بظاہر چاند جیسے لوگ

عورت سراپا محبت ہے۔ خالقِ دو جہاں نے اسے محبت کی مٹی میں گوندھ کر بنایا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ محبت اس کی سب سے بڑی طاقت بھی ہے اور سب سے نمایاں کمزوری بھی۔ اکثر اوقات یہ محبت کی تلاش میں دھوکا بھی کھا لیتی اور نقصان بھی کرا لیتی ہے مگر اپنی محبت کو پانے کے لیے وہ اپنے سامنے آنے والے ہر طوفان کا رخ موڑنا جانتی ہے۔ یہ بھی درست ہے کہ معاشرہ عورت اور مرد کے خوبصورت اور حسین امتزاج سے ہی تشکیل پاتا ہے اور پنپتا ہے۔ باہمی اعتماد اور اعتبار اس تعلق میں مٹھاس اور رنگ بھرتے ہیں مگر ضرورت اس امر کی ہے کہ اسے 'ظاہروں‘ اور'شاہنوازوں‘ کو پہچاننا ہوگا اور ان کے چہروں کے پیچھے چھپے کردار کو بھی۔ ان کے کردار کو بگاڑنے والے عوامل کو سمجھنا اور ان کا سدِ باب کرنا ہو گا تا کہ کوئی بھی انسانیت کی تضحیک نہ کرے اور نہ ہی اپنی زندگی کو نشے اور بے اعتدالیوں کی نذر ہونے دے۔ ایمنسٹی انٹر نیشنل کی ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ دنیا کے کسی بھی ملک میں خواتین کی وہ عزت اور تکریم نہیں اور نہ ہی وہ قدر ہے‘جو ان کے مقابل مردوں کو حاصل ہے۔ تمام سماجی طبقات، معاشروں اور نسلوں سے تعلق رکھنے والی خواتین اپنے بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی کے خطرے سے دوچار رہتی ہیں۔ انہیں ہمیشہ بے آبرو ہونے کا خوف لاحق رہتا ہے۔ ذہنی، نفسیاتی، جذباتی اور جسمانی تشدد کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے۔ انسانی حقوق کی تنظیموں اور اداروں نے کچھ اعداد و شمار بھی اکٹھے کیے ہیں جن سے یہ حقیقت آشکار ہو جاتی ہے کہ ترقی پذیر ممالک کی خواتین ہر طرح کے استحصال کا شکار ہوتی ہیں۔ لڑکیوں کی تعلیم ہو یا سماجی رتبہ، روزگار کی فراہمی ہو یا جائیداد میں حصہ، خواتین اَن گنت مشکلات کا شکار ہیں۔ خواتین کو برابر کے انسان کا درجہ بہت سے معاشروں میں اب تک نہیں مل سکا۔ رسم و رواج ہوں یا علاقائی اور خاندانی جھگڑوں کے فیصلے، ان میں عورتوں کی قربانی اور غیرت کے نام پر قتل جیسی روایات عام ہیں۔ گویا عورت کو استعمال کی اشیا کی طرح ذاتی ملکیت سمجھا جاتا ہے۔ وہ ایک جیتا جاگتا انسان ہے جس کے دل میں خواہشات ہیں۔ اسے درد بھی ہوتا ہے، وہ کڑھتی ہے، تڑپتی ہے۔ وہ بند دروازوں کے پیچھے بغیر آنسوئوں کے روتی ہے۔ کھیتی باڑی ہو یا گھریلو کام کاج‘ وہ خوش دلی سے ہر کام کرتی ہے مگر اپنے ارد گرد لوگوں سے صرف عزت اور محبت کی تمنا رکھتی ہے۔
بلاشبہ اسلام نے عورت کو بہت اعلیٰ مقام عطا کیا ہے۔ ماں ہو، بیوی ہویا بیٹی، اس کے حقوق کا تحفظ کیا ہے۔ اس کے نان نفقہ کا ذمہ دار مرد کو ٹھہرایا ہے۔ اولاد کی تعلیم و تربیت کو لازم قرار دیا ہے۔ جائیداد میں اس کا حصہ مقرر کیا ہے۔ مگر کتنی عجیب بات ہے کہ مسلم معاشروں میں بھی عورت کے جذبات سے کھیلا جاتا ہے اور اکثر اسے جائیداد سے محروم رکھا جاتا ہے۔ پڑھی لکھی خواتین کو خود سر کہہ کر ڈرایا جاتا ہے لیکن ہم یہ بھول جاتے ہیں کہ عورت خاموشی اختیار کر لیتی ہے، مصلحت کی بکل مار لیتی ہے مگر کبھی بھولتی نہیں۔ وہ باتیں دل میں رکھتی ہے۔ اسے محض محبت کی زبان سمجھ آتی ہے۔ وہ نور مقدم ہو یا سارہ انعام! کسی بھی براعظم میں بسنے والی، کسی بھی رنگ، شکل اور نسل سے ہو کیونکہ بقول شیکسپیئر ''محبت بالآخر ہر شے فتح کر لیتی ہے۔ آئو ہم اس کے آگے ہار مان لیں‘‘۔ البرٹ کامیو نے کہا تھا '' اگر مجھے اختلافات پر کتاب لکھنی ہو تو اس کے سو صفحات ہوں گے، ننانوے خالی ہوں گے اور آخری صفحے پر مجھے لکھنا چاہئے میں صرف ایک فرض کو پہچانتا ہوں اور وہ ہے محبت کرنا ‘‘۔
دنیا جس تیزرفتاری سے بدل رہی ہے اس نے تہذیب و تمدن کے ساتھ اچھائی اور برائی کے پیمانے بھی بدل دیے ہیں۔ سوشل میڈیا نے فاصلے سمیٹ کر پوری دنیا کو ایک ٹچ سکرین کے پیچھے لاکھڑا کیا ہے۔ بچوں اور والدین کے درمیان رابطہ اور تعلق کمزور ہو گیا ہے۔ مشاورت اور فیصلہ سازی‘ جو سب گھر والے مل کر کرتے تھے وہ روایت اب مفقود ہو چکی ہے۔ خاندان اور گھر وہ ادارے ہیں جہاں سے محبت اورخود شناسی ملتی ہے۔ مگر بدقسمتی سے یا والدین اتنے لاپروا ہو گئے ہیں یا بچے خود سر‘کہ اس کے نتیجے میں سرد مہری اور لاتعلقی کی اَن دیکھی خلیج ہر گزرتے دن کے ساتھ بڑھتی جا رہی ہے۔ موبائل فون اور سوشل میڈیا نے کچھ ایسی دنیائوں سے روشناس کرایا ہے جن کی ہماہمی میں نوجوان نسل اپنی معاشرتی اقدار کو بھول چکی ہے۔ روحانی بالیدگی تو درکنار جسمانی صحت کا خیال، کھیل، ورزش اور واک کا اہتمام بھی نہیں کیا جاتا۔ سوشل میڈیا پر تخریبی سرگرمیوں، منشیات فروشی اور جنسی جرائم کے گروہ سر گرم ہیں۔ ہر طرح کی بلیک میلنگ ہو رہی ہے۔ بچے خوف میں مبتلا ہو کر والدین سے مشاورت نہیں کرتے اور نہ ان پر اعتماد کرتے ہیں۔ اکثر والدین کا رویہ بھی خاصا عجیب ہے۔ اخلاقی درجے پر بچوں کو پرکھا اور اخلاق اور کردار کے بہت اعلیٰ و ارفع معیارات کی توقعات ان سے وابستہ رکھی جاتی ہیں۔ بچے باہر ہر طرح کے لوگوں سے میل جول رکھتے ہیں۔ کالج، سکول، یونیورسٹی، ہاسٹل‘ سب جگہ اچھائی کے ساتھ بعض آلائشوں اور آلودگیوں سے بچنا ان کے لیے مشکل ہو جاتا ہے۔ ان وجوہات کے سبب بچے کچھ غلط کر بھی لیں تو ان کے ساتھ مار پیٹ، لعن طعن اور طنزیہ انداز اپنایا جاتا ہے۔ معافی کی قطعاً گنجائش نہیں دی جاتی نہ الجھن کو سمجھنے اور اصلاحِ احوال کا موقع دیا جاتا ہے۔ وہ بچے کو فرشتہ دیکھنے کی تمنا رکھتے ہیں۔ اسی لیے بچے ان سے جھوٹ بولتے ہیں۔ دوسری قسم کے والدین سب کچھ روپے پیسے اور لاڈپیار سے حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ وہ بچوں کی غلطیوں کو بہادری، انا، رعب اور ہائی سٹیٹس کے باعث فخر اور بڑائی کے طور پر دیکھتے ہیں اور ان کے جرائم چھپا لیتے ہیں۔ یہی بچے آئس، شیشہ، اور ڈانس پارٹیوں کا اہتمام کرتے ہیں۔ نشے کی حالت میں ہوش سے بیگانہ فرد دوسروں کو نقصان پہنچانے کے علاوہ اور کیا کر سکتا ہے؟ سارہ کی مثال لیں۔ جانتے بوجھتے ایک نشہ باز اور بے روزگار مرد کے رعب سے مغلوب ہو گئی جو معاشی طور پر بھی آسودہ حال نہیں تھا۔ وہ خوش باش مسکراتی لڑکی آئیڈیل ازم کا شکار ہو گئی۔ شاید وہ پُرعزم تھی کہ اپنے شوہر کو عمدہ اخلاق اور محبت سے سنوارلے گی۔ جب اسے شاہنواز کے نفسیاتی مسائل کے حوالے سے آگاہ کیا گیا تو اس نے کہا کہ وہ سونے کا دل رکھتا ہے جسے وہ اپنے پیار کی بھٹی میں کندن بنا دے گی اوریہی خوش فہمی اُس کے لیے جان لیوا ثابت ہوئی۔
ان دنوں طویل مدت کے بعد انگلش کرکٹ ٹیم کا پاکستان کا دورہ خبروں کی زینت بنا ہوا تھا مگر گزشتہ جمعرات کی شام دل دہلا دینے والی خبر نے سب کو نور مقدم کی جواں سال دردناک موت کی یاد دلا دی۔ سارہ انعام سمندر پار سے رنگین خواب آنکھوں میں سجائے زندگی بھر کا ساتھ نبھانے کیلئے آئی تھی، خون میں لت پت پائی گئی۔ بدقسمتی سے ہمارے ملک کے سماجی ڈھانچے کا دامن تار تار ہو رہا ہے۔ کئی معصوم فرشتے ہوس کے پجاریوں اور نشہ بازوں کی درندگی کا شکار ہو رہے ہیں۔ دوسری طرف پڑھے لکھے نوجوان سوشل میڈیا پر متعارف ہو کر عمر بھر کے بندھن میں بندھنے کے فیصلے بھی خود ہی کر لیتے ہیں۔ اپنی کم علمی اور سادگی کے باعث وہ ہر چمکتی چیز کو سونا سمجھ لیتے ہیں۔ بھارت کے نامور شاعر گلزار کی نظم ''گرہیں‘‘ بہت یاد آ رہی ہے۔ گلزار جو لاہے کی مہارت کو سراہتے ہوئے نہ صرف اس کے دستِ ہنر کی داد دیتے نظر آتے ہیں بلکہ یہ درخواست کر تے ہیں کہ مجھے بھی کچھ ترکیب سکھا دو۔ تم جب تانابانا بُنتے ہو اور اگر دھاگا ٹوٹ جائے یا ختم ہو جائے تو کس مہارت سے تم گرہ کی بُنت میں نفاست سے کام لیتے ہو، جوڑ لگاتے مگر گرہیں ظاہر نہیں ہوتیں۔ شاعر نے اپنی کم علمی کا اظہار کرتے ہوئے بر ملا اعتراف کیا کہ اس نے ایک گرہ لگائی تھی‘ رشتہ جوڑا تھا مگر بُنت میں گرہیں نمایاں اور بدصورت لگ رہی تھیں۔ ہمارے سماج کی بُنت میں بھی دھاگا الجھا ہوا ہے، گرہیں بھدی شکلوں میں نمایاں ہو رہی ہیں۔ دھاگے ریشم کی ڈوری کی طرح الجھتے جا رہے ہیں۔ گلزار نے جن گرہوں کی بات کی ہے وہ ذہنی اور نفسیاتی گرہیں ہیں جو معمہ بن جاتی ہیں۔ مادہ پرستی اور سوشل میڈیا کی آڑ میں چھپے ہوئے بظاہر چاند جیسے لوگ اندر سے کتنے بھیانک اور خوفناک ہیں، اس کا اندازہ لگانا تصنع، بناوٹ اور مکر و فریب سے لتھڑی ہوئی ہماری سوسائٹی میں ممکن نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ آئے روز کوئی نہ کوئی زینب، نور مقدم اورسارہ انعام اپنی زندگی کی بازی ہار کر ان مکروہ چہروں کو بے نقاب کرتی جا رہی ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں