غریب الوطنی کے دکھ

ایوب خان دورِ حکومت میں منگلا ڈیم کی تعمیر کا فیصلہ ہوا اور ضلع میرپور اور جہلم کے سنگم پر اس سلسلے میں زمین کے حصول کا کام شروع ہوا۔ متاثرین کو معاوضے کے طور پر برطانوی حکومت سے کامیاب مذاکرات کر کے برطانیہ بھیجنے پر اتفاق ہو گیا اور یوں ہزاروں کی تعداد میں لوگ بر طانیہ منتقل ہو گئے۔ یہ ساٹھ کی دہائی کے آخری حصے کی بات ہے، پھر میرپور، جہلم، گجرات اور منڈی بہاء الدین کے علاقوں سے جوق در جوق لوگ برطانیہ، فرانس، اٹلی، جرمنی، سپین، بلجیم اور ناروے کا رخ کرنے لگے اور یوں اس بارانی علاقے کے غریب اور پسماندہ لوگوں پر قسمت کی دیوی ایسے مہربان ہوئی کہ چند سالوں میں جہاں بے بسی اور بے کسی کے ڈیرے تھے‘ وہاں خوشحالی، امارت اور آسودگی کے بسیرے ہونے لگے۔ غیر ملکی کرنسی سے یہاں پر بڑے بڑے محلات، دلآویز رہائش گاہیں اور ڈیرے آباد ہوئے، بڑی بڑی گاڑیاں خریدیں گئی اور ایک دوسرے سے سبقت لے جانے کا رواج عام ہوا۔ اسی طرح ذوالفقار علی بھٹو نے بطور وزیراعظم خلیجی ممالک کے ساتھ اپنے گہرے مراسم کو خوب استعمال کیا اور پاکستانیوں کیلئے ان ممالک میں روزگار کے بے پناہ مواقع پیدا کئے اور یوں ہزاروں پاکستانی اُنیس سو ستر کی دہائی میں سعودی عرب، ابوظہبی، دبئی اور شارجہ میں جا کر معاشی طور پر آسودہ حال ہو گئے۔ اسی طرح برطانیہ اور یورپ کے دیگر ممالک میں آباد پاکستانیوں نے خوب دل لگا کر محنت کی اور زندگی کے ہر شعبے میں نمایاں کامیابیاں اپنے نام کرنا شروع کر دیں۔ سب سے پہلے مالی طور پر استحکام حاصل کیا گیا اور پھر وہاں کی عملی سیاست میں قدم جمائے گئے جس کے نتیجے میں آج ہمیں سینکڑوں پاکستانی ان ممالک کی مقامی کونسلز سے وہاں کی پارلیمنٹ تک نظر آتے ہیں۔ کاروباری معاملات میں بھی ان کی کامیابی قابل رشک ہے، اپنی مسلسل محنت اور ذہانت کے بل بوتے پر انہوں نے دیارِ غیر میں بھی اپنا منفرد مقام بنایا، آج ان کی اگلی بلکہ تیسری نسل بھی جوان ہو چکی ہے اور اس نے وہاں تعلیم حاصل کر کے اپنے لئے قابل عزت روزگار کے اَن گنت مواقع پیدا کر لئے ہیں۔ یہ بھی اپنی کمائی میں سے ایک خطیر رقم پاکستان میں اپنے عزیز و اقارب کو سال بھر بھجواتی رہتی ہے، یوں سالانہ تارکینِ وطن پاکستانی بیس ارب ڈالر سے زائد رقم پاکستان بھجواتے ہیں اور اس طرح ہماری معیشت کو مضبوط اور مستحکم بنانے میں اپنا کلیدی کردار ادا کر رہے ہیں۔
یہ سب کچھ مگر سونے کی طشتر ی میں رکھ کر انہیں پیش نہیں کیا گیا۔ اس خوشحالی اور مالی آسودگی کے پیچھے ان غریب الوطن پاکستانیوں نے بے پناہ قربانیاں دی ہیں۔ سب سے بڑی قربانی تو اپنے وطن پاکستان سے دوری کی شکل میں دینا پڑی اور یوں اپنی جڑوں سے کٹ کر کے دیارِ غیر میں اپنے پیاروں سے دور رہنے پر مجبور ہوئے جن کو وہ آنکھوں سے اک لمحے کیلئے اوجھل نہیں کر سکتے تھے مگر رزق کی تلاش اور اپنے خوابوں کی تعبیر میں وہ ایک لمبے سفر کے مسافر ٹھہرے۔ یوں وہ اپنے بیوی‘ بچوں‘ والدین اور دوست احباب کو چھوڑ کر پردیس جا کر ایسے معاشروں میں آباد ہوئے جہاں کی زبان، تہذیب و تمدن اور معاشرت و ثقافت سے وہ بالکل نابلد تھے، پھر بھی اپنی محنت کے بل بوتے پر اپنے لئے اور اپنے خاندان کیلئے سنہرے دنوں کی تلاش میں ایسے مگن ہوئے کہ ایک نئی دنیا آباد کر لی، مالی استحکام بھی حاصل ہوا مگر اپنوں سے دوری کا گھاؤ انہیں مسلسل اندر سے کھاتا رہا۔ اُن کی غیر موجودگی میں بچے جوان ہو گئے، والدین ماہ وسال کے سیلِ رواں میں بہتے بہتے راہِ اجل کے مسافر بنے تو ڈالر اور پاؤنڈ کمانے والا بیٹا نہ اپنے بچوں کے بچپن میں ان کو لاڈ پیار دے سکا اور نہ ہی والدین کے آخری ایام میں ان کے ساتھ وقت گزار سکا۔ بدقسمتی سے اُن کا آخری سفر شروع ہوا تو اس کم نصیب کو جنازے کو کندھا دینے کی سعادت بھی نہ مل سکی۔ یہ سب کچھ اتنا آسان نہیں اور نہ ہی یہ قیمت آسانی سے ادا ہو سکتی ہے، اس کے لیے بڑے حوصلے، بے پناہ ہمت اور فقید المثال جذبۂ قربانی کی ضرورت ہوتی ہے اور یہ ہر کسی کے بس کی بات نہیں۔ غربت اور بھوک کی مجبوری انسان سے کیا کیا کراتی ہے‘ یہ صرف تارکینِ وطن سمجھ سکتے ہیں اور غریب الوطنی کے دکھوں کا اندازہ بھی صرف وہی لگا سکتے ہیں۔
ان جذباتی اور نفسیاتی قربانیوں سے آگے بھی معاملات دکھ بھری داستان پر مبنی ہیں۔ عمر بھر کی کمائی بھیجنے والے اپنوں ہی کے ہاتھوں لٹ گئے جب انہیں پتا چلا کہ وہ رقوم جو پاکستان میں وہ اپنے بھائیوں اور دیگر قریبی غریب رشتہ داروں کو زمین اور جائیداد خریدنے کیلئے بھجواتے رہے‘ وہ یہاں پر مقیم رشتہ داروں نے اپنے نام پر خرید لیے اور جب عمر کے آخری حصے میں وہ وطن واپس لوٹے یا بچوں کی شادی کے سلسلے میں اپنے دیس آئے تو انہیں معلوم ہواکہ ان کا یہاں کچھ بھی نہیں۔ اپنے بھی پرائے ہو چکے اور ساری زندگی کی کمائی بھی لٹ چکی۔ پھر بات جان سے مارنے کی دھمکیوں تک جا پہنچی اور انہیں من گھرٹ مقدمات میں ایسا الجھایا گیا کہ جان کے لالے پڑگئے تو مرتا کیا نہ کرتا کے مصداق وہ نیم پاگل سے ہو کر دیارِغیر میں واپس پہنچ کر اپنی جان بچانے میں کامیاب ہو سکے۔ اپنوں کے شر سے بچ بھی جائیں تو قبضہ مافیا کہ ہاتھوں اپنی عمر بھر کی کمائی سے خریدی ہوئی جائیداد گنوا بیٹھتے ہیں۔ مقدمہ بازی اور قانونی موشگافیوں میں الجھا کر انہیں ذلیل اور رسوا کیا جاتا ہے تاکہ وہ وطن واپس آنے کا آئندہ کبھی نہ سوچیں۔یہ رسوائیوں کے دکھ بھرے سلسلے دراز بھی ہیں اور اَن گنت بھی۔
ان سب مسائل اور حوادثِ زمانہ کے باوجود ملک میں روزگار کے محدود مواقع، بدامنی، مہنگائی اور غربت سے مجبور ہزاروں پاکستانی بیرونِ ملک جا کر اپنی قسمت بدلنے کا ارادہ کرتے ہیں اور ہر سال لاکھوں پاکستانی دیارِ غیرکو اپنا مسکن بنا لیتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ لندن، پیرس، سڈنی اور نیویارک کی چکا چوند روشنیاں، مادی ترقی اور مالی خوشحالی کے خواب نما مظاہر سے متاثر ہو کر ہزاروں پاکستانی انسانی سمگلروں کے جھانسے میں آ کر اپنی رہی سہی جائیداد اور جمع پونجی سے بھی ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔ انہیں سبز باغ دکھا کر جعلی ویزے، غیر تسلی بخش سفری دستاویزات اور غیر قانونی راستوں سے پاکستان سے باہر بھجوانے کا لالچ دیا جاتا ہے۔ کبھی وہ کنٹینرز میں دم گھٹنے سے زندگی کی بازی ہار جاتے ہیں تو کہیں ان کی کشتی سمندر کی بے رحم لہروں کا شکار ہو جاتی ہے اور ان کی لاشیں تک نہیں مل پاتیں۔ کبھی یونان کا بارڈر کراس کرتے ہوئے انہیں گولیوں سے بھون دیا جا تا ہے تو کبھی کسی نامعلوم مقام پر پکڑ کر انہیں سالہا سال تک جیلوں میں ڈال دیا جاتا ہے جہاں سے ان کے گھر والوں کو بھی کوئی خبر نہیں ہو سکتی۔ یہ سب کچھ بھلا کوئی شوق سے تھوڑی کرتا ہے؟ اس کے پیچھے ان بدقسمت غریب الوطن پاکستانیوں کی غربت، لاچارگی، بیروزگاری، مفلسی، پسماندگی اور بے کسی شامل ہوتی ہے جو انہیں اپنے حالات بدلنے پر مجبور کرتی ہے اور وہ اپنے بچوں کو ایک روشن اور تابناک مستقبل دینے کیلئے جان ہتھیلی پر رکھ کر دیارِ غیر کے مسافر بن کر نکلتے ہیں اور اکثر یہ سفر ان کا آخری سفر ثابت ہوتا ہے۔
میں اکثر سوچتا ہوں کہ اگر غریب الوطنی کے دکھوں کو اپنی آنکھوں سے دیکھنا ہو تو کسی بھی ایئرپورٹ پر بین الاقوامی آمد اور روانگی کے مناظر ضرور دیکھنے چاہئیں کہ کسی طرح اپنے پیاروں کی آمد پر پھولوں کی پتیاں نچھاور کی جاتیں ہیں، گلے میں ہار ڈالے جاتے ہیں اور دوسری طرف جانے والوں کی روانگی پر بیوی بچے نمناک آنکھوں سے الوداع کہہ رہے ہوتے ہیں تو والدین افسردگی کی تصویر بنے خاموشی سے اس کی عافیت کی دعائیں مانگ رہے ہوتے ہیں۔ کورونا کی خوفناک وبا نے غریب الوطنی کے دکھوں میں سب سے بڑا دکھ یہ شامل کر دیا ہے کہ دیارِغیر میں مرنے والوں کا جسدِ خاکی بھی واپس نہیں آتا اور یوں وہ ہمیشہ کیلئے اپنے جان سے پیاروں سے روٹھ جاتے ہیں، سارے بندھن ٹوٹ جاتے ہیں اور گہرے سے گہرے تعلقات چھوٹ جاتے ہیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں