گزشتہ اتوار آبائی گائوں سے ماموں کی رسمِ قل کے بعد فیصل آباد روانہ ہوا ہی تھا کہ جیدی میاں نے بذریعہ فون اطلاع دی کہ ہمارے پروفیسر رحمت علی المعروف بابا جی تعزیت کیلئے تشریف لانا چاہتے ہیں۔ عشا کے بعد کا وقت طے پا گیا۔ حسبِ پروگرام رات نو بجے بابا جی اور جیدی میاں میری رہائش گاہ پر پہنچ گئے۔ دعائے مغفرت اور اظہارِ تعزیت کے بعد بابا جی نے دنیا کی بے ثباتی پر گفتگو کی۔ انسان کی مادہ پرستی، دنیاوی آسائشوں اور مال و زر کے حصول میں بے جا مصروفیات کا تذکرہ ہوا۔ شہری زندگی اور گائوں کے طرزِ معاشرت کا موازنہ ہوا۔ معیارِ زندگی اور اشیائے خورو نوش میں ملاوٹ اور گراوٹ پر سیر حاصل گفتگو کی گئی۔ بابا جی نے توقف کیا تو جیدی میاں ہمیشہ کی طرح موقع کی تلاش میں تاک لگائے بیٹھے تھے۔ اچانک انہیں برطانیہ اور یورپ میں گزرے ہوئے اپنے روز و شب یاد آگئے اور پھر معیارِ زندگی کے عمومی تصّورات سے لے کر اس کے مختلف عملی پہلوئوں پر وہ دل کھول کر بولے۔ قارئین جانتے ہیں کہ جیدی میاں ایک قانون دان ہیں۔ یورپ اور برطانیہ کی درسگاہوں سے قانون کی تعلیم حاصل کرنے کے بعد لاہور میں لا کالجز میں درس و تدریس ان کا مشغلہ ہے جبکہ دن کا پہلا حصہ وہ اپنے کلائنٹس کیلئے انصاف کا حصول ممکن بنانے میں گزار دیتے ہیں۔ وہ سول مقدمات میں مہارت رکھتے ہیں اور بابا جی کی تربیت اور صحبت کی وجہ سے غریب اور مستحق افراد کو مفت قانونی امداد بھی فراہم کرتے ہیں۔
معیارِ زندگی پر اپنی گفتگو آگے بڑھاتے ہوئے جیدی میاں نے برطانیہ اور پاکستان کے درمیان موازنہ کرتے ہوئے تین ٹھوس فرق بتائے اور دلائل دینا شروع کیے۔ وہ کہنے لگے کہ ہمارے ہاں تین خاموش قاتل ہیں۔ سب سے پہلا اور خطرناک قاتل غصہ ہے۔ ہمارا غصہ ہمیں اندر سے کھا جاتا ہے اور ہمیں پتا بھی نہیں چلتا۔ غصے کی وجوہات میں سب سے بڑی وجہ بدنظمی ہے، بے ترتیبی اور لاقانونیت ہے۔ گھر میں نوکر سے لے کر باہر سڑک پر ٹریفک کے بے ہنگم انداز اور دفتر میں نکمے مگر اثر و رسوخ والے ملازمین کی چیرہ دستیوں تک‘ ہر جگہ اور ہمہ وقت غصے کا سبب بنے والے اسباب موجود ہوتے ہیں۔ بازار خریداری کرنے جائیں تو دکاندار اپنی من مانی کرنے پر اصرار کرتے ہیں اور مرضی کی قیمت وصول کرنے کے باوجود گلے سڑے پھل اور سبزیاں شاپنگ بیگ میں ٹھونسنے سے گریز نہیں کرتے۔ مہنگائی، لوڈ شیڈنگ اور ملاوٹ کے علاوہ جھوٹ، وعدہ خلافی، مکر و فریب، عیاری و مکاری کے ساتھ قانون شکنی نے بھی ہمارے معاشرہ میں غصے کے بے پناہ فروغ میں اپنا حصہ ڈالا ہے۔
دوسرا خطرناک قاتل انجانا خوف ہے جو ہماری ہڈیوں تک میں سرایت کر چکا ہے۔ بے یقینی کی کیفیت سے دو چار ہم ہر وقت کسی نہ کسی خوف میں مبتلا رہتے ہیں۔ بچوں کو سکول بھیجتے ہوئے اس بات کا ڈر لگا رہتا ہے کہ وہ کسی حادثے کا شکار نہ ہو جائیں، کوئی من چلا ان کی موٹر سائیکل یا گاڑی کو ٹکر نہ مار دے۔ اپنے گھر کے باہر گاڑی کھڑی کریں تو اس بات کا دھڑکا لگا رہتا ہے کہ کوئی کار چور اپنا کام نہ دکھا جائے لہٰذا اسی لیے بار بار نظریں ڈرائنگ روم کے پردے کو ہٹا کر باہر کی طرف لگی رہتی ہیں۔ سفر کے دوران دل کی دھڑکنیں اس لیے تیز ہو جاتی ہیں کہ کہیں کوئی ڈاکو اچانک کہیں سے نمودار نہ ہو جائے۔ کاروباری طبقہ ڈالر کی اڑان کے سبب اور عام لوگ مہنگائی کے طوفان کے سبب قوتِ خرید کم پڑنے پر پریشان رہتے ہیں۔ سٹاک مارکیٹ میں اچانک مندی کے رجحان کے سبب لوگوں کے اربوں روپے چند لمحات میں ڈوب جاتے ہیں۔ عدم استحکام اور معاشی زبوں حالی کے اثرات ہر شعبۂ زندگی اور اس سے وابستہ افراد تک پہنچتے ہیں۔ لہٰذا ہر شخص کسی نہ کسی خوف کے حصار میں جکڑا رہتا ہے اور ہمہ وقت اسے کسی انہونی کے ہو جانے کا اندیشہ لاحق رہتا ہے۔ یہی انجانا خوف ہر فرد کو اپنے بچوں کے مستقبل کے بارے میں پریشانی سے دو چار رکھتا ہے۔ عمر بھر کی کمائی، بچوں کی تعلیم، مہنگے اداروں کی فیسوں اور ٹیوشن کے باوجود ان کی ملازمت یقینی نہیں بنائی جا سکتی تو بے بس والدین کے چہرے لاچارگی کی تصویر بن جاتے ہیں۔
جیدی میاں کی گفتگو بابا جی اور مجھے اپنے سحر میں جکڑ چکی تھی۔ بہت عرصے بعد بابا جی نے جیدی میاں کو بلا روک ٹوک بولنے کا موقع دیا۔ تیسرے خاموش قاتل پر بات کرتے ہوئے جیدی میاں کا کہنا تھا کہ تنقید برائے تنقید بھی ایک زہرِ قاتل ہے اور انسانی صحت و بقا کا دشمن ہے۔ ہمارا وتیرہ بن چکا ہے کہ ہم بلاوجہ تنقید کرنا اور دوسروں کو تضحیک کا نشانہ بنانا اپنا حق سمجھتے ہیں۔ دوسروں کے نجی معاملات ہوں یا لباس کی پسند و ناپسند‘ ہم اپنی ٹانگ اڑانا اور خواہ مخواہ مشورے دینا اپنا فرض سمجھتے ہیں۔ پریشانیوں میں الجھے والدین اپنے بچوں کو بات بات پر ٹوکتے ہیں، سرزنش کرتے ہیں اور ان کی چھوٹی سے چھوٹی غلطی کو ناقابلِ معافی گناہ بنا دیتے ہیں۔ اس بے جا تنقید سے وہ خود اعتمادی کی دولت سے محروم ہو جاتے ہیں۔ جس سے نہ صرف ان کی تعلیمی کارکردگی بری طرح متاثر ہوتی ہے بلکہ ان کی جسمانی و ذہنی صحت پر بھی بہت برے اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ وہ حقیقی خوشی اور سکون سے میلوں دور مایوسی، پریشانی اور خوف کے گھٹاٹوپ اندھیروں میں کھو جاتے ہیں۔ سرکاری دفاتر ہوں یا نجی آفس‘بیشتر باسز یا سینئرز ڈانٹ ڈپٹ کو اپنا شیوہ بنا لیتے ہیں اور 'ڈومور‘ کا پرچار کرتے نظر آتے ہیں۔ ماتحت چاہے اپنا پورا تن من دھن لگا کر دیے گئے اہداف حاصل کرے اور توقعات سے بڑھ کر کارکردگی دکھائے‘ تب بھی وہ شاباش نہیں لے پاتا اور کسی معمولی سے معاملے یا چھوٹی سی بات کو طول دے کر اس کے سینئرز اسے تنقید و تضحیک کا نشانہ بنانا اپنے لیے باعث افتخار سمجھتے ہیں۔ ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہم چار انگلیاں اپنی طرف موڑ نے کے بجائے ایک انگلی ہمیشہ دوسروں کی طرف کیے رکھتے ہیں اور بلاوجہ تنقید کے نشتر چلا کر دوسروں کا سینہ چھلنی کر کے فخر کرتے رہتے ہیں۔ یہی تین بڑی وجوہات ہیں جو انسانوں کو اندر سے کھوکھلا کر دیتی ہیں اور آہستہ آہستہ انہیں بے وقت موت کی آغوش میں پہنچا دیتی ہیں۔ اس کے برعکس دیگر ترقی یافتہ معاشروں میں بلاوجہ غصہ نہیں آتا۔وہاں کے مضبوط اور مربوط نظام کے سبب ہر شے میں حسنِ ترتیب موجود ہوتا ہے۔ ہر چیز اپنی جگہ اور ہر شخص اپنے کام میں مگن زندگی کو پوری رعنائیوں کے ساتھ جیتا ہے۔ غیر یقینی کی صورتِ حال ہے اور نہ ہی عدم تحفظ کا احساس، بے ہنگم ٹریفک ہے اور نہ ہی جھوٹ، مکر و فریب کی داستانیں۔ ہر شے اصلی اور نسلی ہے۔ صحت و صفائی کا ایک ٹھوس سسٹم ہمہ وقت میسر اور انسان دوست معالج خالص ادویات کے ساتھ انسانی جان بچانے کیلئے حتی المقدور کاوشوں میں مصروفِ عمل رہتے ہیں۔ انجانے خوف سے مکمل آزادی ہے اور چوری، ڈکیتی، ٹھگی،فراڈ اور عیاری و مکاری کے خدشات بھی نہ ہونے کے برابر ہیں۔ قانون کی عملداری ہے اور پاسداری بھی۔ جھوٹ اور ملاوٹ کی نہ عادت ہے اور نہ روایت۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ معاشرے میں انسانی مساوات اور عزت و تکریم کا ایک باقاعدہ مروجہ نظام موجود ہے۔ ہر شخص آپ کو ہیلو‘ ہائی کہتے گزرتا ہے۔ کوئی آپ کی ٹائی کی تعریف کرتا ہے تو کوئی آپ کے بالوں کی۔ مختلف بہانوں سے آپ کی عزت، تعریف اور تکریم کا ایک رواج موجود ہے۔ صبح سے لے کر شام تک آپ کو ملنے والا ہر شخص آپ کو اہمیت دیتا ہے اور آپ کی عزتِ نفس کو مقدم سمجھتا ہے۔ رات گھر واپسی تک آپ خود کو بادشاہ ِ وقت تصور کرنے لگتے ہیں اور شاید ایک آدھ پائو اضافی خون بھی شریانوں میں دوڑنے لگتا ہے۔ یوں زندگی کی ساری سچائیاں، رعنائیاں اور توانائیاں اپنے اصلی رنگوں میں ہر انسان کے چہرے پر نمایاں طور پر دیکھنے کو ملتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ وہاں لوگ لمبی عمریں پاتے ہیں اور بے وجہ اور بے وقت موت کا شکار نہیں ہوتے۔ جیدی میاں کی بات مکمل ہوئی تو بابا جی نے اثبات میں سر ہلاتے ہوئے اس کی تائید کی اور اگلی محفل میں گفتگو کا سلسلہ یہیں سے جوڑنے اور ان باتوں کا تفصیلی جواب اگلی نشست میں دینے کا وعدہ کرتے ہوئے اپنے گھر کوروانہ ہو گئے۔