پاکستان ایک زرعی ملک ہے اور ہماری مجموعی آبادی کا اسی فیصد حصہ زراعت سے بالواسطہ یا بلاواسطہ وابستہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ گائوں یا دیہات میں رہنے والے لوگ دھرتی سے جڑے ہوئے ہیں۔ زمین سے ان کا رشتہ پشتوں سے ہے۔ گائوں کا خیال آتے ہی تصور میں جو نقش ابھرتا ہے وہ کشادگی، سادگی، محبت اور خلوص کا ہے۔ گائوں کوئی بھی ہو، فطرت کے حسین نظارے دل و دماغ کو مسحور کن حد تک تازگی بخشتے ہیں۔ ہمارے پیارے وطن کو اللہ تعالیٰ نے قدرتی حسن کے بیش بہا خزانے بخشے ہیں۔ اگر شمال سے شروع کریں تو چترالی زبان، لباس، رسم ورواج، خوبصورتی اور دلکشی کی مثال ملنا مشکل ہے۔ حسین وادیاں، لہلہاتے کھیت، پھلوں کے باغات، دریا اور جھرنے، گائوں کے لوگ، ان کی محبت و خلوص، باہمی میل جول پہاڑوں اور وادیوں میں بسنے والوں کی مہمان نوازی، قدیم کیلاش قبیلے کا اپنا منفرد ثقافتی ورثہ اور تہذیب و تمدن دنیا کے کسی ملک میں شاید ہی کہیں اور ملے۔ گلگت اور چترال کے بلند ترین مقام پر شندور میلہ اور پولوگرائونڈپوری دنیا میں اپنی نوعیت کا منفرد کھیلوں کا مقابلہ ہے۔ دریائے کنٹر (دریائے چترال) ہمارے شمال میں رہنے والے جفاکش، پہاڑوں کا سا عزم و ہمت اور استقامت رکھنے والے پرکشش اور خوبصورت لوگ، لوک موسیقی، وعشقیہ و رمزیہ گیت، لوک داستانیں، بہادروں کے جنگی کارنامے اور حملہ آوروں کے حملے پسپا کرنے کیلئے قلعوں کی تعمیر کی داستانیں آنے والے سیاحوں کو سنا رہا ہے۔
حیر ت انگیز بات ہے کہ یہاں دنیا بھر سے سیاح اور کو ہ پیما اپنے شوق اور جذبوں کی تکمیل کیلئے ہر سال آتے ہیں‘ پورے خطے میں ان کی ضرورت کے سامان کی دکانیں بھی موجود ہیں مگر یہاں کے لوگ اپنی تہذیب اور ثقافت سے پیوست ہیں۔ غربت اور ناکافی سہولیاتِ زندگی کے باوجود جرائم نہ ہونے کے برابر ہیں۔ تھانے کچہری کا کلچر بالکل نہیں ہے۔ مل جل کر رہنے اور کمیونٹی کا خیال رکھنے کا فیصلہ انہوں نے اپنے طور پر کیا تھا۔ یہاں پر دنیا کا سب سے بڑا سرد صحرا‘ سر فرنگا میلوں تک پھیلا ہواہے۔ سطح سمندر سے اٹھارہ ہزار میٹر کی بلندی پر دیوسائی کا میدان‘ 37کلومیٹر تک تاحدنظر جنگلی پھولوں کے رنگ، یہ فطرت کا وہ نظارہ ہے جو ہر انسان پر سحر طاری کر دیتا ہے۔ دریائے چترال یہا ں پر دریائے شیوک میں شامل ہو کر لداخ اور نانگا پربت کے پائو ں کو چھوتا ہوا جب خیبرپختونخوا میں داخل ہوتا ہے تو اباسین کہلاتا ہے۔ یہی اباسین جب پنجاب اور سندھ کے میدانی علاقوں سے گزرتا ہے تو قدیم آبادیوں اور بستیوں، گائوں، گوٹھوں، بانڈوں اور ڈھوکوں، قصبوں اور شہروں کی کہانیاں اپنے ساتھ ساتھ لیے پھرتا ہے۔ جب پنجاب کے جہلم، چناب، ستلج اور راوی کو چھوتا ہے تو جو حسن اور محبت پہاڑوں نے اس کے سپر د کی ہوتی ہے، اس کی آمیزش اور سفر کی داستانیں اور اپنا پن گلگت بلتستان، خیبرپختونخوا، پنجاب، بلوچستان اور بالآخرکراچی، ٹھٹھہ اور گوادر سے مچھیروں کے گوٹھوں اور بستیوں کی خوشی اور رنج پورے پاکستان کے ترجمان اور سفیر بن کر بحر ہند کے وسیع اور گہرے دامن میں ڈال دیتے ہیں اور ساگر اپنی فطرت کے مطابق سب کا راز سینے میں چھپا کر بظاہر بارعب اور پُر سکون نظر آتا ہے۔
پاکستان کو ربّ عظیم نے ہر ہر نعمت سے نوازا ہے۔ گائوں، قصبے اور میڑو پولیٹن شہر ہوں یا بلوچستان اور سندھ کے خوبصورت ساحل اور ساحلوں پر بسنے والوں کے رزق کے حصول کے ذرائع نقل وحرکت اور صحت و صفائی کا نظام، گائوں کے باسیوں کے اندازِ زندگی اور بندگی کے بارے میں فکر وفلسفہ اور باہمی یکجہتی کے حسین مظاہر، معاشرتی و معاشی ترقی کے تصورات اور موجودہ ترقی یافتہ دور کے ساتھ ہم آہنگی، معاشرتی تہذیبی ارتقا کا مقابلہ کرنے کی قابلیت‘ تربیت اور صلاحیتیں جن کا سمجھنا، جاننا اور جانچ پڑتال کرناہر فرد کا اولین فریضہ ہے۔ میدانی علاقوں، وسیع وعریض کھیتوں اور لہلہاتی فصلوں کے ساتھ ساتھ سرسبز وادیوں، پہاڑوں، مرغزاروں اور منفرد اوصاف کے حامل قبیلوں اور خاندانوں نے دھرتی کو وہ رونق بخشی ہے کہ گائوں کے بسنے والوں نے اپنے ورثے کو سینے سے لگا رکھا ہے۔ گو مشکل راستہ ہے مگر جدیدیت نے اپنا اثر دوردراز بسنے والوں پر بھی ڈالا ہے۔ لوک داستانوں، بودوباش، لباس، خوراک، فوک موسیقی، گلوکار، شعرا اور فنونِ لطیفہ کے حامل ورثہ اور یہاں کے باشندوں کی اکثریت کو متاثر کیا ہے۔ غیر محسوس طریقے سے رویوں اور سوچوں کو روپے پیسے کی حرص نے یکجا کر کے سوچوں کے زاویے کو بدل کر رکھ دیا ہے۔
اگر تذکرہ گائوں کی ثقافت، تمدن، فنِ تعمیر، عادات واطوار، رسم ورواج، زبان و ادب، تہذیبی ورثے، لباس اور خوراک کا ہو تو انواع واقسام اور جغرافیائی اعتبار سے یہ الگ الگ ہوں گے مگر ایک چیز جو مشترک نظر آتی ہے وہ ہے سادگی اور بے تکلفی اور یہی بے ساختہ پن گائوں اور شہروں میں بسنے والوں میں تفریق کرتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ ہر خطے میں بسنے والوں کے غذائی ضروریات مختلف ہوتی ہیں اور لباس، موسموں کی تبدیلی اور سختی سے بچنے اور ماحول سے ہم آہنگ ہونے کی وجہ سے منفردہوتا ہے‘ عادات واطوار بھی اس نسبت سے الگ الگ سانچے میں ڈھلی ہوتی ہیں۔ اگر بات پاکستان کے دیہات کی ہو تو یہاں مختلف پیشے اور ملازمت اختیار کرنے کے مواقع موسموں اور علاقائی تبدیلیوں کے اعتبار سے ہوں گے۔ اگر سرد علاقوں کے گھروں کو دیکھا جائے تو چھتیں نیچی، دروازے کھڑکیاں بھی کم ہوں گی اور لمبائی اور چوڑائی اوسط درجے کی ہوگی۔ خوراک میں گوشت اور خشک میوہ جات، پنیر، قہوہ، سبزیا ں اور خشک گوشت وغیرہ جبکہ لباس موٹے اور اونی ہوں گے، جانوروں میں بھی بھیڑ‘ بکری اور گائے قد کاٹھ میں کم ہوں گی۔ میدانی علاقوں اور بارانی علاقوں میں اسی طرح گھروں کی ساخت مختلف ہو گی۔ بڑے بڑے کمرے اور ان کے آگے برآمدے، کھلے صحن اور ڈیوڑھی اور لکڑی کے بڑے بڑے خوبصورت بیل بوٹوں سے کندہ دروازے اور روشن دان، لان اور کاٹن کے ہلکے پھلکے لباس، گرمیوں میں لسی، بادام کا شربت، دودھ، دہی اور رسیلے آم اور امرود، سردیوں میں مالٹا و موسمبی، سبزیوں کی پیداوار اور ترسیل، کھلے ڈھلے کھیتوں میں کام کرنے والے کسان، سادہ اور عام فہم انداز میں زندگی کے رموزکو جب بیان کرتے ہیں تو بات کا یقین ہونے لگتا ہے کہ سینہ بہ سینہ منتقل ہونے والا علم ودانش، دانائی اور حکمت، زمین سے اگنے والے اناج کی طرح ایک رزق ہی ہے جو خالص دیسی ہے۔ جس میں مٹی کی خوشبو اور نرالا پن ہے۔
اسی طرح سندھ کے کچے پکے مکانوں اور گھاس پھوس سے بنے گھروں اور کھیتوں میں کام کرنے والے کسان مرد وزن سادہ اور گہرے رنگ کے ملبوسات زیب تن کیے نظر آئیں گے۔ چاول، سرخ چاول کی روٹی، مچھلی کا سالن، لسی، دودھ، دہی اور مشربات ان کی مرغوب غذائیں ہوں گی۔ شیشے کے کام کے نادر نمونے بلوچ اور سندھی کلچر کی نمایاں دستکاری کی مصنوعات ہیں۔ اگر ذکر پشتون کلچر کا ہو تو چپلی کباب، تکہ اور گوشت سے تیار ہونے والے کھانوں میں پشاور اور خیبر پختونخوا کا نام ہی دماغ میں آتا ہے۔ پشتوموسیقی‘ بہادر اور شجیع، محب وطن، مہمان نواز، سادہ اور محنت کش لوگ۔ یہاں کے دیہاتوں کی سادہ خوراک دیسی گھی، پنیر اور بڑے تندوری نان ہیں۔ گھروں میں فرشی نشست اور حجروں میں قالین اور گدے پر بیٹھنے کا رواج ہے۔ رباب یہاں کا معروف ساز ہے۔ بلوچ قبیلوں کے لوگ اپنی روایات کے مطابق مختلف علاقوں میں رہنے کوترجیح دیتے ہیں۔ سادگی اور قبیلے کے فیصلے یہاں کے باشندوں اور برادری کیلئے بہت اہمیت رکھتے ہیں۔ بلوچ قوم، گوشت، سجی، دنبے کا گوشت اور خشک گوشت، تازہ خشک میوہ جات کو پسند کرتی ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستانی ایک لڑی میں پروئے ہوئے گوہر ویاقوت ہیں جو الگ الگ رنگ اور ساخت کے باوجود ایک وحدت ہیں۔ یہ قوس قزح کے رنگ ہیں، ہر رنگ نرالا اور دلکش ہے۔ ہمارے لیے سب سے اہم بات یہ ہے کہ کیا ملک کے چار سو پھیلی ان نعمتوں کا ہمیں کوئی ادراک بھی ہے یا نہیں؟