چائے پانی

بلاشبہ مشرقی روایات اور اسلامی اقدار میں مہمان نوازی کو ایک خاص مقام حاصل ہے اور یہی وجہ ہے کہ ہمارے ہاں مہمان کی خاطر مدارت‘ چائے پانی اور قیام و طعام کا خصوصی اہتمام کرنے کی قابلِ فخر روایت ہے۔ بسا اوقات مہمان کے منع کرنے کے باوجود اس کے سامنے اشیائے خور ونوش کے انبار لگا دیے جاتے ہیں اور وہ بیچارہ مروت اور وضعداری کو ملحوظِ خاطر رکھتے ہوئے انکار بھی نہیں کر سکتا۔ ہماری اس خوبصورت روایت سے غیر ملکی سیاح بھی بہت متاثر ہوتے ہیں اور وہ پاکستان سے جڑی خوبصورت یادوں میں مہمان نوازی کو سرفہرست رکھتے ہیں۔ یہ باعثِ اجر و ثواب بھی ہے اور ذہنی اور روحانی سکون کا سبب بھی، زندہ دلانِ لاہور اس حوالے سے خاصے مشہور ہیں اور مخصوص لاہوری غذائوں اور مرغن پکوان سے اپنے مہمان کی خدمت میں پیش پیش رہتے ہیں۔ اسی طرح ہمارے پشتون بھائی بھی مہمان نوازی کو قبائلی تفاخر سے منسوب کرتے ہیں اور بعض قبائل تو مہمان کی حفاظت کے لئے اپنی جان پر کھیل جاتے ہیں مگر اس کی عزت و آن پر آنچ نہیں آنے دیتے۔ کچھ قبائل میں ایک گھر کا مہمان پورے قبیلے کا مہمان تصور کیا جاتا ہے اور قبیلے کا ہر گھر اسے اپنے ہاں مدعو کرتا ہے اور دوسروں سے بڑھ چڑھ کر اس کی خدمت کی جاتی ہے۔ یہ خوبصورت روایت ہمارے مسلم معاشرے میں ایک کلیدی حیثیت کی حامل ہے اور ہمارے دین کی روح بھی ہے جس کی وجہ سے ایک مضبوط انسانی معاشرہ تشکیل پاتا ہے اور باہمی پیار، محبت اور ایثار کے جذبات پروان چڑھتے ہیں، مگر بدقسمتی سے ہمارے معاشرے میں مہمان نوازی کی خوبصورت روایت کو سرکاری دفاتر میں ''چائے پانی‘‘ کا نام دے کر رشوت ستانی کے مذموم مقاصد کیلئے استعمال کیا جاتا ہے اور دفاتر میں آنے والے سائلین کو جائز امور کی انجام دہی کیلئے بھی ''مال پانی‘‘ دینے پر مجبور کیا جاتا ہے۔ رشوت ستانی کے مکروہ دھندے کو چائے پانی کی پوشاک پہنا کر لوگوں کی جیبیں کاٹی جاتی ہیں۔ عام طور پر رشوت خور اہلکار سائلوں کی خدمت میں چائے‘ پانی بھی پیش کرتے ہیں اور ان کے ساتھ میٹھے بول بول کر ان کی خوشامد کرتے ہیں اور پھر ان کی فائل کو فوراً حرکت میں لاتے ہوئے متعلقہ افسران سے منظور کروا کر ان کے حوالے کرنے سے پہلے مٹھائی کے نام پر ''نذرانہ‘‘ وصول کرتے ہیں۔ کئی دفاتر میں باقاعدہ دھونس، دھمکی اور سخت لب و لہجہ اختیار کر کے غریب اور بے بس عوام کو رشوت دینے پر مجبور کیا جاتا ہے اور ان کے کاغذات پر طرح طرح کے اعتراضات لگا کر ہر روز نئی تاریخ دے دی جاتی ہے۔ بالآخر وہ تھک ہار کر رشوت خور عناصر کی مٹھی گرم کرنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ کچھ دفاتر میں چائے پانی کے ریٹ طے شدہ ہیں اور کام کی نوعیت کے مطابق ریٹ پر عملداری یقینی بنائی جاتی ہے اس کے بغیر فائل پر دستخط ہو ہی نہیں سکتے۔ رشوت کا ناسور ہمارے سرکاری ڈھانچے میں کینسر کی طرح سرایت کر چکا ہے اور دیمک کی مانند سرکاری اداروں کی جڑیں کھوکھلا کر رہا ہے۔ رشوت کے رسیا اہلکار اور افسران اپنے قریبی رشتہ داروں کو بھی پہچاننے سے انکار کر دیتے ہیں کیونکہ سفارش ماننے سے ان کی ''کمائی‘‘ میں کمی کا اندیشہ موجود ہوتا ہے لہٰذا ان پر کسی بھی قسم کا دبائو یا سفارش اثر نہیں کرتی۔ یہ عناصر اپنی نوکری سے ہاتھ دھونے سے بھی نہیں گھبراتے اور سروس کے دوران متعدد مرتبہ معطل ہونے کے باوجود ہر بار بحال ہو کر ہر آنے والے کی جیب پر نظریں جمائے رکھتے ہیں۔ اکثر ان وارداتیوں کے ہاتھ بڑے لمبے ہوتے ہیں اور اعلیٰ افسران تک ان کی رسائی ہوتی ہے اور کئی تو باقاعدہ ان کے پشت پناہ ہوتے ہیں۔
اس ناسور کی بیخ کنی کیلئے پنجاب حکومت کے زیرِ اثر اینٹی کرپشن کا محکمہ قائم ہے مگر بدقسمتی سے ایک عرصے تک یہ محکمہ خود بھی رشوت ستانی کی پشت پناہی میں ملوث رہا اور اس کے مجاز افسران کی ناک کے نیچے رشوت کا بازار گرم رہا، معصوم شہری سرکاری دفتروں میں لٹتے رہے، انصاف اور داد رسی کی دہائیاں دیتے رہے، عرضی نویسوں سے لچھے دار زبان میں اپنے غم کی داستانیں تحریر کروا کر اینٹی کرپشن کے دفاتر میں چکر کاٹتے رہتے مگر عدل کی زنجیرتک ان کی رسائی نہ ہو سکی اور کئی مرتبہ ان کو ذلیل و خوار کر کے دفتر سے نکال باہر کیا گیا۔ ماضی میں اس محکمے کا استہزائیہ نام ''آنٹی کرپشن‘‘ بھی زبان زدِ عام رہا۔ محض کارروائی کے طور پر ہونے والی انکوائریوں میں رشوت خور عناصر باعزت بری ہوتے رہے اور ظلم و ستم کا راج رہا۔ معمولی تنخواہ وصول پانے والے ادنیٰ عہدوں پر فائز اہلکار کروڑوں کی جائیدادوں کے مالک بن گئے۔
یہ خوش آئند امر ہے کہ گزشتہ دو سالوں سے محکمہ اینٹی کرپشن پنجاب نے صوبے بھر میں رشوت ستانی کے خلاف کمر کس لی ہے اور رشوت خور اہلکاران اور افسران کے محاسبے کے لئے شبانہ روز کاوشیں کی ہیں۔ ایک مربوط حکمتِ عملی وضع کی گئی ہے، ٹریپ ریڈ کے ذریعے رشوت خور عناصر کو رنگے ہاتھوں گرفتار کیا گیا ہے، الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا کا بھرپور استعمال عمل میں لا کر معاشرے میں رشوت ستانی کے خلاف ''چائے پانی بند‘‘ مہم کا آغاز کیا گیا ہے۔ عوام کیلئے محکمے کے دفاتر کے دروازے کھول دیے گئے ہیں۔ ''رپورٹ کرپشن‘‘ کے نام سے ایک ایپ بھی بنائی گئی ہے جس پر رشوت ستانی میں ملوث عناصر کے خلاف درخواست اور ضروری مواد شامل کیا جا سکتا ہے۔ محکمے کے ڈائریکٹر جنرل اچھی شہرت اور مضبوط اعصاب کے مالک پولیس آفیسر ہیں اور ان کے زیرِ نگرانی اینٹی کرپشن نے قابلِ رشک کارکردگی دکھائی ہے۔ ان کے ترجمان کی جانب سے فراہم کیے گئے اعداد و شمار کے مطابق گزشتہ دو سالوں میں سب سے زیادہ شکایات محکمہ مال کے خلاف موصول ہوئیں جو سترہ ہزار سے زائد تھیں، دوسرے نمبر پر پنجاب پولیس ہے جس کے خلاف تیرہ ہزار سے زیادہ شکایات آئیں اور تیسرا محکمہ جس کے خلاف رشوت ستانی کی چھ ہزار سے زائد شکایات موصول ہوئیں‘ وہ لوکل گورنمنٹ ہے جبکہ محکمہ صحت، آبپاشی اور سکول ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ کے خلاف دو‘ دو ہزار سے زائد شکایات درج کروائی گئیں۔ اِن شکایات کے بروقت ازالے کیلئے پنجاب بھر میں سخت تادیبی کارروائیاں عمل میں لائی گئیں اور گریڈ 1 سے 19 تک کے ملازمین اور افسران پر چھ سو پچھتر کامیاب ریڈ کر کے دس ملین سے زائد رقم برآمد کی گئی۔ سرکاری اہلکاران اور افسران کے خلاف مقدمات درج کیے گئے اور 4 ہزار 980 افراد کو حراست میں لیا گیا۔ اس کے ساتھ ساتھ پنجاب بھر میں سرکاری زمین اور املاک کو ناجائز قابضین سے واگزار کرایا گیا جس کی مالیت لک بھگ 194 ارب روپے بنتی ہے۔ اسی طرح دیگر کارروائیوں میں 2 ارب 35 کروڑ کی برآمدگی کی گئی جبکہ 26.7 ارب کی بالواسطہ ریکوری کروائی گئی۔ یہ کارکردگی بلاشبہ قابلِ تحسین ہے اور قابلِ تقلید بھی‘ مگر کیا ان کارروائیوں سے صوبے بھر میں رشوت کا خاتمہ ہو چکا ہے، یہ ایک اہم سوال ہے۔
کرپشن کے ناسور کو جڑ سے اکھاڑنے اور مکمل خاتمے کیلئے ضروری ہے کہ قومی سطح پر ایک مربوط، منظم اور بھرپور مہم کا آغاز کیا جائے اور اینٹی کرپشن پنجاب کی جانب سے شروع کی گئی ''چائے پانی بند‘‘ مہم کو حکومتی سطح پر ملک بھر میں چلایا جائے۔ اس سلسلے میں الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا کا بھرپور استعمال کرکے رشوت خور عناصر کی حوصلہ شکنی کی جائے، انہیں سرکاری دفاتر اور سماجی حلقوں میں ناپسندیدہ افراد قرار دیا جائے۔ علماء کرام اپنے خطبات کے ذریعے مساجد میں اس کے خلاف رائے عامہ ہموار کریں۔ اس کی بیخ کنی کیلئے جہاں سخت تادیبی کارروائی کی ضرورت ہے وہاں اساتذہ، والدین، اہلِ قلم اور قومی ہیروز بھی اپنا کلیدی کردار ادا کر سکتے ہیں۔ اسی طرح بچوں کی تربیت میں رزقِ حلال کی خیر و برکت کو اجاگر کرنا لازم ہے۔ پروفیسررحمت علی المعروف بابا جی کہتے ہیں کہ اگر ہر ماں اپنے بچوں کی ناجائز ذرائع سے حاصل کی گئی دولت اور ہر بیوی اپنے شوہر کے حرام خوری سے جمع کیے گئے مال و زر سے نفرت کرنا شروع کر دے تو اس ناسور سے چھٹکارا جلد ممکن بنایا جا سکتا ہے‘ ورنہ چائے پانی کا مکروہ دھندہ‘ جو پانچ سو‘ ہزار سے شروع ہو کر کروڑوں‘ اربوں تک جا پہنچتا ہے کو ختم کرنے کی مہم میں ہم ناکام ہوتے رہیں گے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں