قومی یکجہتی

انسان عقل و شعور کی دولت سے مالا مال ہے اور آدابِ گفتگو کے زیرو بم سے بھی خوب واقف ہے۔ کبھی اچھے الفاظ منہ سے نکلتے ہیں جو دوستی اور صلح کا باعث بنتے ہیں توکبھی ایسے الفاظ ادا ہوتے ہیں جو نفاق اور عداوت کا سبب بنتے ہیں۔ اخوت اور انسانیت ایسے لازوال رشتے ہیں جو ساری بنی نوع انسان کو مجتمع رکھنے میں مددگار ثابت ہوتے ہیں۔ محبت اور اخلاص معاشرتی زندگی کے وہ زریں اصول اور بنیادی عناصر ہیں جو دلوں سے کدورت، کینہ، حسد اور بغض جیسے منفی جذبات کی شدت کو کم کر سکتے‘ دلوں کو موڑ سکتے ہیں۔ محبت اللہ تعالیٰ کے عطا کردہ انعامات میں سب سے اعلیٰ نعمت ہے جو اللہ کی اپنی مخلوقات سے شروع ہوتی ہے۔ فطری طور پر انسان میں والدین، بچوں، عزیز و اقارت، ہمسایوں اور اپنے علاقے کے ساتھ گہری وابستگی پائی جاتی ہے۔ وہ مٹی بڑی عزیز ہوتی ہے جہاں ہم جنم لیتے ہیں‘ جن گلیوں میں کھیل کر جوان ہوتے ہیں۔اپنی سرزمین ماں کی طرح معتبر اور قابلِ احترام ہوتی ہے۔ جب آپس میں پیار محبت کے رشتے استوار ہوتے ہیں تو وطن کی شان اور مان میں اضافہ بھی ضرور ہوتا ہے۔ کوئی دوسرا ہمارے دیس کی طرف آنکھ اٹھا کر نہیں دیکھ سکتا۔ کسی بھی ملک کی سلامتی، بقا اور اس کا استحکام قومی یکجہتی اور ہم آہنگی سے مشروط ہوتا ہے۔ قوم جس قدر یکسو، متحد، باشعور اور پُر عزم ہو گی، ملک اتنا ہی مضبوط اور طاقتور ہوگا۔ ریاست کی تعمیر کا راستہ قومی یکجہتی سے ہو کر گزرتا ہے۔ قوم کے اتحاد سے ہی ریاست معرضِ وجود میں آتی ہے۔ اس وجود کو مضبوطی اور طاقت بھی ملی یکجہتی ہی بخشتی ہے۔ ترقی، فلاح اور کامیابی حاصل کرنے کے لیے ضروری ہے کہ بلا تفریق رنگ و نسل، مذہب، زبان اور عقیدہ سمیت تمام اجزا کو قومی وحدت اور اکائی کی لڑی میں پرویا جائے۔ پاکستان کے چاروں صوبوں، کشمیر اور گلگت بلتستان کی ثقافت، زبان، رسم و رواج اور تاریخ ایک دوسرے سے مختلف ہے لیکن ایک چیز جو مشترک ہے وہ وطن پرستی ہے۔ وطن وہ مقام ہے جہاں سب فروعی معاملات اور اختلافات چھوٹے نظر آتے ہیں۔ ذاتی اور گروہی مفاد اور داخلی انتشار ملک و قوم کے لیے زہرِ قاتل ثابت ہوتا ہے۔ اس کے راستے میں بند باندھنے کے لیے ضروری ہے کہ ملک کے اندر عدل‘ مساوات اور معاشی و اقتصادی انصاف کا نظام ہو تاکہ معاشرے میں احساسِ محرومی جنم نہ لے۔ عدم مساوات، جبر اور دبائو کسی بھی معاشرے کو آگے بڑھنے سے روک دیتے ہیں۔ تعلیم، صحت، روزگار اور کاروبار کے مساوی مواقع مہیا کرنے کی بنیادی ذمہ داری ریاست پر عائد ہوتی ہے۔ شہریوں کو ضروریاتِ زندگی کی وافر اور ارزاں نرخوں پر فراہمی بھی ریاست پر فرض ہے۔
پاکستانی قوم کو یکجا رکھنے میں اسلامی تعلیمات کا کردار بھی نہایت اہم ہے۔ دینِ اسلام ہمیں اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھامے رکھنے کا درس دیتا ہے۔ اختلافِ رائے رکھنے میں کوئی حرج نہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ہر فرد کو منفرد صفات اور خصوصیات کے ساتھ پیدا فرمایا اور یہی معاشروں کو یکسانیت اور جمود سے بچانے کا ذریعہ بنتی ہیں۔ اعلیٰ و ارفع تخیل اور فکر اسی منفرد انداز سے ممکن ہو پاتی ہے لیکن تنقید برائے تضحیک کو رد کیا جانا چاہئے کیونکہ اس کے ہوتے ہوئے اتفاقِ رائے اور ایک نکتے پر جمع ہونے میں دشواری پیش آتی ہے۔ اختلاف کسی بھی قسم کا ہو‘ اس کے کچھ اصول ہوتے ہیں۔ اختلافات کی نوعیت جو بھی ہو‘ اس میں سنجیدگی، متانت اور وقار کا ہونا ضروری ہے۔ غیر مہذب اور ناشائستہ طرزِ تکلم، طعنہ زنی اور فحش گوئی سے اجتناب ضروری ہے۔ سورۃ النحل میں ارشادِ ربانی ہے ''اپنے رب کے راستے پر حکمت اور بہترین نصیحت کے ساتھ بلائو اور لوگوں سے بہتر طریقے سے گفتگو کرو‘‘۔ اس لیے نرم خوئی، دلجوئی، شفقت، خوبصورت اندازِ بیاں اور مؤدب لب ولہجہ ہی لوگوں کی توجہ حاصل کر کے تبادلۂ خیالات کے مواقع بہم پہنچاتا ہے۔ لہجے کی سختی، غصہ، تنک مزاجی اور بے صبری نہایت مضر اور بے نتیجہ مکالمے کا سبب بنتی ہے۔
حضرت موسیٰ اور حضرت ہارون علیہما السلام جیسے جلیل القدر پیغمبران کو فرعون کو دعوتِ حق دینے کے لیے جب حکمِ خداواند دیا گیا تو ساتھ ہی فرمایا گیا ''تم دونوں اس سے نرم لہجے میں گفتگو کرو‘ ہو سکتا ہے وہ نصیحت قبول کر لے‘‘۔(مفہوم) قومی عظمت اور توقیر کے لیے ضروری ہے کہ ریاست کے افراد مل جل کر رہیں۔ دوسروں کی نظریات اور خیالات کو قبول کریں اور انہیں اہمیت دیں۔ انسان شہد کی مکھیوں سے سبق حاصل کرے کہ وہ کس طرح اتفاق، اتحاد اور باہمی سمجھ بوجھ سے اپنی زندگی بسر کرتی اور مشکلات کا سامنا کرتی ہیں۔ اسی طرح قومی یکجہتی اور اتفاق سے ملک طاقتور ہوتا ہے۔ اندرونی مضبوطی ہی سے ترقی اور خوشحالی کی منزل کو پایا جا سکتا ہے۔ چیونٹیوں، پرندوں اور جانوروں میں پائے جانے والا نظم و ضبط اور یکجہتی ہمیں احساس دلانے کے لیے کافی ہے۔
قومی یکجہتی کے حصول میں چند عوامل اہم کردار ادا کرتے ہیںجن سے مختلف گروہوں کی دلچسپیاں اور مقاصد ایک ہو جاتے ہیں‘ منزل کا تعین ہو جاتا ہے اور پوری قوم ایک سمت میں سفر کرنے کی اہلیت حاصل کر لیتی ہے۔ مذہب کے بعد زبان قومی یکجہتی کا وسیلہ بنتی ہے۔ پاکستان میں مختلف علاقوں میں علاقائی زبانیں مثلاً پشتو، پنجابی، سندھی، بلوچی، بروہی، سرائیکی، ہزاروی، شینہ، بلتی، گوجری اور ڈوگری سمیت کئی مقامی زبانیں بولی جاتی ہیں لیکن اردو قومی زبان اور ذریعۂ تعلیم ہے جو ایک دوسرے کے ساتھ رابطے اور تبادلۂ خیالات کا ذریعہ بھی بنتی ہے۔ تیسری اہم چیز جغرافیائی مماثلت ہونے کی وجہ سے نسلی اور ثقافتی ہم آہنگی ہے۔ یہ جغرافیائی مماثلت ہی تھی جس نے مشرقی اور مغربی جرمنی کو دوبارہ متحد کر دیا۔ مشترکہ روایات، تاریخ اور ثقافت بھی قومی یکجہتی کا وسیلہ بنتی ہیں۔ مساوی مواقع اور وسائل کی منصفانہ تقسیم بھی ملی اتحاد اور یگانگت کو یقینی بناتی ہے۔ خوشحالی اور امن کا ساتھ چولی دامن کا ساتھ ہے۔ باہم چپقلشیں جتنی کم ہوں گی، ملک اتنا ہی امن و سلامتی کا گہوارہ ہوگا۔ اختلافات کم ہوں گے تو ساری توانائیاں مثبت سوچ اور ترقیاتی کاموں پر صرف ہوں گی۔
کرپشن، اقرباپروری، پسماندگی، جہالت، مذہبی و مسلکی منافرت اور عصبیت وہ دیمک ہیں جنہوں نے معاشرے کی بنیادیں کھوکھلی کر دی ہیں۔ وطن انبیاء کرام کو بھی بے حد عزیز تھا۔ روایت ہے کہ حضرت یوسف علیہ السلام نے اپنی موت سے قبل بنی اسرائیل سے عہد لیا تھا کہ جب کبھی تم واپس اپنے وطن جائو تو میری لاش کو اپنے ساتھ لے کر جانا۔ قوموں پر جب کبھی مشکل وقت آتا ہے تو اس وقت بوڑھا و بچہ‘ مردوزن سبھی جان نچھاور کرنے کو تیار ہوجاتے ہیں۔ کچھ بہادر اور شجاعت کے پیکر طاقتور دشمن کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر جواب دیتے بھی ملیں گے۔ خلافتِ عثمانیہ کا شیرازہ بکھر چکا تھا۔ ترکی کے جنوبی شہر قہرمان مرعشی کے بازار میں فرانسیسی جنرل فتح کے نشے میں دھت جا رہا تھا۔ اس کی نظر ایک باپردہ خاتون پر پڑی۔ اس نے نقاب اٹھانے کا حکم دیا‘ خاتون نے انکار کیا تو اس نے زبردستی نقاب کھینچ لیا۔ ایک دودھ فروش یہ منظر دیکھ کر برداشت نہ کر سکا اور جنرل سے پستول چھین کر اسے نیچے گرادیا۔ بہت سے لوگ جمع ہو گئے اور ہر طرف شور مچ گیا۔ اس دودھ فروش کی جرأت اور قومی غیرت کے صلے میں اس کے نام پر ''امام سا تجو جامع یونیورسٹی‘‘، کئی فلاحی ادارے اور این جی اوز کام کر رہی ہیں۔ 1965ء کی جنگ میں باہمی اتحاد اور یکجہتی کی وجہ سے‘ وسائل کی کمی کے باوجود ہم نے کئی گنا بڑے دشمن کو ناکوں چنے چبوا دیے تھے مگر 1971ء میں باہمی اختلافات کے باعث ہم نے مشرقی بازو گنوا دیا۔ آج بھی صلیبی اور صہیونی طاقتیں یکجا ہو کر مسلمانوں کے خلاف صف آراہیں۔ مسلمانوں کا خون ارزاں ہو چکا ہے کیونکہ وہ نفاق، فروعی اور مسلکی اختلافات میں الجھ کر بیکار اور کاہل ہو چکے ہیں۔ بوڑھے باپ کی لکڑیوں والی کہانی ہم نے پڑھ کر بھلا دی ہے۔ اب بھی وقت ہے ارادہ کرنے کا‘ باہم اختلافات کے بجائے معیاری جدید تعلیم اور ٹھوس تعمیری منصوبہ بندی کا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں