چلتے رہنا شرط ہے

پاکستان ایک اسلامی فلاحی ریاست ہے اوریہاں شروع سے ہی قومی اور ملی تقاضوں سے ہم آہنگ تعلیمی نظام متعارف کروایا گیا اور سرکاری و نجی اداروں کا قیام عمل میں لایا گیا۔ یہ امر روزِ روشن کی طرح عیاں ہے کہ اقوام کی ترقی کا انحصار تعلیم وترقی سے وابستہ ہے۔ مطالعہ و مشاہدہ اس بات کا غماز ہے کہ گزشتہ ادوار میں بھی تعلیمی اداروں کا قیام‘نصاب سازی اور اساتذہ کی تربیت اولین ترجیح رہی ہے اور 1970ء سے 2017ء تک سات تعلیمی پالیسیاں متعارف کرائی جا چکی ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ انسان ایک معاشرتی حیوان ہے اور یہ بات ہم شروع سے ہی سنتے چلے آرہے ہیں۔ اگرچہ انسان اور حیوان میں کچھ جبلتیں مشترک ہیں مگر انسان کو ایک چیز دوسروں سے ممتاز بناتی ہے اور وہ شعور‘ عقل ودانش اور علم و ہنر اور اس کی فہم و فراست ہے۔ یعنی جاننا ضروری ہے کہ کیا سیکھنے سے انسان مہذب کہلائے گا اور سیکھنے سکھانے کی ذمہ داری کس پر عائد ہوتی ہے؟ جہاں تک سیکھنے سکھانے کی بات ہے تو بچہ پیدائش سے پہلے رحمِ مادر میں ہی سمجھ بوجھ اور احساسات رکھتا ہے‘ آوازوں کی پہچان کر سکتا ہے‘ ماں باپ کی آوازوں کی الگ پہچان رکھتا ہے۔ گویا والدین اور ماحول بچے کی زندگی میں بہت اہمیت رکھتے ہیں۔ ماہرین کا خیال ہے کہ بچے کے پہلے ہزار دن بہت اہم ہوتے ہیں۔ یہ پیدائش سے لے کر تقریباًتین سال بنتے ہیں اور یہی وقت ہوتا ہے جب بچے کی فطرت تشکیل پا رہی ہوتی ہے۔ پانچ سال تک بچہ بول چال اوررشتوں کی پہچان کرناسیکھتاہے اور وہ تقریباً دو ہزار سے تئیس سو الفاظ کو سمجھ اور بول سکتا ہے۔ یہاں یہ بات تو ظاہر ہے کہ بچے کے سیکھنے کا عمل گھرمیں والدین اور خاندان سے شروع ہوتا ہے۔ اسی طرح تعلیم وتدریس کی ذمہ داری پوری دنیا میں انسان کا پیدائشی حق ہے۔ہر ریاست کا بنیادی فرض ہے کہ وہ اپنے شہریوں کو تعلیم کی سہولت مہیا کرے اور ہر تعلیمی پالیسی کے مقاصد کا تعین کرتے وقت قومی ترجیحات اور بین الاقوامی تقاضوں کو مدنظر رکھا جائے‘ اس کی ضرورت و اہمیت کے ساتھ ساتھ قومی یا بین الاقوامی معاشرے پراس کے اثرات کیاہوں گے‘ اس امر کو بھی ملحوظِ خاطر رکھا جائے۔اس کی افادیت ‘موجودہ پیچیدہ معاشرتی رویوں کی درستی میں کس قدر کردار ادا کر سکے گی‘ اس کا فریم ورک کن بنیادوں پر بنایا گیا ہے‘ کیا اس میں اتنی سکت ہے کہ ساری خرابی کو نئی سمت اور ہمہ جہت تعلیم وتربیت کے رہنما اصول مہیا کر سکے؟
یہ جان کر بہت اطمینان ہواکہ ہمارے پالیسی ساز ادارے اس بات سے اچھی طرح آگاہ ہیں کہ خرابی کہاں ہے‘ سرا کہاں سے پکڑنا ہے؟ دراصل تعلیم ہی تبدیلی کا اصل ذریعہ اور بنیاد ہے۔ طلبہ کو درست سمت پر ڈالنے کے لیے ضروری ہے کہ پوری قوم کو ایک راستہ ‘ سمت اور جہت دی جائے۔ مقاصد بہت اعلیٰ ہیں لیکن گزشتہ چار دہائیوں کے دوران دنیا میں جو تبدیلیاں رونما ہوئی ہیں‘ ان کو سمجھنے‘ پرکھنے کی صلاحیت ہمارے معاشرے نے پیدا نہیں کی اور اس امر کی پروا بھی نہیں کی کہ ہمارے ارد گرد جو حالات و واقعات رونما ہو رہے ہیں ‘ہم ان سے مسلسل متاثر ہوتے ہیں۔ ہمارا چھوٹا سا عمل کس ردِ عمل کا پیش خیمہ ہو گا۔ قارئین کی دلچسپی اور اس نہایت اہم اور حساس قومی ضرورت کو محسوس کرتے ہوئے لازم ہے کہ ہم اس پر قومی ہم آہنگی کے لیے اٹھائے گئے اہم اقدام میں پنجاب حکومت کی مدد کریں۔ اس کی تفصیل میں جا کر اہلِ نظر‘ اہلِ بصیرت ماہرینِ تعلیم اور سٹیک ہولڈرز مختلف فورم پر سیمینار منعقد کریں تا کہ اس کی خامیوں کی درستی ہو سکے۔ تمام متعلقہ اداروں اور سٹیک ہولڈرز کی قبولیت دل و جان سے یقینی بنائی جائے۔ یہی وقت ہے کیونکہ ابتدائی مرحلے میں نرسری سے پانچویں تک کا یکساں نصاب متعارف کروایاجا چکا ہے جو موجودہ تعلیمی سال سے لاگو ہو چکا ہے۔ نئے نصاب کے مطابق پرائمری جماعت تک کی کتب کسی حد تک ابتدائی نوعیت کی ہیں ‘امتحانی شیڈول اور ضروری گائیڈ لائنز مہیا کی جا چکی ہیں۔ اساتذہ کی تربیت اور سلیبس سکیم بھی دی جا چکی ہے اور پنجاب کے سرکاری سکولوں پر لاگو ہو چکی ہے۔ اہم بات نجی اور بین الاقوامی نصاب پر چلنے والے سکولوں کی ہے جس پر انواع و اقسام کی بولیاں سننے کو ملی ہیں۔ اس کے علاوہ دینی مدارس کا نصاب ہے جو ہر مکتبِ فکر نے مسلکی انداز سے مرتب کیا ہے۔ کیا اس طرح کے نظامِ تعلیم اور نصاب کو یکسانیت کے راستے پر ڈالنا ایک انتہائی مشکل اور پیچیدہ فیصلہ نہیں؟ تاہم ملی یکجہتی اور یگانگت کے لیے ایک یکساں نظامِ تعلیم کی شدید ضرورت ہے ۔ درحقیقت ہمیں تبدیلی کی ضرورت ہے اور تبدیلی ہمیشہ اپنی ذات سے شروع ہوتی ہے۔ ہم اپنے اپنے معمولات میں سہولت اور آسانی محسوس کرتے ہیں اور خود کو بدلنے پر تیار نہیں‘ حالانکہ تبدیلی چیلنج ہوتی ہے۔ نیا رستہ‘ نئے فکر کے انداز‘تحقیق‘ جستجواور درپیش مشکلات ہمیں روکتی ہیں۔
تمام بچوں کو مساوی تعلیمی موقع مہیا کرنا‘ معاشرتی تنظیم ‘ قومی ہم آہنگی اور سماجی یکجہتی کو ملحوظِ خاطر رکھنا ‘ مختلف مکاتبِ فکر کی سوچوں کو ایک قومی دھارے میں لا کر تعلیم میں عدم تفاوت کی بنیاد رکھنا‘ معاشرہ کے تمام طبقوں کی مساوی ترقی‘ تعلیم میں معیار‘ بچوں کی قومی اور بین الاقوامی امنگوں کی ٹرینڈز کی روشنی میں ہمہ جہت نشو و نماکو یقینی بنایا ہماری قومی ترجیحات میں شامل ہو نا چاہیے۔ اگر مقاصد کی تکمیل میں ہم کامیاب ہو جاتے ہیں تو ہی ہم اندرونی اور بیرونی مسائل کو حل کرنے کی صلاحیتیں بیدار کر سکیں گے۔
دنیا تعلیمی نظام کی بین الاقوامی افادیت کو لے کر چل رہی ہے مگر وطنِ عزیز میں معاملہ اس کے الٹ ہے۔ موجودہ زمانہ نمبروں کی دوڑ سے آگے کا زمانہ ہے۔ یہ سکلز اور گلوبل سٹیزن شپ کا زمانہ ہے۔ آج کا طالب علم انٹرنیشنل کمیونٹی کا ممبر ہے۔ اس کی سوچ‘ اس کا عمل‘ اس کی مہارتیں ‘خواہشات اور اس کی ضرورتیں بھی انٹر نیشنل بن چکی ہیں۔ ہمیں اس چیز کا ادراک نہیں۔ آج جو بچے تیسری جماعت کے طالب علم ہیں آئندہ برسوں میں کس طرح کی دنیا میں جی رہے ہوں گے؟ اکثریت کو اس کا تصور بھی نہیں کہ اگر یہی فرسودہ‘ گلاسڑا بے جان اور اقدار سے خالی نظام مختلف اندازِ فکر و عمل اور نظریات میں بٹا رہا تو قوموں کی برادری میں ہمیں اپنا وجود برقرار رکھنا مشکل ہو جائے گا۔
تعلیمی انحطاط کا تو ہم پہلے سے ہی شکار ہیں اور یونیسف کے اعداد و شمار کے مطابق ترقی پذیر ممالک کے بچے یا تو اپنی تعلیمی مدت پوری نہیں کر پاتے اور تعلیمی سفر مکمل کیے بغیر تعلیمی نظام سے باہر ہو جاتے ہیں اور اگر تعلیمی سال پورے کرتے ہیں تو بھی معیار انتہائی پست ہوتا ہے۔ دنیا دو انتہائوں میں بٹ چکی ہے۔ ترقی یافتہ اور جدید دنیا اپنے رویوں میں توازن اور قومی یکجہتی کے سنہری اصولوں کے باعث دنیا میں اعلیٰ مقام حاصل کر رہی ہے۔ دوسری طرف ترقی پذیر ممالک ہیں‘ جہاں بچوں کی ایک کثیر تعداد سکولوں سے باہر ہے۔ بدقسمتی سے پاکستان میں بھی لگ بھگ دو کروڑ بچے سکول سے باہر ہیں۔ یکساں نصابِ تعلیم ترقی کے بھی مساوی مواقع مہیا کرے گا جس سے ملی یکجہتی ‘مختلف مکاتبِ فکر اور سوچ رکھنے والے افراد اور گروہوں کو گروہی‘ علاقائی‘ رنگ و نسل‘ سیاسی اور مذہبی نظریات سے متاثر ہوئے بغیر اپنی نوجوان نسل کو وقت کے تقاضوں سے ہم آہنگ تعلیم سے آراستہ کرنے میں مدد ملے گی تا کہ وہ اپنے خاندان اور ملک و ملت کے لیے مفید شہری ثابت ہوں‘لہٰذا ضرورت اس امر کی ہے کہ سائنسی علوم میں تحقیق و جستجو کو فوقیت دی جائے اورمستقبل کی ضروریات اور ترجیحات کا از سرِ نو تعین کیا جائے ۔ بچوں کو تنقیدی انداز سے سوچنے اور فیصلے لینے کی تربیت اور اجازت دی جائے۔ دیوار سے اس پار کیا ہے‘ اسے جاننے کی صلاحیت اجاگر کی جائے۔ یکساں قومی نصاب اسی منزل کی طرف جانے والا راستہ ہے۔ گویا سفر کی ابتدا ہو چکی ہے‘ کام تو شروع ہوا‘مسئلے کا احساس تو ہوا۔بات چل نکلی ہے تو کامیابی بھی ضرور ہو گی۔ چین کے بانی رہنما مائو زے تنگ نے کہا تھا کہ ایک ہزار میل پر مشتمل دوڑ بھی پہلے قدم سے شروع ہوتی ہے۔ کسی بھی منزل کی طرف بڑھنے والا پہلا قدم جب اٹھا لیا جائے تو رفتہ رفتہ سفر کٹ ہی جاتا ہے اور نشانِ منزل واضح ہونے لگتے ہیں‘ چلتے رہنا شرط ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں