ریاست جموں و کشمیر کی حیثیت اور اہمیت کو سمجھنے کے لیے بر صغیر کے نقشے کا بغور جائزہ لینا ضروری ہے۔ اسی سے کشمیر کی جغرافیائی اور نظریاتی افادیت واضح ہوتی ہے۔ کشمیر عظیم کوہِ ہمالیہ کی گود میں جنت کا ایک ٹکڑا ہے۔ جنوب مشرق میں لداخ‘ شمال میں چین اور مغرب میں سکردو کے ذریعے یہ پاکستان سے جڑا ہوا ہے۔ اس کی دفاعی اہمیت اپنی جگہ‘ برصغیر کی زراعت اور آبپاشی کا انحصار بھی یہاں سے نکلنے والے دریائوں پر ہے۔ مسلم اکثریتی ریاستوں کی طرح اسے بھی پاکستان یا بھارت میں سے ایک کے ساتھ الحاق کا حق دیا گیا مگر ریڈ کلف بائونڈری کمیشن نے پنجاب کی تقسیم کے وقت مسلم اکثریتی اضلاع گورداسپور اور امرتسر کو بھارت میں شامل کر دیا اور یوں کشمیر جانے کا واحد راستہ پٹھانکوٹ مل جانے کے بعد ہندو راجہ ہری سنگھ سے سازباز کر کے کشمیر کا سودا کر لیاگیا ۔ جموں و کشمیر میں مسلمانوں کی اکثریت تھی اور مسلم آبادی کا تناسب ستانوے فیصد تھا مگر تقسیم سے پہلے‘ ڈوگرہ راج میں بھی انتظامیہ نے عوام پر زندگی کا قافیہ تنگ رکھا۔ یہی وجہ ہے کہ اپریل 1931ء میںکشمیر کی آزادی کی تحریک کا آغاز ہوا اور بعدازاں سرینگر سے شروع ہونے والی یہ تحریک اس وقت زور پکڑ گئی جب عبد القدیر خان نامی ایک نوجوان کو راجہ کے خلاف بغاوت کے جرم میں حراست میں لیا گیا۔ 13جولائی 1931ء کو عدالت کے باہر مسلمان مقدمے کی سماعت کے لیے اکٹھے ہوئے اور یہیں پر ظہر کی اذان مکمل کرنے کے دوران 21 کشمیری نوجوان ڈوگرہ فوج کی گولیوں کا نشانہ بن کر شہید ہوئے جنہیں مزارِ شہیداں میں اکٹھا دفنایا گیا۔ اس دن کی اہمیت کشمیرکی آزادی کی کوششوں اور لازوال قربانیوں کی تاریخ میں انمٹ رہے گی۔ اسی موقع پر علامہ اقبال رکن کشمیر کمیٹی اور بعد ازاں تحریک کے صدر بنے اور ہری سنگھ کے خلاف مظاہرے برصغیر کے طول و عرض میں پھیل گئے۔
کشمیری پچھلے اکانوے برس سے ظلم و بربریت کے خلاف جدوجہد کر رہے ہیں۔ قوموں کی زندگیوں میں آزادی کے لیے ایک صدی تک جہدِ مسلسل کی دنیا بھر میں شاید ہی کوئی اور مثال ملتی ہو۔ کیا ستم ہے کہ 1947ء میں مسلم اکثریتی ریاست کے عوامی خواہشات کے برعکس بھارت سے الحاق کی سازش رچائی گئی؛ البتہ ریاست کی الگ حیثیت کو اس معاہدے میں بھی تسلیم کیا گیا تھا۔آزادی کے متوالے پہاڑوں میں ڈوگر ہ فوج کو پسپا کر کے پونچھ اور مظفر آباد تک پہنچ گئے تو بھارت نے اپنی فوجیں کشمیر میں اتار دیں جو آج تک وادی پر قابض ہیں۔ دوسری طرف بھارت اس تنازع کو اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل میں لے گیا اور جنگ بندی کا مطالبہ کیا۔ سلامتی کونسل نے قرار داد منظور کر لی اور فیصلہ کیا کہ کشمیریوں کو حقِ خود ارادیت دینے کیلئے استصوابِ رائے کرایا جائے گا مگر بھارت کی ہٹ دھرمی کے باعث یہ ممکن نہ ہو سکا۔ ادھر پاکستان نے آزاد کشمیر کی ریاستی خود مختاری اور جدا حیثیت کو نہ صرف برقرار رکھا بلکہ مقبوضہ کشمیر کے لیے بھی ہر فورم پر آواز اٹھائی۔ مقبوضہ کشمیر میں دو دہائیوں سے زائد کی سیاسی کشمکش کے بعد اندرا‘ عبداللہ اکارڈ کے نام سے ایک معاہدہ طے پایا جس میں شیخ عبداللہ کو کشمیر کے الگ وزیر اعظم کے بجائے وزیر اعلیٰ پر راضی کر لیا گیا‘ اس پر پاکستان کی حکومت نے شدید احتجاج کی کال دی اور پھر 28 فروری 1975ء کو پاکستان اور مقبوضہ کشمیر میں بھرپور احتجاج کیا گیا۔ معروف کشمیری مصنف محمد فاروق رحمانی لکھتے ہیں کہ اس دن سرینگر میں ہو کا عالم تھا اور سڑکیں بالکل سنسان تھیں۔
تنازعِ کشمیر جنوبی ایشیا سمیت دنیا بھر کا سب سے بڑا مسئلہ ہے جس پر بھارت اور پاکستان کے مابین تین جنگیں ہو چکی ہیں اور جو دو نیوکلیئر طاقتوں کے مابین فلیش پوائنٹ ہے۔ دسمبر1988ء میں اسلام آباد میں سارک کانفرنس منعقد ہوئی جس میں بھارتی وزیراعظم راجیو گاندھی نے شرکت کی تھی۔ اس میں پاک بھارت تعلقات کی بحالی کی کوششوں کا اعادہ کیا گیا مگر مشترکہ اعلامیے میں راجیو گاندھی نے کشمیر میں استصوابِ رائے کرانے اور اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل کی منظور شدہ قرار داد پر عمل پیرا ہونے کو یکسر مسترد کر دیا۔ پاکستانی قوم نے اس پر شدید غم و غصے کا اظہار کیا اور احتجاج کی کال دے دی۔ کشمیری رہنماسردار ابراہیم‘ جو صدر آزاد کشمیر بھی رہے‘ کی تجویز پر جماعت اسلامی کے امیر قاضی حسین احمد نے 5 فروری کو یومِ یکجہتی کشمیر منانے کا اعلان کیا، بعد ازاں وزیراعظم بے نظیر بھٹو کی توثیق سے پانچ فروری کو ملک بھر سمیت عالمی سطح پر یومِ یکجہتی کشمیر منایا گیا۔ یوں 1990ء سے ہر سال 5 فروری کوپاکستانی قوم کشمیریوں کے حوصلے‘ ہمت اور استقلال کے لازوال جذبے کو خراجِ عقیدت پیش کرتی ہے۔
بدقسمتی سے مقبوضہ کشمیر پر بھارت کا رویہ ہمیشہ متعصبانہ رہا ہے۔ 5 اگست 2019ء کو بھارتی اسمبلی نے اکثریتِ رائے سے لداخ اور کشمیر کی الگ خود مختار حیثیت کو ختم کر دیا۔ نریندر مودی کی فسطائی پالیسیوں نے مقبوضہ کشمیر کے عوام کو موت کی وادی میں قید کر دیا۔ گیارہ لاکھ ریگولر آرمی کی موجودگی میں آر ایس ایس کے غنڈوں نے مقبوضہ کشمیر میں خون کی ہولی کھیلی‘ بچوں اور نوجوانوں کو پیلٹ گنوں سے نشانہ بنایا گیا‘ حریت رہنمائوں کو بھارت کی بدنام زمانہ تہاڑ جیل کے عقوبت خانوں میں تختۂ مشق بنایا گیا۔ سید علی شاہ گیلانی سمیت کئی رہنمائوں کو گھروں اور جیلوں میں بند رکھاگیا‘ یہاں تک کہ بھارت نواز رہنما عمر عبداللہ اور محبوبہ مفتی بھی چیخ اٹھے اور قائد اعظم محمد علی جناح کے دو قومی نظریے کی حقانیت تسلیم کرنے پر مجبور ہو گئے۔ بھارت نے ہمیشہ سب سے بڑی جمہوریت کا راگ الاپا ہے مگر مودی حکومت نے ثابت کیا کہ بھارت ایک انتہا پسند ریاست ہے جس کے ریاستی جبر اور دہشت گردی سے مسلمانوں کے علاوہ سکھ اور دیگر اقلیتیں بھی محفوظ نہیں۔ کشمیر میں استصوابِ رائے کرانے کے بجائے طاقت کے استعمال سے اس کو یونین آف انڈیا کا حصہ بنا کر ہڑپنے کی کوشش کی گئی مگر کشمیری عوام کے ردِ عمل کے ڈر سے کرفیو نافذ کر کے لا ک ڈائون اور بدترین ریاستی تشدد کا آغاز کیا گیا۔ تمام ذرائع ابلاغ پر پابندی عائد کر دی گئی اور بنیادی حقوق تک سلب کر لیے گئے مگر اس کے باوجود کشمیریوں کے جذبۂ آزادی کو ماند نہیں کیا جا سکا۔ پاکستان نے اقوامِ متحدہ میں بھارت کے اس گھنائونے اقدام کو سختی سے رد کیا‘ وزیر اعظم عمران خان نے مودی حکومت کی ہند توا سوچ اور آر ایس ایس کو نازیوں کے ساتھ تشبیہ دیتے ہوئے کشمیریوں کا مقدمہ خود لڑنے اور اسے بین الاقوامی سطح پر اجاگر کرنے کی ذمہ داری اٹھائی اور اقوامِ متحدہ کو باور کرایا کہ اگرمسئلہ کشمیر کا پُرامن حل نہ نکالا گیا تو دنیا اس کے بھیانک اثرات سے محفوظ نہیں رہ سکے گی۔
بھارت بحیثیت ریاست جھوٹا پروپیگنڈا کرکے اور تحریک حریتِ کشمیر کو دہشت گردی سے جوڑ کر دنیا کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کی کوشش کر رہا ہے۔ اس نے جعلی سرجیکل سٹرائیک کا ڈرامہ رچا کر بالاکوٹ پر درخت اور کووں کو نشانہ بنا کر اپنی جارحانہ سوچ کا مظاہرہ کیا۔ 27 فروری 2019ء کو ابھینندن مگ 21کے ساتھ حملہ آور ہوا مگر ہمارے شاہینوں نے اسے ناکام بناتے ہوئے جنگی قیدی بنا لیا اور بعد ازاں وہ پاک فضائیہ کی پیشہ ورانہ سوچ اور اعلیٰ اخلاقی قدروں کو سراہتے ہوئے واہگہ کے راستے رخصت ہوا۔ چین ہو یا نیپال‘ سری لنکا ہو یا بنگلہ دیش‘ تمام ہمسایہ ممالک بھارت کے رویے سے نالاں رہتے ہیں۔ دنیا کو کان اور آنکھیں کھول کر کشمیریوں کی آواز کو سننا اور ڈھائے جانے والے مظالم کو غیر جانبداری سے دیکھنا ہو گا۔ وادیٔ کشمیر کے دریا بھارت کے میدانوں کو سیراب تو کر رہے ہیں مگر ستم ظریفی یہ ہے کہ مہذب دنیا کو جلتے چنار اور دریائے جہلم کے پانیوں میں نہتے کشمیری مسلمانوں کا خون نظر نہیں آتا۔ جنت نظیر وادی کے جلتے چناروں اور اجڑی بہاروںکے اسباب کا کھوج لگانا اور بھارتی ظلم و بربریت کی روک تھام کے لیے عملی اقدامات کرنا بین الاقوامی برادری بالخصوص اُن عالمی طاقتوں کی ذمہ داری ہے جو ہمہ وقت امنِ عامہ، انسانی حقوق اور جمہوریت کے فروغ کا دم بھرتی رہتی ہیں۔ قول و فعل میں موجود یہ کھلا تضاد دراصل عالمی نظامِ انصاف پر سوالیہ نشان ہے اور جنوبی ایشیا میں پائیدار امن اور خوشحالی کے راستے کی سب سے بڑی رکاوٹ بھی۔