منگل کی صبح ایف بی آر ہیڈ کوارٹرز اسلام آباد میں ایک لائبریری کا افتتاح کیا گیا تو زمانۂ طالبعلمی کے دوران قائد اعظم لائبریری لاہور میں گزرے صبح و شام شدت سے یاد آئے۔ کتاب دوستی سے جڑے جذبات دلِ مضطر میں مچل گئے۔زمانہ چاہے جتنی بھی ترقی کر لے‘ کتاب کا سہارا ضروری ہے۔ لکھے ہوئے حرف کی اہمیت اور افادیت ایک مسلمہ حقیقت ہے۔ جدید کمپیوٹرائزڈ دور میں بھی کتاب بہترین دوست ہے اور زندگی کی کڑواہٹ کو دور کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ مسلسل مطالعہ تنگ نظری کو مٹا کر زندگی کا سلیقہ سکھاتا ہے۔ کتاب وہ نعمت ہے جو بچپن میں تعلیم کا ذریعہ، جوانی میں رہنما، بڑھاپے میں تفریح اور تنہائی کی ساتھی اور دوست ہے۔ یہ برے وقت میں انسان کا سہارا بن کر ساتھ نبھاتی ہے۔ کتاب میں ایسی قوت ہے جو دل و دماغ کو پُرسکون کرتی ہے۔ یہ انسان میں حالات سے مقابلہ کرنے کی صلاحیت پیدا کرتی ہے۔ انسان کی اپنی زندگی خود ایک کہانی ہے۔ کہانی سننے اور سنانے کیلئے اور آنے والی نسلوں تک پہنچانے کیلئے اسے لکھنے کی ضرورت پڑتی ہے۔ متوازن شخصیت اور معاشرتی رویوں کی عکاسی اُس دور کی کتا ب ہی سے ہوتی ہے۔ یہ وہ آئینہ ہے جو قوموں کو عروج و زوال کی حقیقت کا چہرہ دکھاتا ہے۔ وہ اَنمٹ نقوش اور یادگار لمحے‘ گردشِ ایام کی پرچھائیاں جن پہ جم چکی ہوتی ہیں‘کتب خانوں کے بوسیدہ طاقوں میں زندہ رہتے ہیں۔ آنے والی نسلیں کتابوں کے صفحات سے ماضی کے کارناموں اور تاریخ کے اوراق میں دفن قوموں کے خوشی اور غم کے موسموں کو محسوس کرتی ہیں۔
دنیاوی علوم و فنون کی ترقی اور جدت پسندی کے بحث و مباحث ہوں یا خوابوں کی تعبیر تلاش کرنے کی تمنائیں، زیست کے حوالوں کے بغیر معتبر نہیں ہوتیں اور نہ ہی اپنے عہد کی نما ئندہ ہوتی ہیں۔ ازمنہ قدیم ہی سے کتب خانے اور کتاب سے محبت کرنے والے افراد کی تعداد نسبتاً محدود رہی ہے۔ لیکن علم دوستی، جستجو اور زندگی کی مقصدیت کسی بھی معاشرے کی مجموعی سوچ اور نظریۂ حیات کو ظاہر کرتی ہے۔ گزرتے وقت اور حالات نے ہماری زندگی کی تہذیبی اقدار اور روایات کو بدل دیا ہے۔ کتب خانے اور کتاب سے محبت میں بھی کمی آئی ہے۔ مجموعی طور پر نئی کتابوں کی چھپائی کا اگر موازنہ بھارت ہی سے کر لیا جائے تو صرف نئی دہلی میں ہزاروں کی تعداد میں نئی کتابوں کی اشاعت ہوتی ہے۔ ہماری لائبریریاں ویران اور کتابیں گرد آلود ہیں۔ تحقیق و جستجو کم، روایتی اور محدود ہو چکی ہے۔ مکھی پر مکھی مارنے اور انتہائی کم درجے کی معلومات پر تحقیقی مقالات دیکھنے کو ملیں گے جو نہ اکیسویں صدی اور نہ ہی ترقی یافتہ ممالک کی تحقیقات‘ سائنس، فلسفے اور تاریخ کے معیار پر پورے اترتے ہیں اور نہ ہی یہ مقابلہ اور مسابقت کر سکتے ہیں۔کتابوں کی دکانوں پر درسی اور نصابی کتب کے علاوہ شاید ہی کوئی کتاب دستیاب ہو جو ادب، تاریخ، فلسفہ اور سائنسی موضوعات اور حوالوں کیلئے طلبہ کو مدد فراہم کر سکے۔ وجوہات بڑی واضح ہیں؛کتاب خریدنا اب ہماری ترجیحات میں نہیں رہا۔ کھانے پینے کی دیسی و بدیسی‘ سینکڑوں اقسام کی اشیا پر ہزاروں کا بل آسان لگتا ہے جو زبان کے ذائقے اور شکم پروری کے علاوہ کچھ بھی نہیںمگر ہزار‘ پندرہ سو کی کتاب مہنگی لگتی ہے جو کئی نسلوں کو مستفید کرتی ہے
ہماری سوچ، معاشی حالات، سماجی رتبے اور طبقاتی تقسیم نے سوچ کے دھارے بھی بدل دیے ہیں۔ معاشی تفاوت اور طبقاتی نظامِ تعلیم نے معاشرتی اقدار‘ علم کی عظمت اور توقیر کے بجائے دولت کو عزت اور مرتبے کا معیار بنا دیا ہے۔ مطالعے کی عادت مر چکی اور ہم فکرِ معاش میں سر گرم ہو گئے۔ علم زندگی کے بجائے ملازمت اور دولت کے حصول کے لیے حاصل کیا جانے لگا۔ حصولِ علم چند کتابوں، مضامین اور امتحانات تک سمٹ گیا۔ حالانکہ علم جسمانی ضروریات کی تکمیل نہیں بلکہ یہ روحانی و اخلاقی اقدار، روایات، تقافتی ورثے کی حفاظت اور ترویج کا ضامن ہوتا ہے۔ دورِ جدید نے معاشرتی خدوخال کو بدل دیا ہے۔ جدیدیت سے یہاں کوئی بحث نہیں نہ مخالفت کی نیت ہے لیکن نت نئے گیجِٹس، سمارٹ فونز کی سینکڑوں ایپلی کیشنز اور سوشل میڈیا نے انقلاب برپا کر دیا جس نے بہت سی اچھی عادات و اطوار، میل جول کے مواقع اور فرصت کے لمحات میں فیملی کے ساتھ مضبوط تعلقات اور شراکت داری کو بھی متاثر کیا ہے۔ کتاب سے محبت، مطالعے کی عادت اور علم دوستی کے فوائد اور ثمرات سے بھی محرومی دیکھنا پڑی جس سے محبت، ایثار، یکجہتی اور اعلیٰ ظرفی جیسے اوصافِ حمیدہ مفقود ہو گئے۔ اس طرزِ عمل نے معاشرتی رویوں سے شناسائی اور صبر و تحمل سے سوچنے سمجھنے کی صلاحیت بھی چھین لی۔ فنونِ لطیفہ، آرٹ اور کلچر کو بھی پنپنے کی جگہ نہیں مل پا رہی۔ ہم ایک چھت کے نیچے رہتے ہوئے اپنوں کی شفقت، توجہ اور التفات سے محروم ہو چکے ہیں۔دل دور اور سوچ کے محور جدا ہیں۔ مشینوں کے احساسات نہیں ہوتے اور یہ مروت اور رواداری جیسی سنہری معاشرتی اقدار کی حامل نہیں ہوتیں۔ اسی لیے معاشرے میں تنہائی، خود غرضی اور خود پسندی کی طرف مائل ہونے کا اندیشہ بڑھ جاتا ہے۔ اختلافِ رائے کو سہنے اور دوسروں کے نقطۂ نظر کو برداشت کرنے کے بجائے جھوٹ، غلط بیانیوں اور فسق و فجور کی راہ کا انتخاب کرنے کی راہیں روشن ہوجاتی ہیں۔ جسمانی مضبوطی اور نشو ونما کے حصول میں بھی سمارٹ فونز حائل ہیں۔ آنکھوں کی بیماریوں، نیند اور سکون کی کمی، نفسیاتی،ذہنی اور دماغی صحت کے کئی مسائل اس کے سبب پیدا ہو رہے ہیں۔
بات کرنے کا ڈھنگ، روانی، گفتگو کے آداب، رکھ رکھائو اور آہنگ زبان کی چاشنی، ادب، اسلوب، لفظوں کی حرمت اور تقدس کتاب ہی کے مرہونِ منت ہیں۔ لفظ زندہ اور جاندار ہوتے ہیں، یہ بھی دھڑکتے‘ جذبات رکھتے اور کتاب کے سینے میں مچلتے ہیں۔ ترقی یافتہ ممالک نے مشاہدہ، تحقیق اور تاریخ پر بے پناہ کام کیا اور نہ صرف انفارمیشن ٹیکنالوجی بلکہ علمی میدان میں بھی انقلاب برپا کر دیا۔ کتاب اور لائبریری سے محبت مغربی تہذیب کی بنیاد میں سرائیت کر چکی ہے اور ان کی کامیابی کا راز بھی یہی ہے۔ کتاب سے رشتہ اور کلچر وہاں آج بھی مضبوط ہے۔ ریل گاڑی، پارکس اور گھروں میں‘ ہر جگہ کتاب موجود ہے کیونکہ وہ یہ جانتے ہیں کہ دانائی، حکمت،معاملہ فہمی، سنجیدگی اور متانت سنی سنائی باتوں سے نہیں آتی بلکہ شخصیت میں گہرائی اور وسعت کتب بینی ہی سے ممکن ہے اور یہ فیصلہ سازی کی قوت عطا کرتی ہے۔
وطن ِ عزیز میں شاید کم ہی افراد کتاب خریدنے اور پڑھنے میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ سکولوں میں لائبریریاں نہیں‘ اگر ہیں تو کتابیں الماریوں میں بند، طلبہ کی رسائی میں نہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم کتاب دوستی کی طرف مائل ہوں، چھوٹے بچوں کو کارٹونز اور موبائل فون کے استعمال سے دور رکھیں، انہیں کہانی سنائیں اور اپنا وقت دیں۔ چھ برس کی عمر تک انہیں کلچر، زبان، رشتے، آدابِ گفتگو اور معاشرتی رویے سکھائیں۔ جسمانی صحت اور نشو و نما کے لیے کھیل کود کا اہتمام کریں۔ رات سونے سے پہلے فون کو بند کر دیں اور ایک صفحہ ہی سہی‘ اپنی دلچسپی، مشاغل،پیشہ ورانہ زندگی سے متعلق موضوعات پر لکھی ہوئی کتاب ضرور پڑھیں۔ آج کے جدید دور میں کتابوں کو انٹر نیٹ سے ڈائون لوڈ کر کے انتہائی کم قیمت کے عوض بھی پڑھ سکتے ہیں۔ مشہور اور شہرہ آفاق کتابوں کے ترجمے اور مختصر خلاصے بھی دستیاب ہیں، سنیں اور دلچسپی پیدا ہونے کے بعد ضرور خریدیں۔ مصر، روم، ایتھنز، بغداد اور سکندریہ علم و فضل کے مرکز رہے ہیں۔ غرناطہ کے سقوط کے بعد یورپ نے وہاں کے کتب خانوں کا ذخیرہ یورپ منتقل کر دیا۔ فارابی، ابنِ رشد، بو علی سینا کے علمی و ادبی خزانے خرابوں میں دفن ہو گئے اور ہمیں اس کا احساسِ زیاں ہے نہ ادراکِ ندامت۔اسی درد کو ڈاکٹر علامہ محمد اقبالؒ نے یوں بیان کیا:
مگر وہ علم کے موتی‘ کتابیں اپنے آبا کی
جو دیکھیں ان کو یورپ میں تو دل ہوتا ہے سیپارہ