ایک روز ہیڈ ماسٹر صاحب نے اسمبلی میں اپنے خطاب کے دوران سکول کے سالانہ معائنہ کا بتایا اور ڈسٹرکٹ ایجوکیشن آفیسر (ڈی ای او) صاحب کی آمد کا ذکر کیا اور زور دیا کہ اُن کے دورہ کو کامیاب بنانے کے لیے جملہ سٹاف‘ اساتذہ کرام اور طلبا مل کر دن رات کام کریں اور پندرہ دنوں میں بہترین تیاری کر کے اس کڑی آزمائش میں سرخرو ہو کر ادارے کا نام روشن کریں۔ اسمبلی کے فوراً بعد پہلے پیریڈ میں ہی کام شروع ہو گیا اور ہمارے استادِ محترم نے مجھ سمیت زمیندار گھرانوں کے طلبا کے ذمے دیسی انڈے اور دیسی مرغ اکٹھے کرنے کا کام سونپ دیا۔ بکرے کا گوشت دوسری کلاس کی ذمہ داریوں میں شامل تھا تو فرنی اور کھیر کی ایک اور جماعت کی ذمہ داری لگا دی گئی۔ یوں آنے والے مہمانِ ذی وقار کے لیے ایک پُر تکلف ضیافت کا اہتمام کیا جانے لگا۔ ہمارے اساتذہ اس پر متفق تھے کہ جتنا اچھا اور لذیذ کھانا ہوگا اتنا ہی شاندار تاثر پڑے گا اور ڈی ای او صاحب ادارے کے بارے میں بہترین ریمارکس لکھیں گے۔ لہٰذا ہر روز تکلفات کا سلسلہ مزید پھیلتا رہا اور کھانے کے آخر میں کیلے‘ سیب‘ مالٹے شامل کر لیے گئے اور دودھ پتی کا انتظام بھی ہو گیا۔ اس کے ساتھ ساتھ درختوں کی کانٹ چھانٹ‘ گھاس کی کٹائی‘ صفائی ستھرائی اور درختوں کے تنوں کو سفیدی اور لال رنگ سے رنگنے کا عمل بھی تیزی سے شروع ہو گیا۔ سکول کا سارا ریکارڈ جس میں لاگ بک‘ رجسٹر حاضری معلمین‘ رجسٹر داخل خارج‘ سکول فنڈ کے رجسٹرز نیز ہر کلاس کا رجسٹر حاضری شامل تھے‘ سب کے اوپر تازہ کور چڑھا کر ان پر کٹے ہوئے مارکر سے جلی حروف میں رجسٹر کا نام لکھا گیا۔
اگلے ہی روز معائنہ کو عملی لحاظ سے کامیاب بنانے کے لیے خصوصی ہدایات دی گئیں اور ہیڈ ماسٹر صاحب نے ہر کلاس کے مانیٹر اور کلاس انچارج کو اپنے کمرے میں بلا کر ایک مربوط حکمتِ عملی سے آگاہ کیا اور زور دیا کہ معزز مہمان کی کلاس میں آمد پر جب سولات پوچھے جائیں تو کلاس کا ہر طالب علم ہاتھ کھڑا کر کے لہرائے‘ بالخصوص پہلی قطار میں بیٹھے ہوئے طلبا یہ عمل زیادہ تندہی سے انجام دیں۔ انہوں نے مزید فرمایا کہ کلاس کے دو تین ذہین اور لائق طلبا ہاتھ کھڑا نہیں کریں گے بلکہ سوال نہ آنے کا ڈرامہ رچائیں تا کہ ڈی ای او صاحب کی توجہ اس غیر معمولی حرکت کی طرف مبذول ہو جائے اور وہ انہیں نالائق طلبا سمجھ کر سوال انہی سے پوچھ لیں اور وہ انہیں جواب دینے میں کامیاب ہو جائیں تو ادارے کے بارے میں تاثر یہ جائے گا کہ اگر نالائق طلبا کا یہ حال ہے تو باقی جو ہاتھ لہرا لہرا کر اپنی قابلیت کا اعلان کر رہے ہیں اُن کی ذہانت اور اعتماد کا معیار کیا ہوگا۔ یقینا یہ ایک شاطرانہ چال تھی اور تجربے کی بھٹی میں پکی ہوئی سقہ بند حکمتِ عملی ورنہ ہر کلاس کے چند ایک قابل طلباکے علاوہ عملی استعداد اور ذہانت میں باقی سب کورے ہی تھے اور ہاتھ کھڑا کرنے اور اسے فضا میں لہرانے کے علاوہ وہ کوئی بھی کام کرنے کے قابل نہ تھے۔ اگلے پندرہ دنوں میں سالانہ معائنہ کے انعقاد کو کامیاب بنانے کے لیے بہت کام ہوا حتیٰ کہ سکول کے مین گیٹ پر کیلے کے درخت کاٹ کر نصب کئے گئے اور مہمان ذی وقار کی عین آمد پر کبوتر ہوا میں چھوڑنے کا بندوبست بھی کر لیا گیا۔ آئے روز ڈی ای او صاحب کے من پسند کھانوں کا پتہ لگایا جاتا رہا اور پھر وہ دن بھی آ گیا جس کا ہمیں شدت سے انتظار تھا۔ سکول کے معائنے کو کامیاب بنانے میں ہمارے جملہ اساتذہ اور ہیڈ ماسٹر صاحب کی عاجزی‘ تابعداری اور مرغن کھانوں پر مبنی ضیافت نے اہم کردار ادا کیا اور ڈی ای او صاحب نہایت خوش و خرم واپس لوٹے۔یوں زمانۂ طالب علمی کے پہلے مہمانِ خصوصی‘ اس کی شان و شوکت‘ وجاہت‘ تمکنت اور پروٹوکول کو دیکھ کر میرے دل میں بھی اس خواہش نے ڈیرے ڈال لیے کہ وہ دن کب آئے گا کہ میری آمد اور استقبال کی تیاری بھی اسی شد و مد سے ہو اور اس سے بڑھ کر مرغن کھانوں پر مبنی ضیافت کا اہتمام بھی ہو تو وارے نیارے ہو جائیں۔
پھر گورنمنٹ کالج لاہور کا زمانہ طالب علمی آیا تو یہاں آئے روز کسی نہ کسی مہمان ِ خصوصی کی آمد ہوتی جن میں صوبائی اور وفاقی وزرا‘ گورنر پنجاب‘ قومی کھلاڑی‘ شعرا اور ادیب‘ ڈرامہ نگار اور ٹیلی ویژن کے اداکار شامل تھے۔ یوں اُن کے استقبال اور پروٹوکول میں گل پاشی‘ پھولوں کے ہار‘ استقبالیہ بینرز اور تعریفی الفاظ کا چنائو دیکھ کر دل میں خواہش رقص کرنے لگتی اور ہم حسرت سے اُن قابلِ قدر ہستیوں کو تکتے رہتے۔ سر فضل حسین ریڈنگ روم اور بخاری آڈیٹوریم میں طرح طرح کی رنگا رنگ تقریبات منعقد ہوتیں تو ان میں شریک مہمانانِ گرامی کی اکثریت اُن شخصیات کی ہوتی جو عام طور پر ٹی وی پر نظر آتے تھے تو دل میں کچھ بڑا کرنے اور نمایاں مقام پر پہنچنے کی آرزو مزید مضبوط ہو جاتی۔ کالج کی ایک سو پچیس سالہ تقریبات بڑی شاندار تیاریوں کے ساتھ منعقد کی گئیں تو ان دنوں مہمانوں کا میلہ سجا رہا۔ ہر لمحے نئی شخصیات‘ نیا چہرہ اور نیا مہمانِ خصوصی تو یوں لگتا کہ دنیا صرف خاص لوگوں کے پروٹوکول کے لئے تخلیق کی گئی ہے اور عوام تو محض تالیاں بجانے اور واہ واہ کرنے کے لیے پیدا کئے گئے ہیں۔ مگر جوں جوں ماہ و سال کا سلسلہ آگے بڑھا‘ ہم ذہنی طور پر پختہ ہونے لگے اور زندگی کے اسرار و رموز سے آشنا ہوئے تو معلوم ہوا کہ مہمانِ خصوصی بننا اتنا آسان کام نہیں بلکہ اس مقام کو حاصل کرنا جوئے شیر لانے کا مترادف تھا اور شبانہ روز کاوشوں کا ثمر بھی۔
گزشتہ دو دہائیوں سے درجنوں تقریبات میں بطور مہمانِ خصوصی شرکت کا موقع ملا اور سرکاری‘ غیر سرکاری پروٹوکول سے استفادہ بھی ہوا تو پتہ چلا کہ مہمانِ خصوصی اور دلہا میں کئی قدریں مشترک ہیں۔ دونوں تقریب میں شریک ہر فرد کی توجہ کا مرکز ہوتے ہیں‘ کیمرہ لائٹس میں مرکزی حیثیت کے حامل‘ ان پر پھولوں کی پتیاں نچھاور ہوتی ہیں۔ گلے میں پھولوں کے ہار ڈالے جاتے ہیں‘ استقبالیہ شاندار ہوتا ہے‘ کئی لوگ ہاتھ ملانا سعادت سمجھتے ہیں‘ تصاویر اور سیلفیاں مزید اہمیت کو اجاگر کرنے میں مدد دیتی ہیں۔ دونوں کو سٹیج پر مرکزی نشست پر بٹھایا جاتا ہے ‘دونوں ہی نہایت شرمیلے نظر آتے ہیں‘ زیادہ توجہ اور عزت ملنے پر کچھ کچھ حیران بھی اور پریشان بھی۔ دونوں اپنی حرکات و سکنات نپی تلی اور سوچ سمجھ کر کرتے ہیں تو کئی معاملات میں مجبورِ محض کی تصویر نظر آتے ہیں۔ سر پر کھجلی بھی کرنی پڑے تو کئی مرتبہ سوچتے ہیں کہ سامنے بیٹھے لوگ کیا کہیں گے ۔ ناک پر مکھی بیٹھ جائے تو اسے اٹھانے کا تکلف بھی مشکل سے کرتے ہیں۔
مگر مہمانِ خصوصی بننے کے سب سے بڑے نقصانات یہ ہیں کہ ایک تو اپنی آخری تقریر سے پہلے اُسے سب مقررین کی لمبی لمبی تقریریں سننا پڑتی ہیں‘ جاگتے رہنا پڑتا ہے بلکہ کئی مقررین کیونکہ مہمانِ خصوصی کی خاص توجہ کے لیے بار بار ان کو مخاطب کرتے رہتے ہیں تو سٹیج پر سونے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا جبکہ سامعین کی اکثریت بالخصوص عقبی نشستوں پر براجمان لوگ اس نعمت ِخداوندی سے سرفراز ہو کر خوابِ خرگوش میں مدہوش خراٹے بھر رہے ہوتے ہیں۔ کئی دفعہ بے ہودہ تقریر بھی ہو رہی ہو تو اسے بھی داد دینا پڑتی ہے کیونکہ مقرر آپ کا نام بڑے ادب سے لے لے کر آپ کو مخاطب کرتا ہے اور یہ بھی باور کرواتا ہے کہ اس نے آپ کی آخری تقریر بھی سننی ہے لہٰذا حفظِ ما تقدم کے طور پر دادِ تحسین نہ چاہتے ہوئے بھی دینا پڑتی ہے۔ اس سے بھی بڑا نقصان یہ ہوتا ہے کہ صدارتی خطبے سے پہلے اس موضوع پر بہت کچھ بول دیا جاتاہے اور مہمانِ خصوصی کے کہنے کے لیے کچھ بچتا ہی نہیں اور کام کی ساری باتیں پہلے ہی کر دی جاتی ہیں اور سب سے بڑھ کر یہ کہ چونکہ پُر تکلف کھانے اور صدارتی خطبے کے درمیان زیادہ رکاوٹ نہیں ڈالی جاسکتی اور برتنوں کی آوازیں سامعین کی توجہ اپنی طرف مبذول کرلیتی ہیں‘ لہٰذا مہمانِ خصوصی کی بے مزہ گفتگو میں دلچسپی کم ہی رہ جاتی ہے۔ بلکہ بسا اوقات کھانا لگتے ہی آخری نشستوں پر بیٹھے سامعین اٹھ کر سلاد پر ہاتھ صاف کرنا شروع کر لیتے ہیں تو مجبوراً مہمانِ خصوصی کو اپنا عالمانہ خطبہ ختم کرنا پڑتا ہے کہ کہیں ایسا نہ ہو کھانا ختم ہو جائے اور وہ بھوکا گھر واپس جائے۔
اپنے محسن و مربی پروفیسر رحمت علی المعروف بابا جی ''مہمانِ خصوصی‘‘ کے تصور اور تعریف دونوں سے سخت اختلاف رکھتے ہیں۔ وہ فرماتے ہیں ''یہ دنیا وی جاہ وحشم‘ مقام و مرتبہ‘ سیاسی و سماجی شان و شوکت کسی کو خاص بنانے کے لیے کافی نہیں بلکہ یہ دنیاداری‘ ریاکاری اور فریبِ نظر سے زیادہ کچھ نہیں۔ خاص تو وہی ہے جس نے تقویٰ اختیار کیا‘ پرہیز گاری میں ربِ کائنات کے حضور جھک گیا اور خوشنودی ٔالٰہی کے حصول کو اپنا مقصدِ حیات بنا لیا۔ وہ اس جہاں میں خاص ہے اور اگلے جہاں میں کامیاب۔یہ خاص و عام کی تقسیم وسائل کے ارتکاز اور بندربانٹ کی پیداوار ہے اور محض دھوکا ہے‘‘۔ علامہ اقبال نے بھی تو کہا ہے:؎
نگاہِ فقر میں شانِ سکندری کیا ہے
خراج کی جوگدا ہو‘ وہ قیصری کیا ہے
فلک نے ان کو عطا کی ہے خواجگی کہ جنہیں
خبر نہیں روشِ بندہ پروری کیا ہے