جو ٹھہرے ذرا‘ کچل گئے ہیں

انسانی تاریخ میں کچھ ایسے دن‘ ایسے لمحات ہوتے ہیں جن پر وقت کی گرد اثر نہیں کرتی بلکہ گزرتے ماہ و سال ان کی افادیت اور اہمیت کو مزید بڑھا دیتے ہیں۔ انہی ایام میں سے ایک 21اپریل 1938ء کا دن بھی ہے‘ جب مشرق کے افق پر چمکتا ستارہ ہماری آنکھوں سے اوجھل جہاں میں منتقل ہو گیا۔ ہر سال قوم اس کے احسان یاد کرتی ہے اور قومی و ملکی سطح پر اسے خراجِ تحسین پیش کیا جاتا ہے۔ یہ ستارہ شاعرِ مشرق حکیم الامت علامہ محمد اقبال تھے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ حکیم الامت‘ مردِ خوردبین، خود آگاہ کی تعلیمات،افکار، نظریات، شاعری اور ایمان افروز پیغامات کو سمجھا جائے اور بالخصوص اس فلسفۂ حیات، جذبہ اور تحریک جو نوجوانوں کو باعمل زندگی کی تربیت دے اور ان میں جستجو پیدا کرنے کے راستے دکھائے‘ سے آگاہ کرنا ضروری ہے۔ ڈاکٹر علامہ محمد اقبال ؒ نے مسلمانانِ ہند کو خوابِ غفلت سے جگا کر میدانِ سیاست کے کارزاروں سے روشناس کرایا۔ وہ عقابی روح پھونکی کہ زمانہ حیرت زدہ رہ گیا۔ تصورِ پاکستان پیش کیا اور نہایت جرأ ت سے اس کی جغرافیائی سرحدوں کے خدوخال بھی واضح کر دیے۔ تخلیقِ ارضِ پاک انہی کی فکری کا وشوں سے سرانجام پائی۔ آپ کی خوش قسمتی تھی کہ آپ کی پرورش جن ہاتھوں میں ہوئی وہ تقویٰ اور پرہیز گاری میں اعلیٰ درجے پر فائز تھے۔ گورنمنٹ کالج لاہور اور اورینٹل کالج جیسی درسگاہوں سے علم کی پیاس بجھائی۔ مولوی میر حسن سے عربی اور فارسی اور قرآنِ مجید کی تعلیم حاصل کی۔ ڈاکٹر آرنلڈ جیسے بڑے پروفیسر سے فلسفہ کے رموز اورموضوعات پر علمی بحثیں کیں۔ تجسس اور تحقیق کی صفات کو اجاگر کیا۔ کیمرج سے بارایٹ لا اور میونخ (جرمنی) سے فلسفہ میں پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔ اقبال کی شاعری نے مسلمانوں میں وہ ولولہ اور جوش پیدا کیا کہ آپ کی شاعری ہندوستان کی سرحدوں سے نکل کر پورے عالمِ اسلام سمیت دنیا کے تمام حصوں میں پھیل گئی۔ آپ قوم کے وہ رہنما تھے‘ جو صدیوں میں نصیب ہوتے ہیں۔ اقبال نے شاعری میں جو اسلوب اپنایا وہ اُس عہد میں رائج نہ تھا۔ مروجہ موضوعات سے ہٹ کر آپ نے شاعری کو حصولِ مقصد اور تربیت و رہنمائی کا ذریعہ بنایا۔
علامہ کی شاعری میں مسلمانوں اور امت کی تڑپ شدت سے محسوس کی جا سکتی ہے۔ اسلام کی عالمگیریت اور آفاقیت کو آپ نے موضوعِ سخن بنایا۔ ہر شعر میں ملت کی اصلاح کا پیغام دیا۔ کبھی انہیں ان کا شاندار ماضی یاد کرایا اور اسلاف کے کارنامے سنا کر نوجوانوں کا لہو گرمایا اورکبھی ستاروں پر کمند ڈالنے اور شاہین کی تمثیل سے نوجوانوں کو بلند خیالی اور بلند پروازی کا درس دیتے نظر آئے۔ آپ سچے عاشقِ رسول تھے۔ عشقِ نبی میں آپ کی آنکھیں نم رہتیں۔ علامہ کی زندگی اور شاعری کا نمایاں تصور خودی ہے جسے سمجھنے کی ضرورت ہے۔ خودی کا مطلب بڑائی، تکبر، انا، ضد اور خود غرضی ہرگز نہیں۔ وہ قوم کو خود شناسی سکھانا چاہتے تھے اور احساس دلانا چاہتے تھے کہ تمہارے اندر جو جو ہر پنہاں ہیں انہیں پہچانو‘ اپنے مصرف میں لائو، اپنے آپ کو اس قابل بنائو کہ خدا کے منتخب بندوں میں شامل ہو جائو۔ عملی طور پر اس طرح مقرب ہو جائو کہ رحمتیں تم پر برسنا شروع ہو جائیں۔
علامہ قناعت پسند انسان تھے، دولت کمانے اور جمع کرنے کا انہیں کوئی شوق نہ تھا۔ اگر مہینے کے شروع میں کسی مقدمے کی پانچ سو فیس آجاتی تو کہتے مہینے کے اخراجات کے لیے کافی ہیں۔ زیادہ تر وقت غور و فکر،مطالعہ، عبادت اور شاعری میں صرف کرتے۔ آپ نے اپنی شاعری میں جذبۂ حریت اور فکر و عمل کی بنیاد ڈالی۔ جوش و ولولہ، عقل و فکر اور استدلال کو فوقیت دی۔ آپ کا ماننا تھا کہ انسان کی روح کی اصل کیفیت غم ہے اور خوشی ایک عارضی چیز ہے۔ زندگی کا راز یہی ہے کہ جہاں‘ جس حالت میں رہو، خوش اور مطمئن رہو۔ علامہ کی نظر میں فقر کی پہلی منزل کسب ِحلال ہے۔ نور ِایمان دلوں میں رزقِ حلال سے ہی پیدا ہو تا ہے۔
کسی نے اقبال سے پوچھا کہ عقل کی انتہا کیا ہے؟ جواب دیا: حیرت، پھر پوچھا: حیرت کیا ہے؟ جواب دیا: عشق۔ پوچھا: عشق کی انتہا کیا ہے؟ فرمایا: عشق لا انتہا ہے۔ سوال کرنے والے نے پوچھا کہ آپ نے لکھا ہے ''تیرے عشق کی انتہا چاہتا ہوں‘‘۔ آپ نے فرمایاکہ دوسرے مصرع میں اعتراف بھی کیا کہ 'میری سادگی دیکھ میں کیا چاہتا ہوں‘۔ علامہ کو یقینِ کامل تھا کہ اس کرۂ ارض کا انسان اگر فلسفۂ خودی کو سمجھ لے اور اس پر حقیقی معنوں میں عمل پیرا ہو تو بلندیوں اور عظمتوں کی انتہائوں کو چھو سکتا ہے۔ اگر احساسِ غیرت مندی اور جذبہ خودداری بیدار ہو جائے تو وہ دوسروں کا سہارا تلاش کرنے کے بجائے اپنی دنیا آپ پیدا کر سکتا ہے۔ عرفانِ نفس اور خود شناسی ہی خودی کا مقصود اور منزل ہے۔ آپ نے نظریۂ وحدت الوجود جیسے فلسفے پر مسلسل احتجاج کیا اور اس کے برعکس اپنا فلسفۂ خودی پیش کیا۔ علامہ خودی کے تین درجے بیان کرتے ہیں۔ پہلا درجہ اطاعت، فرمانبرداری کا ہے۔ خود شناسی اور خودی سے تعمیری کام لینے کے لیے تربیت اور معرفتِ الٰہی ضروری ہے۔ اقبال گوئٹے کی طرح خودی کو تخلیق کی عظیم الشان قوت سمجھتے ہیں۔ یہی وہ نکتہ ہے جہاں سے حیات پھوٹتی ہے۔ کہکشاں اور قوسِ قزح کے رنگوں سے کائنات روشن ہوتی ہے۔ دوسرا درجہ ضبطِ نفس کا ہے۔ اس درجے پر فائز ہونے کے لیے بنی نوع انسان کی بھلائی،خدمت کرنا اور حکمِ خدا وندِ عالم کے مطابق اپنی زندگی کو ڈھالنا اور اللہ کی محبت میں سرشاری محسوس کرنا۔ اقبال عشق اور عقل کی معرکہ آرائی میں عشق کی برتری پر یقین رکھتے ہیں۔ اللہ نے آدم اور حوا کو تخلیق کے بعد جنت میں آزادی دی مگر ایک مخصوص درخت کا پھل کھانے سے روکا۔ فیصلے کا اختیار بھی دیا مگر وہ ضبطِ نفس نہ کر سکے۔ تیسرا درجہ نیابتِ الٰہی کا ہے۔ اقبال فرماتے ہیں کہ انسان اللہ کا ورکر بن جاتا ہے۔ سب ضروریات پوری ہو جاتی ہیں مگر پھر بھی بے چین پھرتا ہے اور ذات کو مسلسل مشکل میں ڈالنے سے روحانی طاقت حاصل کرتا ہے۔ یقین، اعتماد اور نیکی کو خود میں سمو لیتا ہے، اپنی مرضی کو اللہ کی مرضی پر چھوڑ دیتا ہے۔ خلیفۃ اللہ کی ذمہ داری انسان ہی نے قبول کی۔
اقبال جیسے مرد ِمومن اگر کسی سے متاثر ہیں تو وہ جلال الدین رومی ہیں۔ دونوں کے زمانوں میں پون صدی کا فرق ہے مگر روحانی فیض ملتا ہے۔ اقبال فرماتے ہیں کہ پیرِ رومی نے خاک کو اکسیر بنا دیا اور میری خاک سے کئی جلوے تعمیر کر دکھائے۔ اقبال انہیں ''پیرِ رومی‘‘ اور رومی اقبال کو ''مریدِ ہند‘‘ کہہ کر سلسلۂ کلام چلاتے ہیں۔ اقبال کی کوئی تصنیف ایسی نہیں جس میں رومی کا ذکر نہ ہو۔ ان کی اسی روحانی وابستگی کے سبب علامہ اقبال کی علامتی قبر قونیہ (ترکی) میں بھی بنائی گئی ہے۔ اقبال فتحِ فارس کو اسلام کا اہم ترین واقعہ قرار دیتے ہوئے فرماتے ہیں کہ نہاوند کی جنگ نے عربوں کو ایک حسین ملک کے علاوہ ایک قدیم تہذیب بھی عطا کی بلکہ یوں کہنا چاہئے کہ وہ ایک قوم سے روشناس ہوئے جس نے سامی اور آریائی نسل کے امتزاج سے نئی تہذیب کو جنم دیا۔ ہماری مسلم تہذیب سامی اور آریائی تصورات کی پیوندکاری کا حاصل ہے۔ گویا ایسی اولاد جسے آریائی ماں کی نرمی اور لطافت اور سامی باپ کے کردار کی پختگی ورثے میں ملی۔ فتحِ فارس سے ہمیں وہی کچھ حاصل ہوا جو یونان کی فتح سے رومیوں کو ملا تھا۔
ڈاکٹر صاحب کو بلا کا ادراک تھا کہ نوجوان نسل کے ہاتھ میں مستقبل کی باگ ڈور ہے‘ اگر انہیں صحیح معنوں میں مہذب، باصلاحیت اور روشن خیال بنا دیا جائے تو آنے والا کل تابناک ہو گا ورنہ اس قوم کو اندھیروں میں بھٹکنے سے کوئی نہیں روک سکتا۔ علامہ کے دل و دماغ میں نوجوانوں کی بہت فکر تھی اور اس کا اظہار وہ بارہا کرتے تھے۔ وہ ان کے اندر احساس، درد اور جذبۂ حریت بیدار کرنا چاہتے تھے۔ سوال یہ ہے کہ کیا علامہ کی شاعری اور پیغام صرف اُس عہد کے نوجوانوں کے لیے تھا اور تخلیقِ پاکستان کے بعد اس کی ضرورت،افادیت اور اہمیت نہیں رہی؟ تو جواب ہو گا: ہر گز نہیں! تحریکِ پاکستان میں کامیابی کے بعد تعمیرِ پاکستان کے دور کا آغاز ہو چکا ہے۔ اقبال کا پیغام آفاقیت اور ابدی حقیقتوں پر مبنی ہے۔ اس میں وطن کا تصور ہے مگر ملتِ اسلامیہ اور ہر خطۂ ارضی کے لیے رہتی دنیا تک ان کے افکار تازہ ہیں اور تابناک منزلوں کی نشاندہی کے لیے مشعلِ راہ ہیں۔ آپ اندھی تقلید کے قائل نہیں تھے۔ فرماتے ہیں:
تو ابھی راہ گزر میں ہے، قیدِ مقام سے گزر
مصر و حجاز سے گزر‘ پارس و شام سے گزر
جس کا عمل ہے بے غرض اس کی جزا کچھ اور ہے
حور و خیال سے گزر‘ بادہ و جام سے گزر
نوجوانوں کے لیے سب سے نمایاں درسِ اقبال یہ ہے کہ وہ اپنی دنیا آپ پیدا کریں‘ محنت، لگن اور جدت پسندی کی نئی جہتوں اور منزلوں پر نکلیں۔ اقبال جہدِ مسلسل اور عملِ پیہم کا پیغام ان خوبصورت الفظ میں نوجوانوں کی نذر کرتے ہیں:
چلنے والے نکل گئے ہیں
جو ٹھہرے ذرا کچل گئے ہیں

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں