دوسری جنگِ عظیم کے خاتمے پر مغربی استعماری قوتوں کی کمر ٹوٹ چکی تھی اور غلامی کی زنجیریں توڑ کر کئی ریاستیں آزاد ممالک بن چکی تھیں۔ نوزائیدہ مملکتوں میں شروع سے ہی فیصلہ کن حیثیت کے حامل کلیدی عہدے مرد حضرات کے پاس نظر آئے اور محض چند ممالک میں خواتین نمایاں نظر آئیں۔ عالمی سیاست میں ستر اور اسّی کی دہائی میں بالآخر وہ اپنا وجود منوا کر صدر اور وزیراعظم کے عہدوں تک پہنچ گئیں۔ بیسویں صدی کے آخری پانچ عشروں میں عالمی سیاسی افق پر صنفِ نازک کے جو چند نام نمایاں طور پر شہرت کی بلندیوں پر پہنچے ان میں انڈیا کی اندراگاندھی، اسرائیل کی گولڈامیئر، ارجنٹائن کی عزابیل مارٹینز، برطانیہ کی مارگریٹ تھیچر، فلپائن کی کروزن اکینو، پاکستان کی بے نظیر بھٹو، آئر لینڈ کی میری رابنسن، بنگلہ دیش کی حسینہ واجد اور خالدہ ضیا، کینیڈا کی کم کیمبل اور سری لنکا کی چندریکا بندرا نائیکے قابلِ ذکر ہیں۔ ان آہنی اعصاب کی مالک خواتین نے سیاسی جدوجہد کے نئے باب رقم کئے اور اپنے اپنے ملک میں سیاست اور عوامی خدمت کے نئے معیارات قائم کر کے ثابت کیا کہ خواتین بھی سیاسی امور کو بخوبی انجام دے سکتی ہیں۔ یہ سفر اکیسویں صدی میں زیادہ تیزی سے شروع ہوا اور عالمی سیاست میں خواتین رہنمائوں کی ایک کثیر تعداد کلیدی عہدوں تک پہنچنے میں کامیاب ہوئی۔ سیاست کے ایوانوں میں ان کی آواز نمایاں طور پر سنائی دی جانے لگی اور کئی ممالک کی پارلیمنٹ، کابینہ اور دیگر اہم عہدوں پر وہ اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوا تی نظر آتی ہیں۔ بہت سی سروے رپورٹس کے مطابق حالیہ کورونا بحران سے وہ ممالک زیادہ موثر انداز میں نمٹنے میں کامیاب ہوئے ہیں جہاں سربراہانِ مملکت خواتین تھیں۔ ان میں دو قد آور شخصیات‘ جنہوں نے کورونا سمیت دیگر کئی بحرانوں میں مردوں کی نسبت زیادہ حوصلے اور ہمت کا مظاہرہ کیا‘ جرمن چانسلر اینجلا مارکل اور نیوزی لینڈ کی وزیراعظم جیسنڈرا آرڈرن ہیں۔ نہ صرف ان کو اپنے عوام میں بے پناہ پذیرائی ملی بلکہ پوری دنیا میں ان کا نام عزت و احترام سے لیا جاتا ہے۔
اقوامِ متحدہ کی ترجیحات میں خواتین کی تمام شعبہ ہائے زندگی میں مردوں کے برابر نمائندگی کا حصول بنیادی نکتہ بن چکا ہے اور ''سسٹین ایبل ڈویلپمنٹ گولز‘‘ میں خواتین کے مساوی حقوق کلیدی اہمیت کے حامل ہیں۔ کئی مغربی ممالک یہ ٹارگٹ حاصل کرنے میں کامیاب ہو چکے ہیں، مثال کے طور پر سپین نے 2004ء میں اپنی وفاقی کابینہ میں مرد و خواتین کی تعداد برابر رکھی تھی اور اب وہاں خواتین وزرا کی تعداد دو تہائی ہے۔ اسی طرح فن لینڈ کے 2019ء کے انتخابات میں دنیا کی کم ترین عمر کی وزیر اعظم بننے کا اعزاز سنا مارن نے اپنے نام کیا اور محض چونتیس برس کی عمر میں وہ ملک کی وزیراعظم بننے میں کامیاب ہو گئیں۔ انہوں نے اپنی انیس رکنی کابینہ میں بارہ خواتین کو وزیر بنایا۔ ان کی کابینہ میں بھی خواتین کی دو تہائی اکثریت موجود ہے۔ اسی طرح حالیہ امریکی صدارتی انتخابات میں کملا ہیرس امریکی تاریخ میں پہلی خاتون نائب صدر منتخب ہونے میں کامیاب ہوئی ہیں۔ اقوامِ متحدہ کے مطابق‘ اس وقت اکیس ممالک میں خواتین صدر یا وزیراعظم کے عہدوں پر فائز ہیں اور دنیا بھر میں وزرا میں خواتین کا تناسب 21 فیصد ہے۔ اسی طرح عالمی سطح پر پارلیمنٹ میں خواتین کی نمائندگی پچیس فیصد تک پہنچ گئی ہے جبکہ 1995ء میں یہ تعداد محض 11فیصد تھی۔
خوش آئند امر یہ ہے کہ پاکستان میں بھی سیاست کے ساتھ ساتھ دیگر شعبہ ہائے زندگی میں خواتین پوری شد و مد سے اپنا مقام حاصل کرنے میں دن رات ایک کئے ہوئے ہیں۔ تعلیم کا میدان ہو یا صحافت کا شعبہ، سول سروسز ہوں یا مسلح افواج، طب و جراحت ہو یا تجارت، کاروباری معاملات سے لے کر ٹریول اور ٹورازم تک‘ ہر شعبۂ زندگی میں خواتین آگے بڑھ کر اپنا کردار ادا کر رہی ہیں ۔ ہمارے ہاں گزشتہ دو دہائیوں سے لڑکیوں کی تعلیم نمایاں ترجیح نظر آتی ہے اور یہی وجہ ہے کہ پاکستان بھر کے تعلیمی اداروں میں بورڈ کے تحت ہونے والے میٹرک، ایف اے /ایف ایس سی اور بی اے/بی ایس سی کے امتحانات میں نمایاں پوزیشنز لڑکیاں حاصل کر جاتی ہیں۔ یہی حال یونیورسٹیز کے مختلف شعبہ جات میں داخلوں کا ہے۔ کئی ایک مضامین‘ جن میں سائیکالوجی، سوشیالوجی، انگریزی ادب، میڈیا اور جرنلزم نمایاں ہیں‘ لڑکیاں نوے فیصد تک نشستیں حاصل کرنے میں کامیاب ہو جاتی ہیں۔ یہی تناسب میڈیکل کالجز میں بھی نظر آتا ہے جہاں محض دس سے پندرہ سیٹیں ہی میرٹ پر لڑکوں کے حصے میں آتی ہیں۔ سول بیوروکریسی میں بھی خواتین اوپن میرٹ کے ساتھ ساتھ مخصوص کوٹہ نشستوں سے بھرپور فائدہ اٹھا رہی ہیں اور ہر سال کثیر تعداد میں سی ایس ایس کا امتحان پاس کرکے سول سروسز آف پاکستان میں شمولیت حاصل کر رہی ہیں۔ بالخصوص پنجاب میں اب ہمیں ضلعی انتظامیہ میں خواتین کی نمایاں تعداد نظر آنے لگی ہے، کئی اضلاع میں خواتین ڈپٹی کمشنر تعینات ہیں جبکہ ایک ڈویژن کی کمشنر بھی خاتون ہیں۔ اسی طرح پولیس میں بھی چند اضلاع میں خواتین ڈسٹرکٹ پولیس آفیسرز تعینات ہیں، کئی تحصیلوں میں نوجوان لڑکیاں سی ایس ایس کا امتحان پاس کر کے اسسٹنٹ کمشنر کے عہدے پر فائز ہیں۔ لاہور میں تمام سرکاری محکموں بالخصوص لینڈ ریونیو اور ایف بی آر میں خواتین کی تعداد مردوں کی نسبت کہیں زیادہ ہے۔
دو سال پہلے بلوچستان جیسے پسماندہ صوبے سے تعلق رکھنے والی پری گل ترین سی ایس ایس کا امتحان پاس کر کے بطور اے ایس پی پولیس سروس جوائن کر چکی ہیں۔ آئندہ سالوں میں بھی سول بیوروکریسی میں خواتین کی تعداد بڑھتی دکھائی دے رہی ہے جو ایک حوصلہ افزاپہلو ہے۔ پاکستان کی مسلح افواج میں بھی حال ہی میں ملکی تاریخ میں پہلی مرتبہ ایک خاتون تھری سٹار جنرل کے عہدے تک پہنچنے میں کامیاب ہوئی ہیں۔ نگار جوہر خان لیفٹیننٹ جنرل کے منصب تک پہنچی ہیں۔ انہوں نے 1985ء میں پاکستان میڈیکل کور جوائن کی اور لگ بھگ پینتیس سال پر محیط اپنے کیریئر میں بے پناہ خدمات سرانجام دیں ‘ترقی کی منازل طے کرتے کرتے اب وہ تھری سٹار جنرل بن چکی ہیں۔ اسی طرح پاکستان کے سیاسی ایوانوں میں خواتین کی آوازیں نمایاں ہونے لگی ہیں اور مختلف بڑی سیاسی پارٹیوں میں خواتین کا کردار نمایاں ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔
حال ہی میں وطنِ عزیز پاکستان کے لئے دنیا بھر میں نیک نامی کمانے والی دو قابلِ فخر بیٹیوں کا ذکر کرنا بھی ضروری ہے۔ پہلی ہونہار بیٹی زارا نعیم ڈار ہے جو عالمی شہرت یافتہ کرکٹ امپائر علیم ڈار کی بھتیجی ہیں۔ زارا نے ACCA کے امتحان میں دنیا بھر میں پہلی پوزیشن حاصل کر کے نہ صرف عالمی ریکارڈ اپنے نام کیا بلکہ پاکستان کا نام بھی روشن کیا۔ وہ فنانشل رپورٹنگ کے مضمون میں دنیا بھر میں اول پوزیشن آنے پر گوگل پرائز بھی جیت چکی ہیں۔ دوسری قابلِ تحسین بیٹی چترال سے تعلق رکھنے والی ڈاکٹر زبیدہ سیرنگ ہیں جو امراضِ چشم کی سپیشلسٹ ہیں۔ حال ہی میں انہوں نے اس موضوع پر ''آپٹکس میڈایزی‘‘ نامی ایک شاندار کتاب مرتب کی ہے جس نے دنیا بھر میں تہلکہ مچا دیا ہے اور اسے اس موضوع پر لکھی جانے والی اب تک کی بہترین کتب کی فہرست میں شامل کر لیا گیا ہے۔ یقینا جہاں یہ کتاب ڈاکٹر زبیدہ کیلئے نیک نامی کا باعث ہے وہاں عالمی برادری میں پاکستان کی عزت و توقیر میں اضافے کا سبب بھی بنی ہے۔
شعبہ تعلیم میں ہمارے لڑکوں کے مقابلے میں لڑکیوں کی بڑھتی ہوئی کامیابیاں اس امر کی گواہ ہیں کہ ہماری لڑکیاں زیادہ محنت، لگن، یکسوئی، توجہ اور انہماک کا مظاہرہ کرتی ہیں اور انہیں اپنے مستقبل کی کہیں زیادہ فکر ہے، اسی لیے وہ پوری دیانتداری سے اپنے وقت اور صلاحیتوں کا بہترین استعمال کر کے امتحانات میں ٹاپ پوزیشنز حاصل کرنے میں کامیاب ہو رہی ہیں۔ خوشی اس بات کی ہے کہ وطنِ عزیز کے گلشن کے گلوں میں رنگ بھرا جانے لگا ہے اور بادِ نو بہار چل پڑی ہے جو یقینا ایک تابناک مستقبل کا پیش خیمہ ہے اور ایک مستحکم پاکستان کی ضمانت بھی۔