انسان کی زندگی گھڑی کی ٹک ٹک کے ساتھ مل کر رِدھم بناتی ہے۔ صبح صادق آنکھ کھلنے کے ساتھ ہی ہم گھڑی کے ساتھ بھاگنے لگتے ہیں۔ اسی ترتیب کا نام زندگی ہے۔ لیکن کبھی آنکھ کھلنے پر پہروں بے مقصد لیٹے چھت کو گھورتے ہوئے یہ خیال آتا ہے کہ کس سہولت سے نظامِ کائنات اپنے خالق کے حکم کے تابع چل رہا ہے۔ دن کے بعد رات‘ رات کے بعد دن، لیکن اس ترتیب سے چلتی دنیا میں کبھی کبھی انسان کے اندر بے ترتیبی کا الگور تھم چل پڑتا ہے اور سوچوں کے نئے جہان میں ایک کھڑکی کھل جاتی ہے۔ بالکل اسی طرح جیسے ساکن جھیل میں کنکر پھینکنے سے کچھ دیر تک لہریں ہلچل مچاتی ہیں اور پھر دوبارہ سکون طاری ہو جاتا ہے۔ زندگی بھی اسی طرح ہے‘ جب چاہے شروع ہو جاتی ہے اور جہاں چاہے ختم ہو جاتی ہے۔ انسان بڑی عجیب مخلوق ہے، سوچتا ہے پھر عمل کرتا ہے اور عمل کے عین دوران پھر سوچتا ہے اور اپنے عمل پر نظر ثانی کرتے کرتے اپنی اس سوچ پر بھی نظر ثانی کرتا ہے جس کے تحت سفر کا آغاز کیا تھا۔ یوں یہ کھیل جاری رہتا ہے اور دل و دماغ کے مابین مسلسل کشمکش جاری رہتی ہے۔
ہمارا پس منظر بلکہ سارا منظر ہی انسانوں کا مرہونِ منت ہے۔ اگر ہم غور کریں تو اس امر سے آگاہی ہوتی ہے کہ ساری اہمیت انسانوں کی ہے‘ وقت کی ہے‘ بدلتے مناظر کی ہے‘ وابستگیوں کی ہے‘ وار فتگیوں کی ہے‘ محبت کے جذبات و احساسات کی ہے۔ جزو سے کل کی اور کل سے جزو میں جذب ہونے کی ہے۔ مثلاً میرے پاس آنکھیں ہیں، نظر ہے مگر میرا منظر تو من پسند چہرے کا مرہونِ منت رہے گا۔ اگر میرے ارد گرد لوگوں کی آوازیں نہ ہوں تو میری حسِ سماعت کس کا م کی؟ اگر میری بات سننے والا کوئی نہیں تو الفاظ کی کیا اہمیت رہ جاتی ہے؟ دل میں کسی کے چہرے کا عکس نہ ہویا جذبات نہ ہوں، محبت نہ ہو تو اِس گوشت کے لوتھڑے کی کیا اہمیت رہ جاتی ہے؟ ہمارا جیون بھی کسی کہانی جیسا ہے۔ اس کہانی میں کچھ نیا نہیں‘ سب کچھ پرانا ہے، بہت قدیم! پہلے انسان کی پیدائش کے ساتھ ہی ایک کہانی نے جنم لیا اور پھر چل سو چل، کہانیاں ہی کہانیاں ہیں۔ خوشی کی، غمی کی۔ کہانیوں کا ایک جال بچھا ہوا ہے۔ کچھ ادھوری، کچھ پوری۔ کسی کہانی میں آغاز کا باب نہیں اور کہیں انجام کا کوئی نشان نہیں۔ ہم اپنے اپنے کرداروں میں بٹے، دائروں میں سفر کرنے کے پابند بن چکے ہیں۔ دائروں کے سفر کی کوئی منزل ہوتی ہے، نہ انجام۔ مسافر عمر بھر منزل کی تلاش میں سرگرداں رہتا ہے مگر ایک دن اس پر حقیقت کا انکشاف ہوتا ہے کہ جس منزل کی تلاش میں وہ ہے‘ وہ منزل تو اس کے اپنے ہی اندر ہے۔ اس کے اندر رنگوں، خوشبوئوں اور محبتوں کا دریا ٹھاٹھیں مار رہا ہے۔ سارے موسم اپنے رنگوں کے ساتھ منتظر ہیں۔ اللہ تعالیٰ کی سب سے بڑی نعمت جو ہمیں عطا کی گئی ہے وہ ہے بھولنے کی عادت اور امید۔ امید کا جہاں جس دل میں آباد ہو جائے وہ دل کبھی مایوسی، بیزاری اور بے حسی کے اندھیرے میں نہیں رہتا۔ دنیا میں کوئی بھی ایسا انسان نہیں ہوگا جو امید اور توقع کے ساتھ مربوط نہ ہو۔ ہم ہمیشہ زندگی کی بہتر سہولتوں، نعمتوں اور خوشیوں کے متلاشی رہتے ہیں۔ اس کے لیے محبت، سکون اور کامیابیوں کی دعائیں بھی مانگتے ہیں۔ اس خواہش کے ساتھ کہ کچھ لمحے راحت اور خوشی کے نصیب ہوں۔ ہم پریشانی اور تکلیف کے لمحوں میں مایوس اور بے چین ہوتے ہیں۔ اسی طرح امید اور توقعات میں ہمیں حوصلہ ملتا ہے اور خوشی بھی۔ ہم سب کی آرزوئیں اور تمنائیں مختلف ہوتی ہیں۔ کسی کو اعلیٰ مرتبے اور عہدے کی خواہش، کسی کو روپے پیسے کی فراوانی میں اطمینان نظر آتا ہے۔ کسی کو نیک نامی اور ناموری کی تمنا ہے۔ یہ امیدیں ہی ہیں جو ہمیں زندگی کی دلچسپیوں اور مشغلوں میں جوڑنے کا ذریعہ بنتی ہیں۔ سکندرِ اعظم کی دنیا فتح کرنے کی خواہش نے اسے ایک عظیم فاتح اور جرنیل کی حیثیت دی۔ جب ہم اپنے مقصد کا تعین کر لیتے ہیں تو پھر اس کے راستے میں حائل تمام رکاوٹیں عبور کرتے چلے جاتے ہیں۔
زندگی بڑی عجیب چیز ہے۔ کبھی کبھی اتنی خوبصورت لگتی ہے کہ جی چاہتا ہے کہ وقت تھم جائے اور زندگی سے لطف اندوزہونے کے مواقع پیہم میسر آتے رہیں۔ انسانی فطرت ہے کہ اسے زندگی میں سب کچھ اپنے مطابق چاہئے۔ انسان کی لامحدود خواہشات اسے ہر وقت بے تاب اور مستعد رکھتی ہیں۔ کبھی اسے خود بھی یہ فیصلہ کرنا مشکل ہو جاتا ہے کہ اصل میں اس کو چاہئے کیا۔ ہمیں ایک ہی لمحے میں آسمان صاف شفاف چاہئے تا کہ جھلملاتے ستاروں، کہکشائوں سے لطف لیں اور چاند کی چاندنی کو دیکھ سکیں۔ ساتھ ہی ہمیں بادل، بارش اور دھنک سے مزین آسمان بھی چاہئے ہوتا ہے۔ پہاڑوں کی آسمان سے باتیں کرتی دھندلی چوٹیوں کے پار جانے کے عزم کے ساتھ ہمیں جھرنے، ندیاں، سبزہ، گُل اور پرندوں کی چہکار چاہئے ہوتی ہے۔ لہراتی بل کھاتی پگڈنڈیوں اور سرسبز و شاداب کھیتوں کو سیراب کرتی نہریں اور شور مچاتے دریا۔ یعنی فطرت کی خوبصورتی ہمیں اپنی خوشیوں، آسودگی اور روحانی تسکین کے لیے چاہئے ہوتی ہے۔ فطرت تک رسائی کے لیے ہم لمبے لمبے فاصلے طے کرتے ہیں۔ مولانا جلال الدین رومی ایک حکایت میں بیان فرماتے ہیں ''ایک چھوٹی سی چیونٹی نے کاغذ پر قلم کو لکھتے دیکھا تو دوسری چیونٹی سے کہا: دیکھو قلم نے کیا نقش و نگار بنائے ہیں۔ اس نے کہا: یہ قلم نہیں‘ انگلی کا کمال ہے۔ تیسری بولی: انگلی میں کہاں اتنی طاقت ہے‘ یہ بازوئوں کی قوت ہے۔ ان چیونٹیوں کی ملکہ بولی: یہ ہنر جسم کا نہیں‘ وہ تو نیند اور موت پر بے خبر ہو جاتا ہے۔ جسم تو عقل کے ہاتھ کی لاٹھی کی مانند ہے۔ وہ بے خبر تھی کہ عقل و دل اللہ تعالیٰ کے حرکت دیے بغیر کچھ امور سرانجام نہیں دے سکتے۔ اگر اس کا کرم نہ ہو تو ذہن و عقل بے وقوفیاں کرنے لگتے ہیں‘‘۔
حضرت شیخ سعدیؒ بیان فرماتے ہیں کہ ایک اونٹنی پر بوجھ لدا ہوا تھا اور اس کا بچہ بھی ساتھ بھاگتا جا رہا تھا۔ جب وہ تھک گیا تو اس نے ماں سے کہا: کچھ دیر کے لیے رک جائے تا کہ وہ سستا سکے۔ اونٹنی نے اپنے بچے کی بات سنی تو کہا کہ میری مہار میرے قبضے میں ہوتی تو یہ بوجھ مجھ پر نہ لادا جاتا۔ بالکل اس اونٹنی کی طرح ہماری زندگی کی مہار بھی ہمارے پاس نہیں ہے، کہیں نہ کہیں ہم نظامِ کائنات کے بڑے نظام کے ساتھ منسلک ہیں اور نظامِ شمسی کے سیاروں کی طرح اپنے اپنے مداروں اور اپنے اپنے سورج کے گرد گردش میں ہیں۔
دنیا کو اس وقت بے شمار چیلنجز کا سامنا ہے۔ مختلف بیماریاں، گلوبل وارمنگ، توانائی کے حصول کے محدود ذرائع اور وسائل کی کمی دنیا بھر کی اقوام کے لیے ایک مشکل مرحلہ ہیں۔ مہنگائی اور بے روزگاری نے دنیا بھر کے لوگوں کو اس وقت تشویش میں مبتلا کر رکھاہے۔ کبھی کبھی مایوسی ہمیں گھیر لیتی ہے اور یوں محسوس ہوتا ہے کہ دنیا کا شاید ہی کوئی خطہ ہو جہاں زندگی کی رونق، چین اور سکون میسر ہو مگر یہ نایاب خواب بن گیا ہے۔
مجھے ایک ایسی سجری سویرکی اُڈیک ہے جو اَن چھوئی ہو، اس کے رنگ سادہ، صاف ستھرے اور نکھرے نکھرے ہوں۔ منظر منظر اجالا ہو، خو ف کی پرچھائیاں دل میں وسوسے نہ ڈالیں۔ غیر یقینی کے بادل نہ منڈلاتے ہوں۔ خود غرضی جہاں متعارف نہ ہوئی ہو۔ سادگی کا چلن عام ہو، سورج کی کرنیں جب ماحول پر اپنی ضو فشانی پھلائیں تو سارے منظر جی اٹھیں۔ بیمار کو شفا ملے اور غمزدہ مسکرا پڑیں۔ انسانی زندگیوں کا سب سے بڑا المیہ خود غرضی ہے۔ سخاوت، ہمدردی، ایثار میں کامیابی کو تلاش کرنے کا چلن عام ہو، اپنے ہم نفسوں کی آسودگی اور اطمینان ہماری اولین ترجیح ٹھہرے۔ انسان کی دائمی خوشی، مسرت، سکون و اطمینان، دکھی اور ضرورت مندوں کی حاجت روائی میں پوشیدہ ہے۔ مجھے ایسی صبحِ روشن کا انتظار ہے جہاں افسردگی اور مایوسی کا رواج نہ ہو، جہاں مسکرانے کی روش ہو، جہاں جینا فخر اور مسکرانا عادت ہو۔ مجھے اسی سجری سویر کی اُڈیک ہے۔