یہ یکم جولائی 2020 ء کی ایک خوبصورت صبح تھی ‘ ننھا عیاد گاڑی میں اپنے نانا کے ہمراہ سیر کے لیے جا رہا تھا۔ اس کے نانا بشیر احمد خان سری نگرکے علاقے سوپور کے رہائشی تھے جو اپنے ننھے نواسے کو یقین دلا رکھا تھا کہ وہ آج اسے اس کی من پسند چاکلیٹ دلائیں گے‘ کہ اچانک بھارتی فوج کے چند اہلکاروں نے بشیر احمد خان کی گاڑی کو رکنے کا اشارہ کیا۔ بشیر احمدکو لگا کہ شناختی کارڈ وغیرہ طلب کریں گے اور دیکھ کر جانے دیں ‘ لہٰذا انہوں نے عیاد کو گاڑی میں بیٹھے رہنے کا اشارہ کیا اور خود گاڑی سے باہر نکل آئے۔ اس سے پہلے کہ وہ ان اہلکاروں کو شناختی کارڈ دکھا کر کوئی بات کرتے ایک درندہ صفت بھارتی فوجی نے ان پر فائر کھول دیا۔ وہ تڑپ کر زمین پر گرپڑے اور زخمی آنکھوں سے اپنے قاتل کی سمت دیکھا جو بے رحمی سے ان کے مرنے کا انتظار کر رہا تھا۔ کچھ ہی لمحے بعد بشیر احمد خان اپنے نا کردہ جرم کی سزا پا کر موت کی آغوش میں سما چکے تھے۔ ننھا عیاد جوگاڑی میں اکیلا تھا‘ وہ یہ منظر دیکھ کر سہم گیا۔ اس نے اپنے چھوٹے چھوٹے ہاتھوں سے گاڑی کا دروازہ کھولا اور بے یقینی سے کچھ نہ سمجھتے ہوئے نانا کی لاش کے قریب جا کھڑا ہوا۔ اسے لگا کہ نانا فوجی کی ٹھاہ ٹھاہ سے گر گئے ہیں اورابھی کپڑے جھاڑ کر اٹھ کھڑے ہوں گے۔ ادھر ظالم بھارتی فوجی ننھے بچے کی ذہنی حالت سے لطف اندوز ہونے کے لیے بے حس و حرکت کھڑے یہ تماشا دیکھ رہے تھے۔ ننھا عیاد آگے بڑھا اور ناناکا خون آلود چہرہ‘ جو سڑک سے لگا ہوا تھا اور یہاں سے بہتا ہوا خون ایک لکیر بناتا ہوا اُدھر تک پھیل چکا تھا‘ سیدھا کرنے کی کوشش کرنے لگا ‘ پھر اس کوشش میں ناکامی کے بعد وہ نانا کی پیٹھ پر چڑھ کر بیٹھ گیا۔ اس دوران ایک اہلکار کو تصویر بنانے کی سوجھی ‘ اور یہ تصویر بعد میں سوشل میڈیا پر ٹاپ ٹرینڈ بن گئی۔
عیاد نے تین سال کی عمر میں اپنے نانا کو بھارتی فوجیوں کے ہاتھوں بے دردی سے قتل ہوتے دیکھا ‘بالکل اسی طرح جیسے 2015ء میں برہان مظفر وانی نے اپنے محبوب بھائی خالد حسین (جو ایم ایس کے طالب علم تھے) کو بھارتی درندہ صفت آرمی کے ظلم کا شکار ہو کر اپنی زندگی ہارتے دیکھا تو اس کا دل بھارت کے لیے نفرت کے شعلوں سے بھڑک اٹھا۔ یہ وہی بھائی تھا جس کے ہمراہ ایک سفر کے دوران انہیں چند بھارتی فوجی اہلکاروں کی طرف سے روک کر تضحیک کا نشانہ بنایا گیا۔ یہ وہ دور تھا جب برہان وانی میٹرک کا ایک ہونہار طالب علم تھا جس کی زندگی کا واحد مقصد اعلیٰ تعلیم کا حصول اور شاندار مستقبل تھا‘ لیکن وہ بھی ستمبر 2010ء کی اک شام تھی جب برہان مظفر اور اس کے بھائی کو روک کر پہلے ان سے چائے لا کر دینے کا کہا گیا‘ کچھ دیر بعد سگریٹ کی فرمائش ہوئی اور پھر دونوں بھائیوں کو بے دردی سے تشدد کا نشانہ بنا کر چھوڑ دیا گیا۔ اس واقعے نے برہان کے ذہن پر انمٹ نقوش چھوڑے اور اس نے اپنے علاقے میں موجود ایک مجاہد وسیم شاہ سے تعلقات بڑھا لیے اور پھر آنے والے وقتوں میں حزب المجاہدین کا کمانڈر بن کر ابھرا ‘جو نہ صرف تمام کشمیریوں کے دل کی آواز تھا بلکہ بھارتی فوج کے لیے خوف کی علامت بھی بن چکا تھا۔
دیکھا جائے تو محض 1989ء سے لے کر اب تک ایک لاکھ سے زائد کشمیریوں کو بھارتی درندہ نما فوجیوں کی جانب سے ریاستی دہشت گردی کا نشانہ بنا کر موت کے گھاٹ اتارا جا چکا ہے۔ بھارت کی مثال اس کسان کی سی ہے جس نے نفرت کا بیج بو کر فصلوں کو خون سے سیراب کیا ہو۔ اب اس زمین سے اُگنے والی فصل کا ایک دانہ بھی اس کسان کے پیٹ میں گیا تو اس کی رگوں میں زہر بھر دے گا۔ کشمیر پر ہونے والے مظالم کی داستان ہم سنتے سناتے تھک چکے ہیں لیکن کشمیری عجیب قوم ہیں جو جرأت و ہمت کی ایسی مٹی سے گندھے ہیں کہ وہ اپنے اصولی مؤقف اور عظیم جد و جہد سے پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں۔ بھارت نے درندگی اور سفاکی کا ہر حربہ آزما لیا‘ نوجوانوں اور بچیوں کے اغوا سے لے کر نوجوان لڑکوں سے جیلیں بھرنے تک اور پیلٹ گن سے کشمیریوں کی آنکھوں کا نور بجھانے سے لے کر‘ کرفیو لگا کر معصوم کشمیریوں پر زندگی کا دائرہ تنگ کرنے تک وہ بربریت کی ہر حد پار کر چکا ہے لیکن نتیجہ اس کے سوا کچھ نہیں نکل سکا کہ 1989ء کی جدوجہد میں جو تھوڑا سا خوف باقی تھا‘ آرمی کو سامنے پا کر والدین بچوں کو سمجھا بجھا کر الجھنے سے روک دیتے لیکن 8جولائی2016ء کو برہان مظفروانی کی شہادت کے بعد سے وادی میں شروع ہونے والے احتجاج نے ایک عجیب رنگ اختیار کر لیا ہے۔ اب کشمیریوں کے دل سے موت اور آنکھوں سے دشمن کا خوف ختم ہو چکا ہے۔ کشمیر کا چہرہ خون سے دھو کر مودی سرکار یہ بھولے بیٹھی ہے کہ ظلم پھر ظلم ہے بڑھتا ہے تو مٹ جاتا ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ ظلم و ستم سے کسی قوم کی نسل کشی کی جا سکتی ہے مگر نظریہ کا خاتمہ ممکن نہیں۔ بشیر احمد خان سمیت زندگی سے محروم کیے جانے والے لاکھوں کشمیریوں کی نسلیں جب جوانی اور شعور کی حدود میں داخل ہوں گی تو ان کی نفسیات موجودہ کشمیری نسل سے کئی ہزار گنا زیادہ شدت سے آزادی کی طلب سے لبریز ہو گی اور یہ ایک بپھرے ہوئے دریا کی طرح بھارت کے باوردی بھیڑیوں کو اپنی موجوں کے ساتھ بہا لے جائے گی ۔عنقریب بھارت اپنی سفاکانہ پالیسیوں کی بدولت کشمیر سمیت دو درجن سے زائد چلنے والی علیحدگی پسند تحریکوں کے ذریعے ٹکڑے ٹکڑے ہو کر رہ جائے گا۔
میں کالم لکھتے لکھتے اپنے بوجھل دل کی مضطرب دھڑکنوں کو سنبھالنے کی ناکام کوشش میں مصروف تھا کہ پروفیسر رحمت علی المعروف بابا جی آن پہنچے اور آتے ہی جیدی میاں کو چپ چاپ بیٹھنے کا حکم دیا۔ کچھ دیر میری آنکھوں میں دیکھنے کے بعد کہنے لگے :مجھے پتہ ہے تم یوم ِکشمیر کے حوالے سے کالم لکھ رہے ہو۔ پھر اپنی درد بھری آواز میں نوجوان شاعر حسن افضال صدیقی کی یہ خوبصورت نظم باترنم سنانے لگے جو کشمیریوں کے دلوں کی آواز بھی ہے اور کشمیر کا نوحہ بھی۔ مجھ میں مزید لکھنے کی ہمت نہیں رہی‘ نظم پیشِ خدمت ہے:
ارضِ کشمیر پر ظلم کی انتہا
چار سو شامِ ِغم‘ کُوبہ کُو کربلا
روزِ شب ظلم‘ شام و سحر ظلم ہے
بچوں‘ بوڑھوں‘ خواتین پر ظلم ہے
لفظ محدود ہیں‘ اس قدر ظلم ہے
قاتلوں کے مقابل ہے صبر و رضا
چار سو شامِ غم‘ کُوبہ کُو کربلا
وردی پہنے درندوں کی ہیں ٹولیاں
حسبِ معمول ہیں خون کی ہولیاں
جسم چھلنی‘ برستی ہوئی گولیاں
گود اجڑی‘ ویران ہیں جھولیاں
ابنِ قاسم کو دیتی ہیں بہنیں صدا
چار سو شامِ غم‘ کُوبہ کُو کربلا
بھارتی بربریت ستائے ہوئے
غاصبانہ تسلط جمائے ہوئے
پوری وادی کو مقتل بنائے ہوئے
نوجوانوں کی لاشیں گرائے ہوئے
چشم پوشی ہے اک مجرمانہ خطا
چار سو شامِ غم‘ کُوبہ کُو کربلا
مائیں جنتی ہیں بیٹے کفن کیلئے
وار دی نسل ساری وطن کیلئے
خون حاضر بہارِ چمن کیلئے
گردنیں سر ہیں دار و رسن کیلئے
ظالموں تم پہ ٹوٹے گا قہرِ خدا
چار سو شامِ غم‘ کُوبہ کُو کربلا
مولا کشمیر بھارت سے آزاد کر
یہ بہشتِ زمیں پھر سے آباد کر
اپنے مظلوم بندوں کی امداد کر
ٹوٹے زنجیرِ صیاّد برباد کر
چشمِ پُر نم ہے افضال کی ہے دعا
چار سو شامِ غم‘ کُوبہ کُو کربلا