پاکستان دنیا کا واحد ملک ہے جو اسلام کے نام پر حاصل کیا گیا۔ اس کی بنیادہی اسلامی نظریے پر رکھی گئی اور شاعرِ مشرق ڈاکٹر علامہ اقبالؒ نے برِ صغیر میں جس اسلامی ریاست کا تصور پیش کیا‘ اس کا بنیاد ی نکتہ ہی دو قومی نظریہ تھا۔ پاکستان کا مطلب کیا: لا الہ الا اللہ وہ مشہور نعرہ تھا جس نے دو قومی نظریے کو مزید اجاگر کیا۔ قائد اعظم محمد علی جناحؒ نے بھانپ لیا تھا کہ انگریزوں کے ہندوستان چھوڑنے کے بعد مسلمان تنگ نظر ہندوئوں کے رحم و کرم پر ہوں گے۔ اکثریت کی بنیاد پر اگر حکومت کی تشکیل ہو گی تو مسلمان ایک اقلیت بن کر متعصب سوچ کی بھینٹ چڑھ جائیں گے اور مسلمانوں کا الگ مذہبی تشخص اور سلامتی شدید خطرے سے دو چار ہو جائے گی۔ مسلمانوں کا اپنے عقائد، عبادات اور اسلامی طرزِ زندگی کو برقرار رکھنا مشکل ہو جائے گا جس کی ایک جھلک 1937ء کی کانگریسی وزارتوں میں واضح طور پر نظر آگئی تھی، لہٰذا ہندوستان کی تقسیم اور قیامِ پاکستان کا سب سے نمایاں سبب اسلامی نظریہ ہی تھا۔
پاکستان کا وجود میں آجانا کسی معجزے سے کم نہیں تھا۔ رمضان المبارک کی ستائیسویں شب کو اللہ نے ہمیں یہ عظیم ریاست عطا فرمائی۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ عطائے ربانی تھی۔ ہمارا ایمان کی حد تک یقین ہے کہ جب تک یہ جہان ہے‘ یہ مملکتِ خداداد قائم و دائم رہے گی۔ اسلامی نظریہ اور تعلیمات اس بات کی متقاضی ہیں کہ ہمارے تمام اقوال و اعمال اسلام کے سانچے میں ڈھلے ہوں، اس مقصد کے حصول کیلئے قیامِ پاکستان سے لے کر آج تک اسلامی تعلیمات کو آئینِ پاکستان میں بنیادی اہمیت اور حیثیت رہی ہے۔ قرار دادِ مقاصد ہو یا بعد میں آنے والے دساتیر‘ اسلام سب کا بنیادی ستون رہا ہے۔پاکستان میں کوئی بھی قانون اسلام کی بنیادی روح سے متصادم نہیں بن سکتا۔ ریاستِ پاکستان اپنے شہریوں کو جدید اور وقت کے تقاضوں سے ہم آہنگ تعلیم مہیا کرنے کی پابند ہے۔اسلامی فلاحی ریاست کا تصور بھی یہی ہے کہ تعلیمی نظام جدید اور مستقبل کی ضروریات سے ہم آہنگ ہو۔ پاکستان کے تعلیمی نظام میں اسلامی نظریات کو بنیادی حیثیت حاصل ہے۔ قومی نصاب میں طلبہ کی تعلیم و تربیت میں اسلامی پہلو اجاگر کرنے کیلئے قرآن و سنت کی تعلیمات کو لازمی مضمون کی حیثیت حاصل رہی ہے۔ بدقسمتی سے سابقہ ادوار میں طبقاتی تقسیم میں اضافی ہوا اور تعلیمی ادارے بھی اس تقسیم سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکے۔ معاشرتی ناہمواری اپنے ساتھ معاشرتی اور اخلاقی اقدار کو بھی متاثر کرتی ہے۔ پاکستان کا تعلیمی نظام بھی شدید انحطاط کا شکار ہوا جس کی وجہ سے ہر طرح کی اخلاقی اورمعاشرتی بے راہ روی نے جنم لیا، سیاسی،معاشی اور سماجی ڈھانچہ اپنی بنیادیں کھوکھلی کر بیٹھا۔ تیزی سے بدلتے سماجی دھارے، انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا نے سماج کا حلیہ بگاڑ دیا۔ اخلاقی اقدار پامال ہو گئیں اور رزقِ حلال کا تصور بھی دھندلا گیا۔ضرورت تھی اور ہے کہ الجھی ڈور کا سرا تلاش کیا جائے‘ اسے کیسے اور کہاں سے پکڑا جائے تا کہ درج بالا تمام مسائل کا حل ممکن ہو سکے‘ اس بارے میں سوچا جائے۔
موجودہ حکومت نے اس مشکل کام کو اپنے ذمے لیا ہے اور اس الجھی ہوئی ڈور کو سلجھانے کیلئے واحد قومی نصاب کو پنجاب میں نافذ کرنے کا فیصلہ کیا ہے جس کا مقصد قرآن و سنت کی تعلیم، مساوی مواقع فراہم کرنا،بین الاقوامی ترجیحات کا تعین،معیاری تعلیم، ریسرچ انکوائری پروجیکٹس اور بین الصوبائی یکجہتی ہے۔ بلاشبہ قرآنِ مجید کی لازمی تعلیم،ناظرہ اور ترجمہ و تفسیر‘ دراصل وزیر اعظم کے پاکستان کو ریاستِ مدینہ کے سنہری اصولوں پر چلانے کے حوالے سے ایک اہم سنگِ میل کی حیثیت رکھتا ہے۔ قرآنِ پاک تمام علوم و فنون کی تعلیمات کی روشنی کا منبع و ماخذ ہے‘ لہٰذا پنجاب کے تمام سرکاری و پرائیویٹ اداروں میں قرآنِ مجید کی تدریس ٹائم ٹیبل کا حصہ بن چکی ہے۔آئین کے آرٹیکل 31اور پنجاب حکومت کے لازمی تعلیم 2018ئکے ایکٹ کے مطابق پہلی سے پانچویں جماعت تک کے طلبہ و طالبات کیلئے ناظرہ اور چھٹی سے بارہویں کیلئے ترجمہ و تفسیر سے قرآنِ مجید نصاب کا لازم جز‘بطورِ مضمون نافذ ہو چکا ہے۔ اسی مضمون میں سالانہ امتحان 50نمبر کا ہو گا جس کو پاس کرنا لازم ہوگا۔ اس سے تعلیمی اداروں میں طہارت و پاکیزگی کا ماحول،بچوں کی ذہنی و جسمانی صحت و صفائی کی عادات، روحانی و اخلاقی اقدار کی ترویج کے مقاصد کے ساتھ ساتھ انسان کی وجۂ تخلیق کا فہم بھی پیدا ہوگا۔معاشرتی،سیاسی،سماجی، عائلی مسائل کی سمجھ بوجھ اور حقوقِ و فرائض کی ادائیگی کا طریقہ بھی سکھایا جائے گا۔ نوجوان نسلوں میں اسلامی احکامات کو سمجھنے کی صلاحیتیں بیدار ہوں گی۔ بلاشبہ اسلام سلامتی کا دین اور مکمل ضابطۂ حیات ہے، یہ قیامت تک کے لیے رہنمائی ہے لہٰذاقرآنی تعلیمات کا شغف بین الاقوامی قوتوں کے مسلمانوں کے خلاف منفی اثرات سے بچنے میں بھی معاون ہو گا۔ اخلاقی تربیت طلبہ کو منفی رویوں اور رجحانات سے محفوظ رکھنے کا ذریعہ ثابت ہوگی۔ اس کے نتیجے میں سطحی سوچ سے نکل کر گہرے فہم و ادراک والی نسل معاشرتی،سماجی اور معاشی و تہذیبی خلا کو پُر کرے گی۔ دراصل پاکیزہ تربیت ہی ملکی بقا و سلامتی کی ضامن ثابت ہو گی۔ وطن کی سیاسی، فکری اور نظریاتی اساس کی حفاظت کیلئے ضروری ہے کہ چند سوالات رٹ کر نمبر لینے کی دوڑ سے باہر نکل کر فکر و فلسفہ، حکمت و دانش کو ترویج دی جائے۔ اسلام اور قرآن و سنت کی تعلیمات وقت کی ضرورت بھی ہیں اور ہماری بقا کا ذریعہ بھی۔
خوش آئند پہلو یہ ہے کہ تھرڈ پارٹی مانیٹرنگ کیلئے لاہور ہائیکورٹ کی ہدایت پر پنجاب کے 36اضلاع میں سول ججوں اور ایڈیشنل سیشن ججوں نے 100فیصد سرکاری و نجی تعلیمی اداروں میں جا کر تصدیق کی ہے اور اس اہم اقدام کا عملی نفاذ یقینی بنایا ہے۔ اس فیصلے نے محکمہ تعلیم اور دیگر اداروں کی اہم مقصد کے حصول میں معاونت کی جس کے خاطر خواہ نتائج برآمد ہوئے ہیں۔ آئے روز حکومتی سطح پر متعدد فیصلے لئے جاتے ہیں، پالیسیاں وضع کی جاتی ہیں، قوانین بنائے جاتے ہیں اور کئی اصولی فیصلے طاقت کے ایوانوں میں زیرِ بحث آتے ہیں مگر ان میں سے اکثر فائلوں کی زینت بن کر انہی صفحات میں ہمیشہ لے لیے گم ہو جاتے ہیں۔ اس کے برعکس قرآنی تعلیمات پر مبنی اس لازمی مضمون کو تعلیمی اداروں میں صحیح معنوں میں رائج کرنے میں جس قدر سنجیدگی دکھائی جا رہی ہے وہ یقینا قابلِ ستائش ہے۔ یہ عمل بلاشبہ ہماری نوجوان نسل کی شخصیت کی تعمیر اور کردار کی پختگی میں اہم سنگِ میل ثابت ہوگا اور یہی نوجوان کل کو جب مختلف شعبہ ہائے زندگی میں بطور ذمہ دار شہری اپنے حصے کی شمع روشن کریں گے تو وطنِ عزیز پاکستان میں چہار سو روشنی ہی روشنی ہو گی۔ یوں اس عملی اقدام کے سبب ہماری آنے والی نسلیں مستفیض ہوتی نظر آ رہی ہیں اور ہمارے ملک کا مستقبل محفوظ ہاتھوں میں نظر آنا ایک نیک شگون ہے؛ تاہم یہاں پر ایک اہم سوال جنم لیتا ہے کہ بے شک ہمارے دینِ اسلام کا مکمل ضابطہ حیات قرآنِ مجید میں ہمیشہ کیلئے محفوظ کر دیا گیا ہے اور ہم سب کا یہ ایمانِ کامل ہے کہ قرآنِ کریم کی تعلیمات پرعمل پیرا ہونے میں ہی ہماری اصل کامیابی کا راز مضمر ہے مگر آج تک اتنے اہم پہلو اور اس کے نفاذ کیلئے کیونکر عملی قدم نہیں اٹھایا گیا؟ یہ سوال بہت زیادہ اہمیت کا حامل بھی ہے اور قابلِ تشویش بھی، مگر ایسے دو ررس نتائج کے حامل فیصلے لینے اور ان کو عملی حقیقت بنانے کیلئے ایک دیدۂ بینا کی ضرورت ہوتی ہے جو عام طور پر نا پید ہوا کرتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ شاعرِ مشرق علامہ اقبال کے کلام میں اسی دیدۂ بیناکی جستجو ملتی ہے۔
محرومِ تماشا کو پھر دیدۂ بینا دے
دیکھا ہے جو کچھ میں نے اوروں کو بھی دکھلا دے
بھٹکے ہوئے آہو کو پھر سوئے حرم لے چل
اس شہر کے خوگر کو پھر وسعتِ صحرا دے