غزہ کے معصوم فاتحین

سر زمینِ فلسطین کی مذہبی اہمیت، روحانی فوقیت اور تاریخی حقیقت کئی صدیوں پر محیط ہے، یہی وجہ ہے کہ آج بھی فلسطینی مسلمان یروشلم (القدس) پر اسرائیلی غاصبانہ قبضہ ماننے کیلئے تیار نہیں اور نہ اس پر اپنا حق چھوڑنے کیلئے تیار ہیں۔ اُن کے اس جائز مطالبے کو اب اقوامِ عالم زیادہ دیر نظر انداز نہیں کر سکتیں اور اس قضیے کا سیاسی اور قانونی حل بہت جلد نکالنا ہو گا تاکہ نہ صرف خطے میں امن بحال کیا جا سکے بلکہ عالمی امن کو درپیش سنگین خطرات سے بھی نمٹا جا سکے۔ بہت سے مستند حوالوں کے مطابق سرزمینِ فلسطین انبیاء و رسل علیہم السلام کا مرکز، مسکن اور مدفن رہی ہے۔ ایک روایت کے مطابق اس خطہ ارضی میں واقع بابرکت شہر بیت المقدس کو ''سام بن نوح‘‘ نے آباد کیا تھا اور 1013ء قبل مسیح میں حضرت داؤد علیہ السلام نے اسے فتح کیا تھا۔ یہ بھی ایک تاریخی حقیقت ہے کہ بیت المقدس تمام عالمِ اسلام کا قبلہ اول رہا ہے اور خانہ کعبہ اورمسجدِ نبوی کے بعد مسلمانوں کا تیسرا مقدس ترین مقام مسجد اقصیٰ ہی ہے‘ جس کی طرف رخ کر کے مسلمان تقریباً سولہ ماہ تک نماز ادا کرتے رہے۔ اسی مقام سے ہمارے آقا و مولیٰ نبی آخر الزماں حضرت محمدﷺ کے سفرِ معراج کا آغاز ہوا تھا اور یہیں پر آپﷺ نے تمام انبیاء کرام کی امامت فرمائی تھی۔ اسی لئے بیت المقدس کی حرمت، بقا اور تحفظ کے لئے ہر مسلمان اپنا تن، من دھن قربان کرنے کیلئے ہمہ وقت تیار رہتا ہے۔
تاجِ برطانیہ نے جہاں تقسیمِ ہند کے موقع پر متنازع ریڈ کلف ایوارڈ کے ذریعے کشمیر جنت نظیر کو پاکستان کے بجائے بھارت کے حوالے کرنے کا مذموم منصوبہ بنایا تھا بالکل اسی طرح پہلی جنگِ عظیم کے دوران 1917ء میں بر طانوی سامراج نے بدنامِ زمانہ بالفور ڈکلیریشن کے ذریعے اسرائیلی ریاست کے قیام کا اعلان کیا اور فلسطین کی سرزمین پر آگ اور خون کے کھیل کی داغ بیل ڈال دی۔ دوسری جنگِ عظیم کے اختتام کے بعد اس ناپاک منصوبے کو عملی جامہ پہناتے ہوئے امریکا اور برطانیہ نے مل کر خطۂ فلسطین پر اسرائیل کا قیام یقینی بنایا اور یوں عرب اسرائیل تنازع کا ایک لامتناہی سلسلہ شروع ہو گیا۔ باقی کسر 27 نومبر 1947ء کی یو این قراردادکے ذریعے پوری کر دی گئی جب فلسطین کو دو ریاستوں میں تقسیم کر کے اسرائیل کے قیام پر قانونی مہر ثبت کر دی گئی مگر فلسطینیوں اور عرب ممالک نے اس فیصلے کو ماننے سے انکار کر دیا اور اسی طرح مئی 1948ء میں پہلی عرب سرائیل جنگ کا آغاز ہوا جس میں عرب ممالک کو اکثریت کے باوجود شکست کا سامنا کرنا پڑا کیونکہ طاقتور عالمی طاقتیں اسرائیل کی مالی، سیاسی اور فوجی معاونت کر رہی تھیں۔ قیام کے وقت اسرائیل کے پاس فلسطین کا محض 6.5 فیصد رقبہ تھا مگر اسے آبادی سے کہیں زیادہ رقبہ الاٹ کر دیا گیا اور 1948ء کی جنگ میں یہودیوں نے مزید کچھ علاقوں پر قبضہ کر لیا جس میں بیت المقدس کا مغربی حصہ بھی شامل تھا۔ یہاں پر اہم نکتہ یہ یاد رکھنا چاہیے کہ اصل اہمیت بیت المقدس کے مشر قی حصے کو حاصل ہے کیونکہ مسلمانوں، عیسائیوں اور یہودیوں کے تمام مقدس مذہبی اور تاریخی مقامات اسی حصّے میں واقع ہیں جن میں مسجدِ اقصیٰ بھی شامل ہے۔ 1967ء میں دوسری عرب اسرائیل جنگ کے دوران اسرائیل نے شام کے علاقے گولان کی پہاڑیوں، مصر کے صحرائے سینا اور غزہ کے علاوہ مشرقی بیت المقدس پر بھی اپنا قبضہ جما لیا مگر اس غیر قانونی تسلط کو آج تک اقوامِ متحدہ کے چارٹر اور بین الاقوامی قوانین کے تحت درست اور جائز قرار نہیں دیا جا سکا۔ دراصل یہی معاملہ مسئلہ فلسطین کی بنیادی وجہ بھی ہے اور اس کی تاریخی اہمیت کی دلیل بھی۔
ہر سال مقبوضہ فلسطین کے مسلمان رمضان المبارک کے مقدس مہینے میں بیت المقدس میں کثیر تعداد میں جمع ہوکر عبادت کرتے ہیں اور ہر سال اسرائیلی فوج اُن کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کرتی ہے جس سے کشیدگی بڑھ جاتی ہے۔ اس سال بھی حسبِ روایت اسرائیلی فوج نے طاقت اور اختیارات کا بے دریغ استعمال کیا اور فلسطینی مسلمانوں کو مسجد اقصیٰ میں عبادت سے محروم رکھنے کا ہر ہتھکنڈا آزمایا مگر ستائیسویں شب رمضان المبارک کو وہ سب رکاوٹیں عبور کرکے قبلۂ اول میں عبادت کیلئے پہنچ گئے۔ عینی شاہدین کے مطابق پچھتر ہزار سے زائد فلسطینی اس رات عبادت میں مصروف تھے کہ اسرائیلی فوجی مذموم مقاصد اور ناپاک بوٹوں سمیت مسجدِ اقصیٰ میں گھس گئے اور فلسطینی مسلمانوں پر ظلم کرنے لگے جس سے کشیدگی بڑھی اور باقاعدہ جھڑپیں شروع ہو گئیں اور معاملہ بڑھتے بڑھتے جنگ کی طرف چلا گیا۔ اسرائیلی فضائیہ نے پوری طاقت کے ساتھ غزہ کے رہائشی علاقوں پر شدید بمباری شروع کی اور گیارہ روز تک فضائی اور زمینی حملوں کے نتیجے میں معصوم، نہتے اور گھروں میں محصور فلسطینی زندگی کی بازی ہارنے لگے۔ گیارہ روزہ جنگ میں 232 فلسطینی شہید ہوئے جن میں 65 معصوم بچے، 35 خواتین اور 19 بزرگ شامل تھے۔ البتہ اسرائیلی بمباری اور جنگی جنوں بری طرح ناکام ہوا۔ اسرائیل نے اس دوران سنگین جنگی جرائم کا ڈھٹائی کے ساتھ ارتکاب کیا، بین الاقوامی قوانین کی کھلم کھلا خلاف ورزی کی اور بنیادی انسانی حقوق کا اعلامیہ مذاق میں اڑا دیا۔
حالیہ کشیدگی نے ایک مرتبہ پھر اسرائیل، امریکا اور عالمی امن کے نام نہاد ضامنوں کے گٹھ جوڑ کوبُری طرح بے نقاب کیا ہے۔ اسرائیل نے بربریت، سفاکیت اور ظلم و ستم کی بدترین مثال قائم کی مگر اس کے باوجود امریکا اس کی پشت پناہی کرتا رہا اور اس کی سرکوبی یا سرزنش کے بجائے اُلٹا حماس کے راکٹ حملوں کی مذمت کرتا رہا بلکہ اسرائیلی بمباری کو حقِ دفاع کا نام دیا گیا۔ کویت نے اس دہشت گردی کو سکیورٹی کونسل میں اٹھانے کی کوشش کی تو قرارداد امریکا نے ویٹوکر دی اور مشترکہ اعلامیہ جاری کرنے سے روک دیا بلکہ جنگی جنون کی مزید حوصلہ افزائی کیلئے امریکا نے اسرائیل کو تہترکروڑ پچاس لاکھ ڈالر فوجی امداد دینے کا اعلان بھی کیا جو طاقت اور اختیارات کا شرمناک استعمال ہے۔ ظالم کو مظلوم اور معصوم نہتے فلسطینیوں کو ظالم کہا گیا اور اس بیانیے کو مغربی میڈیا، خبر رساں ادارے اور سوشل میڈیا پر عام کیا گیا۔ فلسطینی معصوم بچوں کے قتلِ عام کی کئی وڈیوز کو ویب سائٹس سے ہٹا دیا گیا، سوشل میڈیا کے کئی اکائونٹس معطل کر دیے گئے اور پوری کوشش کی گئی کہ اسرائیلی فوج کی دہشت گردی کو دنیا کے سامنے سیلف ڈیفنس میں کی گئی کارروائی ثابت کیا جا سکے مگر ایسا نہ ہو سکا۔
اسرائیل کی بربریت‘ معصوم لوگوں پر فوج کشی اور فضائی بمباری کی پوری دنیا میں مذمت ہوئی، سنسرشپ کے باوجود سوشل میڈیا پر شہری آبادی پر اسرائیلی بمباری کے نتیجے میں زمین بوس ہوئی عمارتوں، تڑپتی انسانی جانوں، شدید زخمیوں اور نہتے شہریوں پر گولہ باری کے مناظر پوری دنیا میں دیکھے گئے۔ ان دل لرزا دینے والے واقعات کے ردعمل میں برطانیہ، یورپ، آسٹریلیا، نیوزی لینڈ، کینیڈا اور خود امریکا کے سو سے زائد شہروں میں عوام سٹرکوں پر نکل آئے اور معصوم افراد کی شہادت اور اسرائیل کے سنگیں جنگی جرائم کے خلاف احتجاج کیا۔ او آئی سی اور جی سی سی نے خود کو محض مذمتی بیانات تک محدود رکھا مگر پاکستان نے ہمیشہ کی طرح فلسطینی بھائیوں کی نمائندگی کا حق ادا کیا اور شاندار سفارتکاری سے اس سفاکیت کو امریکا، یورپ اور اقوام متحدہ کے سامنے اجاگر کیا۔ قومی اسمبلی میں متفقہ قرارداد کی منظوری سے لے کر یومِ فلسطین منانے تک اور پھر ترکی، چین اور ایران کے بھرپور تعاون سے اقوامِ متحدہ کے جنرل اسمبلی کے ہنگامی اجلاس بلانے اور وہاں پر پاکستانی وزیر خارجہ کی قابلِ تحسین تقریر نے غزہ میں اسرائیلی جارحیت کی قلعی کھول دی۔ اسرائیل عوامی ردعمل اور حماس کے راکٹ حملوں کے سامنے بے بس دکھائی دیا اور گیارہ روزہ کشیدگی کے بعد اچانک یکطرفہ اور غیر مشروط جنگ بندی کا اعلان کر دیا۔ یوں اس جنگ بندی کو فلسطینی مسلمان اپنی اخلاقی برتری اور شدید مزاحمت کی فتح قرار دے رہے ہیں جو دراصل غزہ کے معصوم شہدا کے عزم و حوصلے کا نتیجہ ہے جن کی ننھی لاشوں نے اسرائیل کی بربریت کا بھانڈا پھوڑ کر رائے عامہ بدل ڈالی اور یوں تاریخ میں پہلی مرتبہ اس ناجائز ریاست کا مکروہ چہرہ دنیا کے سامنے مکمل طور پر بے نقاب ہو گیا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں