عوام کا ٹیکس عوام کیلئے

vمحفل ِیاراں ہو یا شادی بیاہ کی تقریب‘ چوک چوراہے پر ہونے والی گفتگو ہویا کسی ڈرائنگ روم میں بیٹھے مفکرین کی فکرواستدلال سے لبریز بحث و تکرار ‘ زیرِ بحث موضوع ملکی تعمیر و ترقی اور اس کو درپیش مسائل کے اردگرد گھومتا ہے۔ یہی حال سوشل میڈیا پر اپنے علم وفضل او ر فلسفے سے متاثر کرنے والے صاحبان کا ہے۔ اپنی دلیل میں وزن ڈالنے اور سامنے بیٹھے ہوئے مجھ جیسے کم گو اور بظاہر کم علم رکھنے والے سامعین پر رعب جھاڑنے کیلئے خود ساختہ افلاطون فوراً یورپ ‘ امریکہ‘ برطانیہ اور آسٹریلیا پہنچ جاتے ہیں‘ اپنے ذاتی تجربات ‘ مشاہدات اور وہاںدورے کے دوران پیش آنے والے واقعات کو بہت دلکش انداز میں بیان کرتے نظر آتے ہیں۔ ان ممالک کی چکا چوند روشنیاں‘ فلک بوس عمارات‘ معاشی خوشحالی‘سیاسی استحکام‘ موٹر ویز کے بچھائے گئے جال‘ سیروسیاحت کے دلآویز مقامات‘ نقل وحمل کیلئے موجود اعلیٰ ذرائع نقل و حمل ‘وقت پر چلنے والی ریل گاڑیاں اور ٹریمزاُن کی گفتگو کے مرکزی نکات ہوا کرتے ہیں۔ کچھ احباب کو الفاظ کے چنائو ‘خیالات کے رچائو اور اندازِ بیان منفرد ہونے کی وجہ سے دوسروں پر واضح برتری حاصل ہوتی ہے لہٰذا وہ ان ترقی یافتہ اقوام کی تعریف و ستائش میں زمین و آسمان ایک کردیتے ہیں۔ اس امر میں کوئی شک نہیں کہ وہاں ترقی کی رفتار بے مثال ہے اور ان ممالک میں عوام کیلئے دودھ اور شہد کی نہریں نکالی جا چکی ہیں۔ زندگی کی تمام سہولیات کو یقینی بنانا ان حکومتوں نے اپنی اولین ترجیح بنالی ہے اور اس پر کسی بھی قسم کا سمجھوتا نہیں کیا جاتا۔ حکومت کسی بھی سیاسی پارٹی کے پاس چلی جائے اور کو ئی بھی حکمران مسندِ اقتدار پر براجمان ہو جائے‘ عوام کی فلاح وبہبود دوسری چیزوں پر مقدم رہتی ہے ۔
مگر اس قابلِ رشک معاشی خوشحالی‘ بے مثال تعمیروترقی‘ داخلی استحکام اور کامیاب خارجہ پالیسی کے پیچھے ان ترقی یافتہ معاشروں میں رائج کردہ اک مضبوط ‘ مربوط‘ قابلِ اعتبار ‘ شفاف اور خود کار ٹیکس نظام ہے جس کی وجہ سے اس ملک کا ہر شہری اپنی آمدن‘ اثاثہ جات اور ذرائع کے مطابق قومی خزانہ میں اپنا حصہ ڈالتا ہے۔ اپنی چھوٹی سے چھوٹی خریداری سے لے کر بڑی انویسٹمنٹ تک وہ ریاست کو ٹیکس ادا کرنا اپنا اولین فرض سمجھتا ہے۔ وہاں کیش میں لین دین تقریباً ناممکن ہے۔پلاسٹک منی کی بدولت وہاں کی معیشت مکمل طور پر دستاویزی ہے اور ہر فرد کی خرید و فروخت کا جملہ ریکارڈ وہاں کے ٹیکس حکام تک از خود پہنچ جاتا ہے۔ پھر خود کارٹیکس کا نظام اُن کے ذرائع ‘ آمدن اور اخراجات کی معلومات پر مبنی ایک ناقابلِ تردید ثبوت کے ساتھ ان پر واجب الادا ٹیکس کا تخمینہ لگاتا ہے اور ان کی ای میل میں پہنچا دیا جاتاہے۔ وہاں سالانہ ٹیکس گوشوارہ جمع کرانا لازم ہے۔ اس کے ساتھ ریاست کا ٹیکس ادا کرنا وہاں قانونی ذمہ داری کے ساتھ ساتھ اعلیٰ اخلاقی اقدار کا لازمی جزوبھی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ٹیکسز سے حاصل ہونے والی اس خطیر رقم کو منتخب حکومتیں عوام کی فلاح و بہبود اور بہترین انتظام وانصرام پر خرچ کرتی ہیں اوراس سے ملک میں تعلیم‘ صحت‘ روزگار اور تعمیر و ترقی کے تمام دروازے عوام کیلئے کھولے جاتے ہیںاور پھر وہ معاشرے ہمارے جیسے پسماندہ اور ترقی پذیر ممالک کی عوام کیلئے قابلِ تقلید مثال بن جاتے ہیں۔
اب ذرا بائیس کروڑ نفوس سے زائد پر مبنی اپنے وطنِ عزیز کے ٹیکس نظام پر نظر ڈالتے ہیں۔ ہمارے ہاں محض اکتیس لاکھ افراد اپنا سالانہ انکم ٹیکس گوشوارہ جمع کرواتے ہیں‘ جن میں گیارہ لاکھ فائلرز ایک روپیہ بھی ٹیکس ادا نہیں کرتے۔ نو لاکھ ٹیکس گزار اپنے گوشوارے کے ساتھ پانچ ہزار یا اس سے کم ٹیکس ادا کرتے ہیں۔ بقیہ دس لاکھ میں سے لگ بھگ اسی فیصد تنخواہ دار طبقہ ہے جن کے تنخواہ کی ادائیگی سے قبل واجب الادا ٹیکس قومی خزانے میں جمع کروالیا جاتا ہے۔ اس طرح صرف ڈیڑھ دو لاکھ افراد ہی ہیں جو اپنے کاروبار یا دیگر ذرائع آمدن پر ٹیکس ادا کرتے ہیں۔ فکری استدلال اور علم و فضل پر مبنی گفتگو کے ماہرین کے ٹیکس معاملات دیکھیں تو پتہ چلے گا کہ یا تو وہ سرے سے ٹیکس ادا ہی نہیں کرتے اور چند روپے قومی خزانے میں جمع بھی کرواتے ہیں تو ان کے لائف سٹائل اور آمدن کے مقابلے میں وہ انتہائی کم رقم بنتی ہے۔ ٹیکس چوری عام ہے اور اس کیلئے حساب کتاب میں ہیرا پھیری کے ان گنت اور منفرد طریقے موجود ہیں۔ اب ان میں جدت لا ئی جا چکی ہے اور اپنے کاروبار کے ساتھ نصب کیا گیا کمپیوٹر کا نظام بھی اسی سلسلے میں بطور آلہ کار استعمال کیا جانے لگا ہے۔ ایف بی آر کے پاس ناقابلِ تردید شواہد آ چکے ہیں جن میں لاکھوں افراد کے اثاثہ جات‘ سفری معلومات‘ ذرائع آمدن اور اخراجات کی مکمل تفصیل موجود ہے۔ ملکی ٹیکس نظام میں جدت‘ شفافیت اور استحکام لانے کیلئے ایف بی آر دن رات کوشاں ہے اور یقینا قومی خزانے میں محصولات بڑھانے اور ملکی معیشت کو قرضوں کے بوجھ سے آزاد کروانے کیلئے وطنِ عزیز پاکستان میں اک خود کار اور قابلِ اعتبار ٹیکس کا نظام ناگزیر ہو چکا ہے۔ ہماری کیش پر مبنی معیشت کو دستاویزی بنانا وقت کی اولین ضرورت ہے اور اس سلسلے میں ایف بی آر نے گزشتہ کچھ عرصہ میں چند ایک کلیدی فیصلے کئے ہیں تا کہ ملک میں اک مربوط‘ مضبوط اور شفاف ٹیکس نظام رائج کیا جا سکے جس سے ہماری معیشت اپنے پائوں پر کھڑی ہو سکے اور ہم معاشی طور پر خوشحال‘ خود مختار اور خود ار بن سکیں۔
ٹیکس کلچر کو سمجھنے کیلئے اک اور ٹھوس مگر آسان فارمولا موجود ہے اور وہ ہے ٹیکس بلحاظ مجموعی قومی پیداوار کا تناسب جسے عام طور پر ٹیکس ٹو جی ڈی پی شرح کے طور پر جانا جاتا ہے۔ جن ترقی یافتہ اقوام اور مہذب معاشروں کی ہم مثالیں دیتے تھکتے نہیں‘ وہاں یہ شرح کافی زیادہ ہے کیونکہ وہ عوام ٹیکس کی ذمہ داری میں کوتاہی نہیں کرتے اور اسے اپنا فریضہ جان کر انجام دیتے ہیں۔ گزشتہ چند سالوں سے فرانس اور ڈنمارک کے مابین مجموعی قومی پیداوار پر سب سے زیادہ ٹیکس ادا کرنے والی اقوام میں پہلی پوزیشن کے حصول کا مقابلہ جاری ہے جو کہ 43فیصد کے لگ بھگ ہے۔ اسی طرح امریکہ‘ کینیڈااور آسٹریلیا میں یہ تناسب 30فیصد سے زائد ہے۔ یورپ کا کوئی ملک ایسا نہیں جہاں یہ شرح 20 فیصد سے کم ہو۔ اب ذرا اپنا گریبان جھانکتے ہیں اور دیکھتے ہیں کہ ہم کہاں کھڑے ہیں؟
جنوبی ایشیا کے ممالک میں سب سے آگے مالدیپ ہے جہاں یہ شرح 19فیصد ہے اورپھر بھوٹان16فیصد کے ساتھ دوسرے نمبر پر ہے۔ اس کے بعد سری لنکا اور بھارت ہے۔ پاکستان اور بنگلہ دیش 10فیصد کے آس پاس ٹیکس جمع کرتے ہیں ۔ آپ خود اپنے دل پر ہاتھ رکھیں‘ ذرا سوچیں کہ ہم محض گفتار کے غازی ہیں۔ لچھے دار گفتگو کرنا‘ دعوے‘ وعدے‘ دشنام طرازی اور افوا ہ سازی میں ہمارا شاید ہی کوئی ثانی ہو مگر جب بات ہو قومی تعمیر و ترقی اور معاشی خوشحالی کی تو صرف حکومت ِ وقت کو برا بھلا کہہ کر خود پتلی گلی سے نکل جاتے ہیں اور اپنے حصے کا ٹیکس ادا کرنے سے پہلو تہی کرتے رہتے ہیں۔اس طرزِ عمل کا نتیجہ ہمارے سامنے ہے۔ دنیا کی تقریباً تمام نعمتوں اور قدرتی وسائل سے مالامال ہمارا ملک آج اندرونی و بیرونی قرضوں کے بوجھ تلے رینگ رہا ہے اور ہم محض تماشا دیکھ رہے ہیں۔
یہ خوش آئند امر ہے کہ ایف بی آر نے ان تمام مسائل اور گمبھیر رکاوٹوں کے باوجود گزشتہ مالی سال کے اختتام پر نہ صرف چار ہزار ارب کے محصولات اکٹھے کرنے کا نفسیاتی ہدف کامیابی سے عبور کیا بلکہ 4745ارب روپے کی خطیر رقم کا ٹیکس اکٹھا کر کے اک نئی تاریخ رقم کی۔ موجودہ مالی سال کیلئے حکومت نے ایف بی آر کو 5829ارب کا بہت بڑا ٹارگٹ دے رکھا ہے ‘جسے ایف بی آر نے پہلے آٹھ ماہ میں نہ صرف کامیابی سے حاصل کیا بلکہ مطلوبہ ہدف سے زائد 270ارب کے محصولات جمع کر کے سب کو ورطہ ٔحیرت میں ڈال دیا ہے۔ اس پر ایف بی آر کی قیادت جہاں دادو تحسین کی مستحق ہے وہاں وزیراعظم بھی کھل کر ایف بی آر کی شاندار کارکردگی کو واشگاف الفاظ میں سراہتے نظر آتے ہیں۔یہ امر روزِ روشن کی طرح عیاں ہے کہ ترقی یافتہ اقوام کی طرح اگر عوام سے لیا گیا ٹیکس عوام کی فلاح و بہبود اور ملکی تعمیر و ترقی پر پوری دیانتداری سے خرچ کیا جائے تو وطنِ عزیز میں معاشی خوشحالی کے سنہرے دور کا آغاز ہو سکتا ہے۔ مگر کیا ہم اپنے حصے کا واجب الادا ٹیکس قومی خزانے میں رضاکارانہ طور پر جمع کروانے کے لئے تیار ہیں؟ یہ سب سے اہم سوال ہے جس کا جواب میں آپ پر چھوڑتا ہوں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں