فرشتوں سے بہتر ہے انسان بننا

بیسویں صدی میں اپنی زندگی خدمتِ انسانیت کیلئے وقف کرنے والے افراد میں دو نام پاکستان کی تاریخ میں ہمیشہ امر رہیں گے۔ دونوں نے دکھی انسانیت کی خدمت اور علاج کیلئے ذاتی زندگی کو تیاگ دیا۔ عبدالستار ایدھی اور بلقیس ایدھی ایسے معتبر نام ہیں جن کی نظیر نہیں ملتی۔ انسانیت کی خدمت وہ اعلیٰ اور ارفع مقصد ہے جس کے سامنے دنیاوی زندگی کی حقیقت بھی دم توڑتی نظر آتی ہے۔ جب ہم زندگی کسی بڑے مقصد کے حصول میں وقف کر دیتے ہیں تو دنیاوی آسائشوں اور سہولتوں کی اہمیت ختم ہو جاتی ہے۔ عمومی طور پر ہم ہیروز ان لوگوں کو مانتے ہیں جولوگوں کی زندگیوں کی حفاظت اور سماوی آفات سے نمٹنے میں مستعدی دکھاتے ہیں مگر کچھ بہادر لوگ ایسے بھی گزرے ہیں جوانسانیت کے لازوال رشتے میں جڑے اور اپنا گھر، رشتے، گھریلو راحت اور آرام کو چھوڑ کر دکھی اور لاچار انسانیت کے دکھوں کا مداوا بننے میں ساری زندگی گزار دی۔ اگر انسانیت کی محسن ان شخصیات کا اصل روپ اور خالص نمونہ دیکھنا چاہیں تو عبدالستار ایدھی اور بلقیس ایدھی جیسے کردار انسانی عظمت اور توقیر کے اعلیٰ درجے پر فائز ملتے ہیں۔ پاکستان کی پچھتر سالہ تاریخ میں ان کا کوئی مقابلہ نہیں کرسکتا۔ بے سرو سامانی کی حالت میں ایک کمرے کے مکان سے شروع ہونے والی کاوش اَن تھک محنت، سادگی اور انسانوں سے محبت کی عظیم داستان بن گئی۔ سادہ مزاج اور نہایت عاجز و منکسر مزاج ایدھی صاحب اور بلقیس ایدھی نے وہ کام کر دکھائے جو ہم جیسے پڑھے لکھوں، سوجھ بوجھ رکھنے والوں اور وسائل تک رسائی رکھنے والوں کے خیال و خواب میں بھی نہیں آسکتے۔
ایدھی صاحب نے بچپن میں غربت،ماں کی بیماری اور زندگی کی بے رحمی کو جھیلا۔ بے پناہ تکلیف اور دکھ سے گزرے۔ گلیوں میں ازاربند بیچے۔ فالج کے ہاتھوں مجبور ماں کے علاج اور ادویات کیلئے سخت محنت اور جدوجہد کی۔ماں کی خوب خدمت کی۔ ان کڑی آزمائشوں نے ایدھی کو تجربے کی بھٹی میں ڈال کر کندن بننے کے عمل سے گزارا۔ ذات کے حصار سے نکل کر وہ کب سراپا خدمت بن گئے‘ شاید وہ بھی اس لمحے سے بے خبر ہوں گے۔ اسی طرح حیرت انگیز حد تک انسانی خدمت، محبت اور شفقت بلقیس ایدھی کی شخصیت کا خاصہ تھی، انتہا کی سادگی،بے ساختگی اور خلوص اس جوڑے کو باقی لوگوں سے الگ کرتا تھا۔ وہ دیکھنے میں عام لگتے تھے مگر وہ خاص اورخالص تھے۔ بلقیس ایدھی مشکل راستوں کی مسافر تھیں۔ ان بے مثال میاں بیوی نے یہ مفروضہ غلط ثابت کیا کہ بڑی ڈگریاں اور مال و دولت کی کثرت ہو‘ تبھی کوئی بڑا کام کیا جا سکتا ہے۔ ایک
کمرے کی ڈسپنسری میں کراچی اور لیاری کے غریب عوام کو صحت کی مفت سہولتیں فراہم کرنے سے شروع ہونے والا سفر ایک زیرِ تربیت نرس بلقیس ایدھی نے ایدھی صاحب کے ساتھ مل کر ایک کھٹارہ ایمبولینس سے شروع کیا۔ لگن سچی تھی، جذبے صادق تھے۔ ایدھی صاحب کے پاس ایک جوڑا کپڑوں کا، ایک چپل اور ایک تھیلا تھا۔ شادیوں میں برتن دھوئے،اخبار بیچا، دودھ بیچا، جو کماتے ایدھی سنٹر کے غریبوں پر خرچ کرتے جاتے۔ سڑک پر ہاتھ پھیلا کر بھیک مانگتے۔ ان کی ایمانداری اور سچائی کے سبب لوگوں نے کھلے دل سے ان کی مدد کی اور یہی وجہ ہے کہ یہ آج دنیا کی ایک بڑی سماجی خدمت کی تنظیم بن چکی ہے جس کی شاخیں پورے پاکستان کے ساتھ ساتھ دنیا کے دیگر ممالک میں بھی کام کر رہی ہیں۔ 2017ء میں اس نے اپنا نام گینز بک آف ورلڈ ریکارڈ میں بھی درج کرایا۔ اس کے ایمبولینس سروس فلیٹ میں دوایئر کرافٹس، ایک ہیلی کاپٹر اور 1800ایمبو لینسز شامل ہیں۔ ایدھی فائونڈیشن کے تحت 18ایدھی ہومز اور یتیم خانے چل رہے ہیں جن میں 8500بچے‘ عورتیں اور ذہنی و جسمانی معذور افراد رہتے ہیں جن کے کھانے پینے، لباس، صحت، تعلیم اور دیگر تمام ضروریات کی ذمہ داری فائونڈیشن اٹھاتی ہے۔ بلقیس ایدھی کے نام پر پرائمری، ایلیمنٹری اور ہائی سکولز چل رہے ہیںجہاں مفت تعلیم دی جا رہی ہے۔
بلقیس ایدھی یتیموں کی ماں تھیں اور بے سہارا بچوں کا سہارا۔ لاوارثوں کی جائے امان‘ معذوروں اور دھتکارے ہوئوں کی امید تھیں۔ ان کی تنظیم نے پاکستان اور پاکستان سے باہر سوشل سروس کے ہر پہلو کو اپنا مقصود بنایا۔ لاوارث لاشوں کی تدفین، کفن دفن اور میتوں کو ایئر کنڈیشنڈ مردہ خانوں میں رکھنا اور پھر حفاظت سے متعلقین اور ورثا تک پہنچانا ان کا منفرد ریکارڈ ہے۔ پاکستان میں 58ہزار سے زائد لاوارث لاشوں کے کفن دفن کا انتظام کیا جا چکا ہے۔ یہ پہلی فلاحی تنظیم بنی جس نے مردوں کے غسل کا اہتمام کیا۔ بچوں کا جھولا اعلیٰ انسانی اقدار کی وہ مثال ہے جو عام شخص سوچ بھی نہیں سکتا تھا۔ بلقیس ایدھی نے ایک انٹرویو میں بتایا کہ ہمیں کچرے کے ڈھیر سے کتے‘ بلیوں اور چوہوں کے نوچے ہوئے نومولود بچوں کی لاشیں ملتی تھیں‘ ایک دن ہم نے سوچا کہ سنٹر کے باہر جھولا رکھ دیتے ہیں تاکہ انسانیت کی بے حرمتی نہ ہو کیونکہ روح امرِ ربی ہے۔ جھولے میں ملنے والے بچوں کو بلقیس ایدھی خود نہلاتیں، دودھ
اور خوراک اپنے ہاتھوں سے کھلاتیں۔ ہزاروں یتیم اور ناداروں کے لیے ایدھی صاحب اور بلقیس ماں باپ کا درجہ رکھتے تھے۔ ان بچوں کو ایدھی ہومز سے اڈاپٹ کرنے کا مربوط نظام بھی قائم ہے۔ جانچ پڑتال کے بعد بچے بے اولاد والدین کو دیے جاتے۔ جو بے اولاد جوڑے ایدھی سنٹر آتے‘ بلقیس ایدھی خود ان فیملیوں اور ارد گرد سے معلوم کرتیں۔ اب تک 23 ہزار سے زائد بچے بے اولاد جوڑوں کو دیئے گئے ہیں۔ یہ تنظیم غیر ملکی سفر پر جانے والے لوگوں کی اخلاقی اور طبی امداد بھی کرتی ہے‘ نشے کے عادی افراد کیلئے ری ہیبلی ٹیشن سنٹراور گھر سے بھاگے ہوئے بچوں کو والدین سے ملوانا‘ دوسرے ممالک سے روابط اور مدد فراہم کرنا اور گمشدہ لوگوں کو گھروں تک پہنچانا۔ کیا عمدہ اور نفیس لوگ تھے۔ کس کس بات کا خیال کیا اور پھر بدلے میں وہ مقام اور مرتبہ عطا ہوا جس کا اندازہ لگانا بھی ممکن نہیں۔ بلقیس ایدھی سراپا محبت،شفقت،خدمت کا نمونہ تھیں۔ ایک واقعے کا ذکر کرتے ہوئے بتایا کہ ایک جوان لڑکی کی میت لے کر سانگھڑ جا رہے تھے‘ لڑکی کی ماں بہت دکھی تھی۔ راستے میں ڈاکوئوں نے ایمبولینس روک لی اور لوٹنا چاہا۔ اس عورت نے سندھی زبان میں بتایا کہ میت لے کر جانے دو۔ اسی دوران ایک ڈاکو کی نظر ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھے عبدالستار ایدھی پر پڑی۔ اس نے آگے بڑھ کر ان کے ہاتھ چوم لیے اور کہا کہ جب ہم مریں گے تو ہمیں یقین ہے کہ ہمارے ماں باپ ہمیں لینے نہیں آئیں گے لیکن آپ آئیں گے اور ہماری قبر پر مٹی بھی آپ ہی ڈالیں گے۔ بلقیس ایدھی دردِ دل رکھنے والی روح تھیں جنہیں اللہ تعالیٰ نے لوگوں کیلئے وسیلہ اور ہمدردی کا ذریعہ بنا کر بھیجا۔ انہوں نے فیکٹریوں، کاروں، کوٹھیوں اور بڑے گھروں کے خواب دیکھے اور نہ اپنے بچوں کو اس کی عادت ڈالی۔ ایدھی صاحب سے ایک ٹی وی اینکر نے بلقیس ایدھی کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے جواب دیا: میری بیوی ماں سے کم نہیں۔ بلاشبہ بلقیس ایدھی انسانیت کی ماں تھیں۔ بہت سے بچے بچیاں جن کے سبب تعلیم یافتہ اور بین الاقوامی اداروں میں وظائف لے کر زندگی کی دوڑ میں شامل ہیں۔ خود اعتمادی، آزادی اور عزتِ نفس کے ساتھ سر اٹھا کر چلنا سیکھ چکے ہیں۔ بلقیس ایدھی کی وفات پر دنیا بھر سے ''ایدھی بچوں‘‘ نے بلقیس ایدھی کو خراجِ تحسین پیش کیا ہے۔ ان میں ایک بچی رابعہ عثمان نے بھی شکریہ ادا کیا۔وہ مغموم بھی تھی اور شکر گزار بھی۔ بلقیس ایدھی کی اس بیٹی کو 28سال پہلے جھولے میں ڈالا گیا تھا۔ اس بچی کو نام،پہچان، زندگی اور گھر بلقیس اور عبدالستار ایدھی نے عطا کیے۔ اس بچی کو جن والدین نے گود لیا‘ انہوں نے اسے اعلیٰ تعلیم و تربیت فراہم کی۔ وہ شکر گزار ہے کہ ایسے والدین اسے بلقیس ایدھی کی وجہ سے ملے۔وہ سکالر شپ پر نیویارک میں سائبر سکیورٹی اینڈ ڈیٹا پر ائیویسی میں ماسٹرز کیلئے گئی۔ کہتی ہے کہ وہ میرے لیے بڑی ماں تھیں اور ایک ہیرو تھیں‘ وہ بہت سارے یتیموں اور انسانیت کیلئے پاور ہائوس تھیں۔ یہ وہ مشعلِ راہ ہے‘ وہ فٹ پرنٹس ہیں جو آنے والوں کو راستہ دکھاتے رہیں گے۔
ایدھی فائونڈیشن کے رضاکاروں اور سوشل ورکرز کی تربیت اور مدد کے جذبے کو نمایاں طور پر دیکھا جا سکتا ہے۔ مستعد اور تیز رفتار ایدھی ایمبولینس سروس،ڈاکٹرز،نرسیں اور رضاکار فورس امداد اور ریسکیو کے کاموں کے لیے سب سے پہلے موجود ہوتے ہیں۔ فیصل ایدھی اپنے والدین کی اس میراث‘ جو دنیا کے تمام براعظموں میں پھیلی ہوئی ہے‘ کے امین اور ٹرسٹی ہیں۔ وہ اپنے والدین کے خواب‘ میڈیکل یونیورسٹی کو تعبیر دینے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ انسانیت پر مامور انہی بڑے انسانوں کے لیے الطاف حسین حالی نے لکھا تھا:
فرشتوں سے بہتر ہے انسان بننا
مگر اس میں لگتی ہے محنت زیادہ

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں