ریاست ِ مدینہ میں مسجد کا کردار

تاریخ اسلام گواہ ہے کہ اعلانِ نبوت کے بعد تیرہ برس تک نبی کریمﷺ مکہ مکرمہ میں تبلیغِ دین کے مشن پر گامزن رہے، جب کفارِ مکہ اور دشمنانِ اسلام کی ریشہ دوانیاں اور کارستانیاں بامِ عروج پر پہنچ گئیں تو اِذنِ الٰہی سے مکہ مکرمہ چھوڑ کر مدینہ طبیہ ہجرت کرنے کا فیصلہ ہوا۔ آپﷺ اپنے ساتھیوں کے ہمراہ مدینہ منورہ تشریف لائے اور مہاجرین اور انصار کے درمیان باہمی تعاون، ایثار، مساوات، اخوت اور ہمدردی کے فقید المثال اصولوں پر مبنی پہلی اسلامی فلاحی ریاست قائم کی جو آج تک بنی نوعِ انسان کیلئے ایک رول ماڈل کی حیثیت رکھتی ہے اور فلاحی ریاست کے نظریے اور مفہوم کو سمجھنے کیلئے ایک مستند تاریخی حوالہ ہے۔ رسول اللہﷺ کی جانب سے قائم کی گئی یہ عظیم اسلامی فلاحی ریاست دین اور دنیا کے جملہ امور کا احاطہ کرتی ہے اور انسانی ضروریات اور مسائل کے حل اور اُن سے نمٹنے کیلئے مکمل رہنمائی فراہم کرتی ہے۔ سنہری اصولوں پر مبنی یہ ریاست دراصل مدینہ طیبہ میں تعمیر کی گئی پہلی مسجد جسے مسجد نبوی کے نام سے جانا جاتا ہے‘ میں قائم ہوئی اور ریاست کے جملہ انتظامی امور مسجد ِ نبوی ہی میں انجام دیے جاتے تھے۔
مسجد نبوی دراصل مدینہ کی فلاحی ریاست کا بنیادی مرکز تھی اور یہی پہلا پارلیمنٹ ہائوس، مجلسِ شوریٰ، سپریم کورٹ اور پبلک سیکرٹریٹ قرار پائی۔ نبی کریمﷺ دینِ اسلام کی تبلیغ، تعلیم و تربیت اور اپنے پیغامِ حق کی نشر و اشاعت کے ساتھ مسجدِ نبوی ہی میں قانون سازی، مجلس شوریٰ کی مشاورت، عدالتی احکامات اور انتظامی امور سے عہدہ برآ ہوتے تھے ۔یوں مسجدِ نبوی ریاستی امور کی انجام دہی میں کلیدی حیثیت اختیار کر گئی۔ تاریخ کے اوراق شاہد ہیں کہ دورِ رسالت میں مسجد ہی میں عدالتی فیصلے سنائے جاتے، جنگوں اور غزوات کی تیاری اور عسکری تربیت کے مراحل وہاں انجام پاتے، وہیں دوسری قوموں اور قبائل کے عمائدین اور وفود کا استقبال کیا جاتا، مالِ غنیمت کی تقسیم ہوتی، بیت المال سے غربا اور مساکین کی حاجت روائی بھی مسجدِ نبوی میں ہی کی جاتی، جزا اور سزا کے قوانین کا نفاذ بھی مسجدِ نبوی ہی سے کیا جاتا تھا۔ مسجد کا ریاستی امور کی انجام دہی میں کلیدی کردار سنتِ رسولﷺ بھی ہے اور فلاحی ریاست کا بنیادی جزو بھی۔ لہٰذا یہ مسلمہ حقیقت ہے کہ صحیح معنوں میں ایک اسلامی فلاحی ریاست کا قیام مسجد کے کلیدی کردار کے بغیر ممکن نہیں۔
گزشتہ ڈھائی سالوں سے پاکستان کو اسلامی فلاحی ریاست بنانے اور ریاستِ مدینہ کے تصور کو عملی طور پر پاکستانی امورِ سلطنت میں شامل کرنے کی بازگشت سنائی دے رہی ہے مگر پاکستانی انتظامی ڈھانچے اور عدل و انصاف کے نظام میں موجودہ کمزوریاں اور قباحتیں اس خواب کے شرمندۂ تعبیر ہونے میں رکاوٹ ہیں۔ لوٹ کھسوٹ، اقربا پروری، کرپشن، سفارش اور رشوت جیسے ناسور اپنے خونی پنجے گاڑے نظامِ حکمرانی کو عملی طور پر مفلوج کر چکے ہیں۔ غریب، بے نوا اور بے کس طبقہ فاقوں، ڈاکوں اور ناکوں کے ہاتھوں مجبور دو وقت کی روٹی بھی مشکل سے کما پاتا ہے اور آئے روز نئے مسائل سے نبردآزما رہتا ہے۔ دولت اور وسائل کا ارتکاز محض چند خاندانوں اور مخصوص افراد تک ہے جبکہ آبادی کی اکثریت بنیادی ضروریات سے محروم چلی آرہی ہے۔ عدم انصاف، سماجی تفاوت اور معاشی ناہمواریاں ہمارے نظامِ کو ایک فلاحی ریاست کے عظیم تصور کی عملی تصویر بنانے میں حائل ہیں لہٰذا عوام اور حکومت کے درمیان موجود خلیج اور عدم اعتماد کی فضا مزید بڑھتی دکھائی دیتی ہے۔
اگر حکومت سنجیدگی سے چاہتی ہے کہ پاکستان کو ریاستِ مدینہ جیسی عظیم فلاحی ریاست بنانا ہے اور اسلام کے سنہری اصول اپنا کر اقربا پروری، رشوت، سفارش، لوٹ کھسوٹ اور ظلم وستم کے بجائے عدل و انصاف، مساوات، اخوت، بھائی چارے، میرٹ اور فلاح و بہبود کے نظام کو فروغ دینا ہے تو افسر شاہی کو جمہور کے تابع کرنا وقت کی اہم ترین ضرورت ہے۔ اس ضمن میں انتظامیہ اور عوام کی خدمت پر مامور تمام ادارے اور اُن کے سربراہان اپنے آپ کو صحیح معنوں میں عوام کا جوا ب دہ بنائیں، اپنے دفاتر کے دروازے سائلین کے لئے کھلے رکھیں اور ہفتے میں ایک مرتبہ اپنے علاقے کی سب سے بڑی مسجد میں کھلی کچہری کا انعقاد یقینی بنائیں تو عوام کا کھویا ہوا اعتماد حاصل کیا جا سکتا ہے۔ جب آئی جی اور سیکرٹری سے لے کر آر پی او، کمشنر، ڈی سی، ڈی پی او اور تحصیل کی سطح پر ڈی ایس پی اور اسسٹنٹ کمشنر اپنے اپنے علاقوں کی جامع مساجد میں عوام سے خود مخاطب ہوں گے اور انہیں حکومت کی ترجیحات اور مختلف ترقیاتی پروگرامز، فلاح و بہبود کے منصوبوں اور چلائی جانے والی دیگر سکیموں سے روشناس کرائیں گے اور میڈیا، انجمن تاجران، چیمبر آف کامرس اور دیگر عوامی نمائندگان کی موجودگی میں کھلی کچہری کا انعقاد کریں گے ،عوام کی شکایات، مسائل اور مشکلات کو توجہ سے سنیں گے اور اُن کے ازالہ اور حل کے لئے موقع پر فوری احکامات صادر فرمائیں گے تو کیا ریاستِ مدینہ کا خواب عملی حقیقت نہیں بنایا جا سکتا؟ اس مسجد پروگرام سے نہ صرف عوام اور حکومت کے درمیان باہمی اعتماد اور تعاون کے رشتے مضبوط ہوں گے بلکہ عوام کی انتظامی امور اور اُن سے متعلقہ افسران تک آسان رسائی یقینی بنائی جا سکے گی۔ اقربا پروری، رشوت اور سفارش کی لعنت سے چھٹکارا ممکن ہو سکے گا اور حکومت کی خدمات اور سہولتوں کا نچلی سطح پر بہم پہنچانا یقینی بن جائے گا۔
کیا یہ ہمارے لئے لمحہ فکریہ نہیں کہ برطانوی سامراج کے خاتمے کے باوجود آج بھی وطنِ عزیز پاکستان میں وہی طرزِ حکمرانی رائج ہے جو انگریز صاحب بہادر نے ایک غلام قوم پر اپنا قبضہ مضبوط بنانے کے لئے اپنایا تھا۔ اس سے بڑھ کر ستم ظریفی یہ کہ آئے روز ہم علمی مباحثوں اور ٹی وی ٹاک شوز میں برطانیہ، امریکا، یورپ اور سکینڈے نیویا جیسے مہذب معاشروں میں قانون کی حکمرانی اور عدل و انصاف کی مثالیں تو دیتے ہیں مگر خود اس ضمن میں عملی اقدامات کرنے سے گریزاں نظر آتے ہیں۔ ہمارے لئے یہ امر باعثِ ندامت ہے کہ ان معاشروں نے ریاست ِ مدینہ کے سنہری اصول اپنا کر عوامی خدمت کے نئے معیار متعارف کروائے اور اپنے ہاں عدل و انصاف اور معاشی استحکام کو یقینی بنایا اور ہم اُس ریاست کو بھی اسلامی فلاحی ریاست نہیں بنا پائے جو حاصل ہی اسلام کے نام پر کی گئی تھی۔
پاکستان میں سرکاری اداروں کی کارکردگی پر ہمیشہ سے کئی سوالات اٹھتے رہے ہیں اور وہ حقیقی معنوں میں عوام کے مسائل کو حل کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکے۔ افسران اور عوام کے درمیان بد اعتمادی، عدم تعاون اور بڑھتے ہوئے فاصلے یقینا ہر حکومت کی مجموعی کارکردگی کا عکاس رہے ہیں۔ ریاستِ مدینہ کے سنہری اصولوں اور عظیم تصور کوعملی جامہ پہنانے کیلئے ضروری ہے کہ سرکاری افسران اپنے فرسودہ پروٹوکول،جھوٹی انا اور اپنے اردگرد افسر شاہی کے بُنے جال سے باہر نکلیں اور اپنی ذات کے حصار کو توڑ کر صحیح معنوں میں عوام کی خدمت کو اپنا شعار بنائیں ۔قانون کی حکمرانی، عدل و انصاف کی فراہمی اور بے کس اور کمزور طبقے تک حکومتی وسائل اور سہولتوں کی منتقلی ہی دراصل ریاستِ مدینہ کے ماڈل کے بنیادی اصول ہیں جنہیں اپنا کر ہم اپنے ملک میں اسلامی فلاحی ریاست کا نظام ایک جیتی جاگتی حقیقت بنا سکتے ہیں۔ مساجد میں کھلی کچہری اور سوالات و جوابات کی نشستیں عوام کے مسائل حل کر سکتی ہیں، شفاف اور میرٹ پر مبنی نظام کے ذریعے سرکاری ادارے عام آدمی تک معاشی ترقی کے ثمرات پہنچا سکتے ہیں جس سے حکومت اور عوام کے درمیان باہمی اعتماد کی فضا قائم کی جاسکتی ہے۔ سرکاری افسران عملی طور پر عوام کے جواب دہ بن کر ریاستِ مدینہ کے قیام میں اپنا کلیدی کردار ادا کر کے وطنِ عزیز کو ایک اسلامی فلاحی ریاست بنانے میں خود آگے بڑھ کر پہل کریں اور ملکی تاریخ کا دھارا بدل ڈالیں۔نقطۂ آغاز کے لئے علامہ اقبالؒ کا یہ شعر امید کی کرن ہے ؎
کتابِ ملتِ بیضا کی پھر شیرازہ بندی ہے
یہ شاخِ ہاشمی کرنے کو ہے پھر برگ و بر پیدا

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں