میرے روحانی پیشوا،محسن ومربی اور علمی و فکری استدلال میں استادِ محترم پروفیسر رحمت علی المعروف ''بابا جی‘‘ ہر سال آمدِ رمضان سے قبل اپنے آستانہ عالیہ پر ایک خوبصورت اور روح پرور محفل کا انعقاد کرتے ہیں جس میں اس عظیم ماہِ مبارک کی رحمتوں، برکتوں اور فضائل پر روشنی ڈالی جاتی ہے اور بابا جی کا دل پذیر بیان قلب و روح میں اتر کر علم و نور کے چراغ روشن کر دیتا ہے اور یوں محفل میں شریک ہر شخص اس مبارک مہینے کے فیوض و برکات سے بہرہ ور ہو کر واپس لوٹتا ہے۔ آخر میں سوال و جواب کی نشست ہوتی ہے اور بابا جی سوالات کا پوری دلجمعی، تحمل اور تدبر سے جواب دیتے ہیں۔ اس دوران میں نے کبھی بھی اُن کے ماتھے پر بل نہیں دیکھا اور نہ ہی وہ سوال پوچھنے والے کے بارے میں بدگمانی رکھتے ہیں بلکہ وہ خوش دلی سے عقل و دانش کا فیضِ عام بانٹتے ہیں اور یوں اس محفل میں استقبالِ رمضان کے جملہ امور کا احاطہ کیا جاتا ہے۔گزشتہ برسوں کے برعکس اس بار اس بابرکت محفل میں توقع سے زیادہ لوگ شریک ہوئے اور بابا جی نے پُر تکلف عشائیے کا بھی اہتمام کر رکھا تھا جوشاید روزہ افطار کرانے کی ڈرل ریہرسل تھی۔ یہ فکری نشست عصر کی نماز سے شروع ہو کر عشاء کی نماز تک جاری رہی، بعد میں ہمیشہ کی طرح راقم الحروف اور بابا جی کا برطانیہ پلٹ ہونہار شاگردِ خاص جیدی میاں اُن کے علم کدہ میں مزید دو گھنٹے حکمت کے گوہرِ نایاب اپنی جھولیوں میں بھرتے رہے۔
ہمیشہ کی طرح بابا جی کی علمی گفتگو نے اپنا جادو جگایا، انہوں نے سامعین کو رمضان کریم کی ممتاز اور یگانہ حیثیت سے روشناس کرایا۔ انہوں نے کہا: رمضان المبارک قمری مہینوں میں نواں مہینہ ہے اور اللہ تعالیٰ نے اس ماہ ِ مبارک کی اپنی طرف خاص نسبت فرمائی ہے۔ حدیث شریف میں آتا ہے کہ ''رمضان اللہ تعالیٰ کا مہینہ ہے‘‘ یہ اس امر کا بیّن ثبوت ہے کہ اس مبار ک مہینے کو رب ِذوالجلال سے خاص نسبت ہے اور یہی فوقیت اسے دوسرے مہینوں سے ممتاز بناتی ہے۔ اس خصوصی تعلق سے مراد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے تجلیاتِ خاص اور انوار و اکرام اس مبارک مہینے میں اس قدر تواتر سے نازل ہوتے ہیں کہ رحمتِ الٰہی گویا موسلادھار بارش کی طرح برستی رہتی ہے۔ حدیثِ مبارک میں ہے کہ رمضان ایسا مہینہ ہے کہ اس کے اوّل حصے میں اللہ تعالیٰ کی رحمت برستی ہے (جس کے سبب انوار و اسرار کے اظہار کے سب امکان آشکار ہوتے ہیں اور یوں انسان کو اپنے گناہوں کے خبائث ا ور معصیت کی کثافتوں سے چھٹکارہ حاصل کرنا آسان ہو جاتا ہے)۔ اس مہینے کا دوسرا عشرہ گناہوں سے مغفرت اور آخری دوزخ کے عذاب سے آزادی کا ہے۔ بابا جی نے مزید فرمایا کہ ارشادِ ربانی ہے کہ روزہ میرے لیے ہے اور میں خود ہی اس کا اجردوں گا۔ چونکہ روزے کی غرض اور فلسفہ بھی نفسانی خواہشات کے گھوڑے کو لگام دینا، حرام سے بچائو، جذبات کے طوفان کو تھامنا، قلب و روح کی طہارت کو یقینی بنانا، مساکین اور فقرا کی حاجت روائی کرنا اور ان جملہ اوصاف حمیدہ سے خوشنودیِ الٰہی اور تقویٰ کا حصول ہے جسے صاحبِ ایمان اپنی ا ولین ترجیح بنا لیتے ہیں؛ اسی لیے قرآنِ مجید میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے ''اے ایمان والو! تم پر روزے فرض کیے گئے جیسے تم سے پہلے لوگوں پر کئے گئے تھے تا کہ تم متقی بن جائو‘‘۔ (البقرہ) گویا تقویٰ کا حصول ہی روزے کے فیوض و برکات کا مرکزی نکتہ ہے اور سب سے نمایاں ثمر بھی یہی ہے۔
فضائلِ رمضان پر مزید روشنی ڈالتے ہوئے بابا جی نے کہا: ہمیں معلوم ہے کہ اس ماہِ مبارک میں ہی قرآن مجید کا نزول ہوا، روزے فرض ہوئے، شبِ قدر کی نعمت بھی اسی ماہِ مبارک میں رکھی گئی، فتحِ مکہ کا واقعہ اس مہینے میں پیش آیا، جنگِ بدر لڑی گئی، اس ماہ میں فطرانے کے علاوہ زکوٰۃ و صدقات کا بھی خصوصی اہتمام کیا جاتا ہے۔ اس مقدس مہینے کے تین عشروں کو مخصوص اور منفرد اہمیت دی گئی اور اس لحاظ سے رمضان کریم سے منسلک جملہ عبادات کے درجات اور فضائل بلندکر دیے گئے ہیں لہٰذا اس ماہِ مقدس کی آمد امتِ مسلمہ کے علاوہ پوری انسانیت کے لیے خیر وبرکت کا ذریعہ بھی ہے۔ اس مہینے کی رحمتوں اور برکتوں میں مسلم برادری میں صبر ورضا، تقویٰ، انسانی ہمدردی، غمگساری، ایثار و قربانی، راہِ خدا میں استقامت، جذبہ اتحاد، خیر خواہی، اللہ اور اُس کے رسولﷺ سے بے انتہا محبت اور ایمان کی قوت کو دوبالا کرنے کی سالانہ تربیت کا ایک ہمہ گیرنصاب بھی ہے جو اہِل ایمان کو تقویٰ کا راستہ اختیار کرنے کی نہ صرف ترغیب دیتا ہے بلکہ ظاہر وباطن کو پاک کرکے اُمتِ واحدہ میں اتحاد، اتفاق اور یگانگت کے جذبات بھی اجاگر کرتا ہے اور انہیں پوری انسانیت کے لیے جذبہ خیر سگالی کی تعلیم دیتا نظر آتا ہے۔
بابا جی کی اس خصوصی نشست کی روح پرور فضا نے اسے نہ صرف ایمان افروز بلکہ استقبالِ رمضان کیلئے ایک مثال بھی بنا ڈالا۔ سحر انگیز علمی وفکری گفتگو، تند سوالات، علم و استدلال سے مزین جوابات، سادہ مگر پُروقار کھانے کا اہتمام اور سامعین کی یکسوئی اور دلجمعی نے یہ شام یادوں میں امر کر دی۔ عشاء کی نماز کی ادائیگی کے بعد جب تقریباً سب افراد روانہ ہو گئے تو مجھے اورجیدی میاں کو بابا جی کی الگ نشت سے استفادہ کرنے کا موقع مل گیا۔ اس گفتگو میں اس وقت رہی سہی تشنگی بھی جاتی رہی جب استقبالِ رمضان کے ضمن میں بابا جی نے لوگوں کو دو بڑے طبقات میں تقسیم کرتے ہوئے وضاحت کر دی کہ پہلا طبقہ صاحبانِ ایمان پر مشتمل ہے جو اس ماہِ مبارک کا سال بھر بڑی بے چینی سے انتظار کرتا ہے اور اس مقدس مہینے کی اِک اک گھڑی، اِک اک پل کو اپنی جان، مال، عزت، سلامتی، ظاہری وباطنی طہارت کیلئے حتی المقدور استعمال کرتا ہے۔ اللہ اور اس کے آخری رسولﷺ کی خوشنودی کے حصول کو یقینی بنانے کے لیے یہ تقویٰ و پرہیز گاری کی ہر شکل، ہر پہلو پر محنت کرتا ہے، نماز کی بروقت ادائیگی سے لے کر نمازِ تراویح کی پابندی، روزے کے پورے خشوع و خضوع کے ساتھ اہتمام کے ساتھ سحر و افطار کے جملہ آداب کی بجا آوری، صدقہ و خیرات، زکوٰۃ کی ادائیگی، انفاق فی سبیل اللہ کے ذریعے غربا مساکین اور مقروض افراد کی حاجت روائی نیز حقوق اللہ اور حقوق العباد کے جملہ لوازمات اور عبادات کے تمام آداب بھرپور جوش وخروش سے انجام دیتا ہے، سب سے اہم بات یہ کہ ان کے اعمال میں تصنع، بناوٹ اور ریاکاری کی ہلکی سی رمق بھی دیکھنے کو نہیں ملتی... بابا جی ابھی بات کر ہی رہے تھے کہ وہ لمحہ آن پہنچا جس کا مجھے انتظار تھا اور وہ جیدی میاں کے بے ساختہ پن پر مبنی چبھتے ہوئے سوالات تھے جو تلخ زمینی حقائق اور عملی زندگی کے بھیانک پہلوئوں کی تصویر کشی کرتے ہیں۔ موقع پاتے ہی جیدی میاں نے اپنے دل کی خوب بھڑاس نکالی اور استقبالِ رمضان کی آڑ میں ہونے والی مختلف وارداتوں کی نشاندہی شروع کر دی۔ وہ کہنے لگا کہ دنیا کی حرص وہوس، طمع، لالچ، مال وزر کی محبت اور جاہ وحشم کے حصار میں جکڑے ہمارے ہی بھائی رمضان کی آمد سے خوب مال بناتے ہیں، ذخیرہ اندوزی کرتے ہیں، منافع خوری اور گراں فروشی کے ریکارڈ اپنے نام کرتے ہیں۔ اس مقدس مہینے کے آغاز سے چند روز قبل اشیائے خور ونوش کی قیمتیں آسمان سے باتیں کرنے لگتی ہیں اور عام لوگ بنیادی اشیائے ضروریہ خریدنے سے قاصر ہو جاتے ہیں۔ منافع خوری اور ملاوٹ سمیت ناجائز کمائی کے سب حربے آزمائے جاتے ہیں۔ کچھ افراد تصنع، بناوٹ اور ریا کاری کیلئے سماجی شخصیات، سیاسی قائدین، کاروباری عمائدین اور ہم پلہ احباب اور رشتہ داروں کیلئے پُرتکلف افطار پارٹیوں کا اہتمام کرتے ہیں جس میں روحانی بالیدگی کے بجائے دنیاوی رکھ رکھائو کا عنصر نمایاں ہوتا ہے۔ بابا جی یہ سن کر مُسکرائے اور کہنے لگے: جیدی میاں! تم ہمیشہ جلدی کر جاتے ہو، یہ سارے لوگ ہی دراصل اس دوسرے طبقے سے تعلق رکھتے ہیں جنہیں میں احبابِ شیطان کہتا ہوں کیونکہ انہوں نے آخرت کے بدلے دنیا خریدنے کا فیصلہ کیا ہے۔ ان سے کہیں بہتر انسان امریکا، کینیڈا، آسٹریلیا اور یورپ میں وہ سٹور مالکان ہیں جو رمضان المبارک پر اشیائے خور ونوش کی قیمت آدھی کر دیتے ہیں۔ بابا جی یہ کہہ کر اُٹھ کھڑے ہوئے اور علامہ اقبال کا یہ شعر پڑھ کر ہمیں جانے کی اجازت بخشی:
عمل سے زندگی بنتی ہے جنت بھی‘ جہنم بھی
یہ خاکی اپنی فطرت میں نہ نوری ہے نہ ناری ہے