امید و آرزو کے چراغ

انسانی تاریخ جتنی قدیم ہے، سیکھنے اور سکھانے کا سلسلہ بھی اتنا ہی پرانا ہے۔ انسان کو شرفِ انسانیت اور معتبر رتبہ بھی اسی منفرد صلاحیت کے سبب ملا ہے۔ حضرت آدم علیہ السلام کو فرشتوں پر برتری علم و فضل کے باعث عطا ہوئی۔ گویا سیکھنا اور سکھانا انسان پر لازم ٹھہرایا گیا۔ یہ وہ دولت ہے جو کثرتِ دولت سے نہیں، محنت، لگن اور جستجو سے حاصل کی جاسکتی ہے۔ ہم سب کہیں نہ کہیں لاشعوری طور پر سیکھ رہے ہوتے ہیں۔ زندگی کی مقصدیت کیلئے رسمی تعلیم اور پیشہ ورانہ تربیت کے بعد حصولِ رزق کیلئے بھی کچھ بنیادی مہارتیں اور ہنر سیکھنے کی شرط لازمی ہے۔ کسی بھی نوعیت کا کام، کاروبار یا ریاستی امور چلانے کیلئے جدید علوم میں مہارت حاصل کرنے کی اپنی اہمیت ہے۔ کچھ لوگوں پر قدرت مہربان ہوتی ہے‘ انہیں اضافی خوبیوں اور صلاحیتوں سے مالامال کر دیا جاتا ہے۔ وہ اپنی تخلیقی صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے غیر معمولی کام اور خدمات سرانجام دینے کی کوشش کرتے ہیں۔ پیشہ ورانہ فرائض کو بطریقِ احسن انجام دینے کے ساتھ ساتھ اپنے اردگرد رونما ہونے والے واقعات اور حالات پر گہری نگاہ رکھتے ہیں بلکہ ان میں غیر معمولی قوتِ مشاہدہ اور حساسیت عام طور پر بہتر ہوتی ہے۔ ماضی کے مطالعے، حال کے جائزے اور تجزیے کے باعث مستقبل میں جھانک لینے اور آنے والے حالات کی پیش بندی کر سکنے کی صلاحیت اور تدبر بھی انہیں عطا ہو جاتے ہیں۔ ذاتی دلچسپی اور اہلیت ایسے افراد کو مواقع فراہم کرتی ہے۔ ان کی سوچ اور فکر انگیز طبیعت انہیں بے چین رکھتی ہے۔ وہ زندگی کی نا ہمواری اور کسی ناخوشگوار واقعے پر کڑھتے ہیںاور تجربے کی بھٹی میں جل کر کندن بننے کا بھی حوصلہ رکھتے ہیں۔ ان کا تخیل، لہجہ، فکر و خیال، خالص اور اچھوتا ہوتا ہے۔ پیاسی دھرتی پر بارش کی پہلی بوندوں کی سوندھی خوشبو اور کچی مٹی کی مہک ان کی تحریروں سے محسوس ہوتی ہے۔ فطری سادگی اور سچائی ایسے لوگوں کو مقصد کے حصول میں مدد کرتی ہے۔ مثبت اور تعمیری نظریۂ ِزندگی، تصنع سے پاک، پُر عزم ہونا ان کی ہمت اور لگن بن جائے تو وہ منزلیں اور امیدو آرزو کے نئے جہان آباد کرنے کی جدوجہد میں مصروفِ عمل رہتے ہیں۔
ہر محبِ وطن صاحبِ قلم کے عہد و پیماں اپنے وطن اور اہلِ وطن کے ساتھ ہوتے ہیں۔ سرکاری اداروں میں اعلیٰ عہدوں پر فائز کچھ خوش نصیب افسران‘ جن کے اندر تخلیقی صلاحیتیں قدرت کی عطا کردہ ہوتی ہیں‘ کیلئے معاشرتی موضوعات اور اصلاحِ معاشرہ کی خاطر خبروں کی تلاش یا ٹوہ میں جانا آسان نہیں بلکہ بسا اوقات ناممکن ہوتا ہے۔ وہ حالاتِ حاضرہ پر بے لاگ تبصرے کرتے نظر نہیں آئیں گے بلکہ ان کے دل کی آنکھ روشن ہوتی ہے اور معاشرے کی ساخت، بناوٹ اور ڈھانچے میں رونما ہونے والی تبدیلیوں اور رویوں‘ چاہے مثبت ہوں یا منفی‘ پر گہری ناقدانہ نظر رکھتے ہیں۔ دنیا کا نظام توازن پر چل رہا ہے اور اگر معاشرہ توازن کھونے لگے تو نقصان کاخدشہ کہیں بڑھ جاتا ہے۔ ایسے میں حالات کو جانچتے ہوئے قومی امنگوں اور ضروریات کا جائزہ لے کر دیکھتے ہیں کہ ہماری ذات، معاشرہ، ملک اور اقدار کس سمت میں سفر کر رہے ہیں۔ ہماری ترجیحات، مسائل اور ان کے حل کیا ہیں اور کیا ہونے چاہئیں؟ ایسی بہت سی گتھیاں سلجھانے کیلئے ابلاغ کے مؤثر ذرائع میں سے ایک کالم نگاری بھی ہے؛ تاہم دورِ جدید کا المیہ یہ ہے کہ لوگوں کے پاس وقت نہیں ہے۔ لکھنے، پڑھنے، کتابوں سے دوستی اور مطالعے کی عادت مفقود ہوتی جا رہی ہے۔ کتب بینی کی جگہ سوشل میڈیا اور الیکٹرانک چینلز نے لے لی ہے۔ ایک طرف سننے کی صلاحیت بڑھ رہی ہے تو دوسری طرف الفاظ خوبصورتی اور ذائقے کی چاشنی سے محروم ہو گئے ہیں۔ دھیمہ لب و لہجہ اور مزاج کی شائستگی بھی معدوم ہوتی جا رہی ہے۔
کسی بھی لکھاری کوغیر جانبدار اور محتاط انداز ِ فکر کیلئے شعوری کوشش اور محنت کرنا پڑتی ہے۔ ذاتی پسند ناپسند، صوبائی، علاقائی، لسانی، سیاسی، مذہبی اور مسلکی وابستگی سے بالاتر ہو کر قومی اور ملکی مفاد کو پیشِ نظر رکھنا آسان نہیں ہوتا۔ ملی یکجہتی اور قومی سوچ کو پروان چڑھانے کیلئے ایسے موضوعات پر علمی اور فکری مکالمے کے ذریعے وہ بکھری اور بٹی ہوئی سوچوں اور نظریات کو معاشرے کی تعمیر و ترقی اور اتحادِ ملی کا راستہ دکھاتے ہیں۔ قارئین کو رہنمائی اور مشاورت مہیا کرتے ہیں تا کہ ان کی توانائیاں مثبت سوچ اور عمل کے ساتھ قومی دھارے میں شامل ہوں۔ وہ امید و آرزو کی خوبصورتی، دلکشی اور رعنائیوں سے لطف اندوز ہوں اور دوسروں کیلئے آسانیاں اور سہولتیں مہیا کریں تا کہ زندگی کو بامقصد اور پُرکیف بنا سکیں۔ زندگی بوجھ نہ لگے بلکہ نعمت‘ رب کا تحفہ اور محبت کی عظیم داستان لگے۔ جب زندگی کے روشن رخ کی بات کی جاتی ہے تو ذاتی رنجشیں، نفرت، حقارت، تنگ نظری جیسی انسانی کمزوریوں اور رویوں سے اوپر نکل کر عقل، فلسفہ، منطق سماجی، ثقافتی اور تہذیبی اقدار کی پاسداری اہم ہو جاتی ہے۔ انفرادیت ضم ہو کر معاشرتی اور اقتصادی بہتری، فلاح و بہبود، بنیادی انسانی حقوق کی فراہمی اور معیاری تعلیم کا حصول بھی مقاصد میں شامل ہو جاتا ہے۔ یوں ایک مخصوص راستے کے بجائے زندگی کے ہر مکتبِ فکر کے لوگوں کے ساتھ میل جول، اپنائیت اور باہمی تعلقات کو فروغ دینے کے لیے بالواسطہ اور بالمشافہ ملاقات اور براہِ راست فیڈ بیک کا سلسلہ ہمیشہ جاری رہتا ہے۔ مسائل کی نشاندہی اور معاملہ فہمی کے ساتھ باہمی چپقلشوں کے حل تلاش کرنے کی تربیت اور تحمل و برداشت کے کلچر کے فروغ کیلئے دانستہ کوشش کرتے رہنا ترجیحات میں شامل ہو جاتا ہے۔ رشتوں کی تعظیم، دھرتی کی محبت، دیہی زندگی کو بناوٹ اور مصنوعی پن سے بچا کر اصل حالت میں اگلی نسلوں تک منتقل کرنا بھی ایک چیلنج ہے۔ اگر اسی رفتار سے تبدیلی رونما ہوتی رہی تو اگلی نسلیں شاید لوک ورثہ میں ہی گائوں کے کلچر کی باقیات دیکھ پائیں گی۔ اسی خوف کے باعث میں نے اصل سے جڑ کر اپنی جڑوں کو مضبوط بنانے کی کوشش کی۔ ہر لکھنے والے کا اپنا منفرد اسلوب اور طرزِ تکلم اس کی طاقت ہوتا ہے۔ ذاتی مشاہدہ، تحقیق، جستجو، مطالعہ، ملکی وبین الاقوامی حالات اور تبدیلیوں پر گہری نظر رکھنے کیلئے وقت اور وسائل کو بروئے کار لایا جاتا ہے۔ بہت سی ذاتی دلچسپیاں اور خوشیوں کی قربانی بھی دینا پڑتی ہے۔ادب، تاریخ، جغرافیہ، حالاتِ حاضرہ، معاشی، سیاسی، سماجی اور ثقافتی ورثے سے آگاہی اور مطالعہ و تحقیق کے بغیر تحریر ادھوری، بے رنگ، پھیکی اور بے جان ہو جاتی ہے۔
میری خوش نصیبی ہے کہ ادب، اقبالیات، اردو شاعری، انگریزی زبان و ادب اور اپنوں کی محبت مجھے ورثے میں ملی۔ میں نے اس کو آگے بڑھ کر بخوشی نہ صرف قبول کیا بلکہ اپنے والدمحترم کی دلی آرزوئوں اور تمنائوں کو عملی جامہ بھی پہنایا۔ صدقِ دل سے ان کے خیالات اور مٹی سے محبت اور اپنے لوگوں کی تعلیمی ترقی کے خواب کی تعبیر میں کوئی دقیقہ فرو گزاشت نہیں کیا۔ دانستہ کوشش کی اور اپنی علمی اور ادبی سرگرمیوں کے ساتھ ساتھ ادارے میں بھی فرائض منصبی ادا کرتے ہوئے حل نکالنے کی روش کو اپنایا۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ سکلز ڈویلپمنٹ، آئوٹ آف باکس تھنکنگ، نئی جہتوں اور طرزِ عمل کو متعارف کرایا جائے۔ موٹیویشنل لیکچرز، ٹیم بلڈنگ وہ عمدہ ٹولز ہیں جو کسی بھی پروفیشنل اور تخلیق کار کو ممتاز حیثیت بخش سکتے ہیں۔ اگر ہم سب محنت کو اپنا شعار اور وتیرہ بنا لیں تو کوئی وجہ نہیں کہ کامیابی ہمارا مقدر نہ بنے۔ وطن کی محبت، دھرتی پہ مان اور اس کے قدرتی حسن، سرسبز پہاڑوں، دریائوں کے زمرد پانیوں، شفاف جھیلوں اور نیلگوں فلک میں کھلے پروں کے ساتھ اڑتے پرندوں کی بلند پروازی میں خود کو دیکھنے کی خواہش اور تمنا ہمیشہ دل میں موجزن رہی۔ صحرا کی وسعتوں، کھلے میدانوں میں دہقانوں اور سمندر کے سینے پر مچھیروں کے بے ساختہ سروں اور اطمینان میں خود کو دیکھا ہے۔ چار سو پھیلی مایوسی، بدگمانی اور غیر یقینی صورتِ احوال کے گہرے ہوتے سائے اور ہیجان انگیزی کی آندھیوں کے باوجود میں نے کبھی امید و آرزو کے چراغ بجھنے نہیں دیے اور ہمیشہ قارئین کو بڑے خواب اور ان کی تعبیریں تلاش کرنے پر آمادہ کرنے کی کوشش کی۔ میں اپنی اس جہدِ مسلسل میں کتنا کامیاب رہا، یہ فیصلہ آپ کریں!

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں