یہ بات طے ہے کہ قدرت ہر شخص کو کسی خاص مقصد کیلئے شرو ع ہی سے منتخب کر لیتی ہے اور پھر ماہ و سال گزرنے کے ساتھ ساتھ اسے اس منزل کے قریب تر کرتی جاتی ہے۔ مستقبل کے نامور انجینئرز زمانہ ٔطالبعلمی سے علمِ ریاضی میں طاق ہوتے ہیں۔ اسی طرح ممتاز ڈاکٹرز سکول کے ایام سے بیالوجی کے ساتھ گہرا شغف رکھتے ہیں۔ شعبۂ سیاست میں نمایاں مقام حاصل کرنے والے بچپن ہی سے خوش گفتار، ملنسار اور فنِ تقریر میں ہنر آزماتے نظر آتے ہیں۔ فطرت انسان کی پرورش اپنی آغوش میں کرتی ہے اور اُس منفرد اور یگانہ کردار کیلئے تیاری کرتی ہے جو اس نے عملی زندگی میں انجام دینا ہوتا ہے۔ سکندرِ اعظم کے بارے میں مشہور ہے کہ وہ ابتدائی ایام میں بھی ریت کے قلعے تعمیر کرکے انہیں اپنے ہاتھوں سے گراکر فتح کا جشن منایا کرتا تھا۔ نپولین بھی بچپن میں کھلونوں سے فوجی لشکر بناتا اور ایک لشکر کو دوسرے پر حملہ آور کر کے لشکر کشی کی ریہرسل کرتا اور جیت کی خوشی مناتا۔ الیگزینڈر پوپ نے شاید اسی لیے کہا تھا کہ:Child is the father of man۔ ایک بچے کی عادات‘ اطوار اور اقدار آنے والے زمانوں میں اس کی شخصیت اور کردار کی عکاس ہوا کرتی ہیں۔ اسی لیے شاید تعلیم، نفسیات اور سماجیات کے دانشور اورماہرین اس بات پر متفق ہیں کہ بچوں کی تعلیم اور تربیت کے ابتدائی سال ان کی شخصیت و کردار کی تعمیر و تشکیل میں مرکزی ستون کی حیثیت رکھتے ہیں۔
میں اپنے زمانۂ طالبعلمی پر نظر ڈالوں تو خود کو خوش قسمت سمجھتا ہوں کہ علم و ادب، شعر و سخن اور تحقیق و تخلیق سے گہری وابستگی، خاص لگائو اور گہرا شغف مجھے ورثے میں ملا ہے۔ طفلِ مکتب کے طور پر صبح سکول کی اسمبلی میں علامہ اقبال کی دعائیہ نظم اور قومی ترانہ باجماعت ادا کرنے سے لیکر تقریری مقابلے، بیت بازی اور اقبالیات میں بڑھ چڑھ کر شرکت میرا پسندیدہ مشغلہ رہا۔ کالج میں ادبی مجلہ کی ادارت اور صوبائی اور ملکی سطح پر ڈبیٹنگ مقابلوں میں شرکت کے علاوہ شعر و شاعری میں دلچسپی اور قومی اخبارات میں مضامین لکھنا۔ فنِ تقریر اور تحریر کے ساتھ ایک رومان سا ہو گیا اور یہی وجہ ہے کہ ماسٹرز ڈگری کیلئے انگریزی ادب کا انتخاب کیا مگر دیگر ہم جماعت دوستوں کی اکثریت کے برعکس جو اپنے نوٹس چھپا کر رکھتے تا کہ وہ امتحان میں نمایاں نمبروں کے ساتھ سرخرو ہو سکیں‘ میرا معاملہ مختلف تھا۔ میں پوری تحقیق و جستجو سے نوٹس تیار کرتا اور پھر اپنے دوستوں میں تقسیم کر دیتا۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ میں ایم اے انگلش کی اپنی کلاس میں بطور ٹیچر انگلش لِنگویسٹکس کا مضمون پڑھاتا رہا۔ ہمارے سینئرز کا فائنل نتیجہ آیا تو ڈرامہ کے پیپر میں بری طرح مار پڑی اور اکثر سینئرز اس مضمون میں کامیابی حاصل نہ کر سکے۔ اس پر ہاسٹل میں میرے کمرے میں ڈرامے کے مضمون پر علمی محفل لگنا شروع ہو گئی جہاں رات کو میں ڈرامے کے اَسرار و رموز اور شیکسپیئر کے ''ہیملٹ ‘‘پر اپنے خیالات کو زیرِ بحث لاتا۔
عملی زندگی کا آغاز بطور لیکچرار ہوا تو گورنمنٹ کالج کمالیہ میں ایم اے انگلش کے طلبہ و طالبات کو پڑھانے کا شرف ملا۔ پنجاب پبلک سروس کمیشن کے ذریعے پولیس انسپکٹر منتخب ہوا تو فیصل آباد کے ایس ایس پی نے پہلے ہی دن انچارج انسدادِ منشیات تعینات کر دیا۔ تربیت کیلئے پولیس کالج سہالہ پہنچے تو وہاں بھی مہمان مقررین کا تعارف اور سٹیج پر آئو بھگت کی ذمہ داریاں مجھے سونپی گئیں۔ گزشتہ بیس سال سے سول سروسز میں ہزاروں نوجوان رہنمائی کیلئے آئے جنہیں پوری دیانت سے مقابلے کے امتحان کی تیاری کے سارے پیچ و خم سمجھائے۔ ان کا ہاتھ تھاما ،نشانِ منزل کی نشاندہی کی، ہمت بڑھائی اور کامیابی کی شاہراہ پر پہنچنے کیلئے ضروری رختِ سفر مہیا کیا۔ راستے کی مشکلات سے نبرد آزما ہونے کے سلیقے سکھائے تو ساتھ ہی دلآویز مناظر اور ان کے ساتھ جڑی فریب آور داستانوں سے بھی خبردار کیا کہ وہ دورانِ سفر بھٹک کر منزل سے دور نہ ہو جائیں اور نہ ہی مشکلات سے ہار کر کٹھن اور صبر آزما سفر سے دستبردار ہوجائیں۔ کوئی تعلیم یافتہ نوجوان سی وی ہاتھ میں لیے نوکری کی سفارش کیلئے آیا تو دورانِ گفتگو اس کی صلاحیت اور قابلیت کا ادراک کر کے اسے نوکری کے بجائے اپنا کیریئر بنانے اور آگے بڑھنے کے گُر بتائے۔
سوشل میڈیا کا زمانہ آیا تو فیس بک، میسنجر، وٹس ایپ اور موبائل فون کے ذریعے ملک بھر سے نوجوان رابطے میں آگئے۔ ان کی الجھنیں، پریشانیاں اور مشکلات سے واسطہ پڑا، ان کے تعلیمی سفر میں مسائل سے لے کر کیریئر ڈویلپمنٹ تک ان کی رہنمائی کرنے کی حتی المقدور کوشش کی۔ گزشتہ چند سالوں سے وٹس ایپ گروپس میں نوجوان طلبہ و طالبات کو مقابلے کے امتحانات کی رہنمائی، نوٹس، متعلقہ کتب اور مختلف محکموں میں ہونے والے امتحانات اور اس سلسلے میں تیاری کیلئے درکار ضروری ٹپس شیئر کیے جاتے ہیں۔ کچھ میسجز کے ذریعے اپنی بات پہنچاتے ہیں اور چند براہِ راست کال کر لیتے ہیں۔ میری ہمیشہ کوشش رہتی ہے کہ جلد یا بدیر ان سب کے سوالات کے جوابات دوں، درپیش مسائل میں ان کی معاونت کروں اور ترغیب اور تلقین کے ذریعے انہیں کامیابی کی منزل کی طرف راغب کرتا رہوں۔ بعض دفعہ والدین یا طلبہ خود وقت طے کر کے آفس میں ملاقات کیلئے پہنچ جاتے ہیں۔ سوشل میڈیا کی ایک خوبصورتی یہ بھی ہے کہ اس نے پاکستان بھر سے نوجوان طلبہ و طالبات کو مقابلے کے امتحانات کی تیاری کیلئے بہت سے آن لائن ذرائع میسر کر دیے ہیں۔ اب سی ایس ایس یا پی ایم ایس کی تیاری اور اس کیلئے درکار ضروری معلومات ہمہ وقت سوشل میڈیا پر موجود ہیں۔
گزشتہ ماہ لورالائی بلوچستان سے تعلق رکھنے والے حبیب اللہ غلزئی اور ان کے چھوٹے بھائی سیف اللہ میرے دفتر آئے تو بڑی تفصیل سے اپنی کہانی سنائی کہ والد کی وفات کے بعد غربت اور پسماندگی سے لڑائی لڑ کر انہوں نے تعلیم حاصل کی اور 2016ء میں ایک کالم میں ہمارے خاندان کی جدوجہد کی داستان پڑھ کر وہ متاثر ہوئے اور انہیں آگے بڑھنے کا حوصلہ ملا۔ حبیب اللہ نے فیس بک کے ذریعے مجھ سے رابطہ کیا، اپنی بے کسی کے احوال بیان کیے، اپنے خواب، ارمان اور آرزوئوں کے جہان سے روشناس کرایا۔ میں حتیٰ المقدور ضروری معلومات فراہم کرتا رہا، جہدِ مسلسل کیلئے للکارتا رہا اور پھر ایک دن حبیب اللہ صوبائی پبلک سروس کمیشن کے ذریعے اسسٹنٹ سیکرٹری ریونیو منتخب ہو گیا اور اگلے ہی سال اس کا چھوٹا بھائی سیف اللہ مقابلے کے امتحان کے ذریعے جیل خانہ جات میںڈپٹی سپرنٹنڈنٹ منتخب ہو گیا۔ اس سال دونوں بھائی اسلام آباد میں سی ایس ایس کا امتحان دینے آئے اور فراغت کے بعدمیرے آفس پہنچے۔
آج پیچھے مڑ کر دیکھتا ہوں کہ بیس برس پہلے سی ایس ایس کرنے کے ساتھ ہی کس طرح مجھے مختلف اکیڈمیز اور اداروں نے بھاری معاوضے کے عوض ورغلانے کی کوشش کی، لالچ دیے اور معاشی آسودگی کے آسان راستے بتائے کہ میں محض چند لیکچرز دے کر مقابلے کے امتحانات کے خواہشمند طلبہ و طالبات سے بھاری بھرکم فیس طلب کر کے مال و زر کے انبار لگا لوں مگر محسوس ہوتا ہے کہ ربِ کریم نے شروع دن سے علم و دانش کے ورثے کو فیضِ عام کے شکل میں تقسیم کرنے کیلئے میرا انتخاب کیا اور میں اسے ہمیشہ اپنے لیے سعادت گردانتا ہوں۔ ذہن میں اکثر یہ سوال انگڑائی لیتا ہے کہ جس طرح مال و زر کے نصاب کیلئے زکوٰۃ کی شرح مقرر ہے اسی طرح علم کی دولتِ بے پایاں پر بھی خیرات واجب ہے اور عطا کردہ علم کے خزانوں میں سے بانٹنا دراصل خیر کی خیرات ہے۔ چار سو مایوسی، بے کسی اور بے نوائی کے ڈیرے ہوں، شبِ ظلمت کے اندھیرے ہوں تو امیدو آرزو کے چراغ جلا کر روشنی کے بسیرے ممکن بنائے جا سکتے ہیں اور خیر کی خیرات بانٹنے والے مختصر قافلے کو ایک بڑا کارواں بنایا جا سکتا ہے۔