخ کے قبرستان میں دفن ہو گیا۔ نئے سال کی مبارکباد اُن بیٹوں کے نام جو اپنے بوڑھے، بیمار، محتاج والدین کی خدمت کو سعادت جانتے ہیں۔ اُن بیٹیوں کے نام جو شرم و حیا کا پیکر ہیں، اُن ڈاکٹرز، نرسز اور پیرا میڈیک سٹاف کے نام جو کورونا جیسی خوفناک وبا کے باوجود دکھی انسانیت کی بے لوث خدمت پر مامور ہے اور خوش دلی سے موت بھی قبول کر لیتا ہے مگر اپنے پیشے سے وفا کرتا ہے، اُن اساتذہ کے نام جو قوم کا مستقبل سنوارنے میں اپنی ذمہ داریاں بطریقِ احسن انجام دے رہے ہیں۔ اُن فنکاروں، قلمکاروں، ڈرامہ نگاروں اور علم و ادب کے آسمان پر چمکتے ستاروں کے نام جو انسانی معاشرے میں پیار محبت، سچائی، اخلاص اور حق کا پرچار کرتے ہیں، اُن عظیم والدین کے نام جنہوں نے ان سب قابلِ فخر بیٹوں اور بیٹیوں کی مثالی تربیت کی۔ اُن سب کو میری طرف سے نیا سال مبارک! آپ کا خیر اندیش، پروفیسر (ریٹائرڈ) رحمت علی المعروف بابا جی‘‘۔
آخر میں نئے سال کے موقع پراعتبار ساجد کا یہ شعر پیشِ خدمت ہے ؎
کسی کو سالِ نو کی کیا مبارکباد دی جائے
کلینڈر کے بدلنے سے مقدر کب بدلتا ہے