وہی ہوا جس کا مجھے ڈر تھا۔ کل شام میرے محسن و مربی، پروفیسر رحمت علی المعروف بابا جی اپنے پورے جاہ و جلال سے گرجے بھی اور برسے بھی۔ پہلے جیدی میاں نے فون ملایا اور سلام دعا کے تبادلے کے بعد فوراً فون بابا جی کے حوالے کر دیا۔ بس پھر کیا تھا‘ بابا جی نے مجھے خوب سنائیں اور جی بھر کر مجھے ڈانٹ ڈپٹ کی۔ اُن کی ناراضی کی چند معقول وجوہات تھیں اور مجھے اس غیظ و غضب کا بخوبی اندازہ تھا جس کے لیے میں خود کو قصور وار جانتے ہوئے پہلے سے اس ڈانٹ ڈپٹ کے لیے تیار تھا۔ بابا جی کے ناراض ہونے کی سب سے بڑی وجہ میرا انہیں بتائے بغیر اچانک برطانیہ حصولِ تعلیم کے لیے سفر کرنا تھا۔ دوسری وجہ انہیں اس سارے معاملے سے بے خبر رکھنا اور انہیں اس ضمن میں اعتماد میں نہ لینا تھا۔ تیسری وجہ یہاں آکر تین ہفتے گزر جانے کے باوجود اُن سے رابطہ نہ کرنا تھا جو دراصل گستاخی کے زمرے میں آتا ہے۔ خیر‘ مجھے اپنی ان سب کوتاہیوں اور اُن کے پیچھے مصلحتوں کا پوری طرح ادراک تھا، اس لیے میں اُن کی غضبناک گفتگو کو یکسر خاموشی کے ساتھ سنتا رہا۔ گزشتہ بیس سالوں سے میرا اُن کے ساتھ ادب و احترام بلکہ عقیدت کا ایک مضبوط تعلق ہے جس پر مجھے ہمیشہ سے فخر رہا ہے۔ میں نے اس نیاز مندی کی حدود و قیود کا ہمیشہ خیال رکھا ہے اور میری فرمانبرداری پر بابا جی کو کبھی بھی شک و شبہ نہیں رہا۔ یہ پہلی مرتبہ ہوا کہ اُن کی تمام توپوں کا رخ جیدی میں کے بجائے میری طرف تھا جس پر جیدی میاں باقاعدہ کھلکھلا رہے تھے اور ان کے شرارتی چہرے پر ایک موجود مسکراہٹ جلتی پر تیل کا کام کر رہی تھی۔ بابا جی کے سامنے میری بے بسی کا انہوں نے خوب فائدہ اٹھایا۔
قبل اس کے کہ مذکورہ بالا نکات پر مبنی چارج شیٹ کے ضمن میں کچھ وضاحت پیش کرتا‘ بابا جی نے میری درگت بناتے ہوئے مزید فرمایا کہ ایک طرف میں نے حال ہی اپنی اشاعت کے بعد سوشل میڈیا پر دھوم مچانے والی اور قارئینِ کرام کی بے پناہ محبتوں کے باعث مقبول ہونے والی کتاب ''دیہاتی بابو‘‘ کی پے درپے تین باقاعدہ تقریبات ِ پذیرائی کا اہتمام کیا اور اپنی گفتگو میں کتاب کے پسِ منظر اور موضوعات پر روشنی ڈالتے ہوئے خود کو ایک دیہاتی بابو ثابت کرنے کے لیے زمین و آسمان ایک کر دیا اور دوسری طرف برطانیہ میں پی ایچ ڈی پروگرام میں نہ صرف داخلہ لے لیا بلکہ پڑھنے کے ساتھ ساتھ وہاں پڑھانے کا بھی معاہدہ کر لیا جو بابا جی کے مطابق سراسر نا قابلِ فہم بھی تھا اور ناقابلِ یقین بھی۔ لگ بھگ پندرہ منٹ تک بلا روک ٹوک بابا جی بے لاگ گفتگو فرماتے رہے اور میں ہمیشہ کی طرح ہمہ تن گوش انہیں سنتا رہا۔ جب اُن کی گفتگو تمام ہوئی تو میں نے انتہائی عاجزی کے ساتھ وضاحت کی اجازت طلب کی جس پر بالآخر بابا جی نے مجھے اپنی صفائی کا موقع فراہم کر دیا۔ میں نے ایک ایک کر کے اُن کی ناراضی کی سبھی وجوہات پر اپنا تفصیلی موقف اُن کے سامنے رکھنا شروع کر دیا۔ سب سے پہلے اچانک برطانیہ روانگی کے سلسلے میں عرض کیا کہ آخری چند دنوں میں محکمے سے چھٹی اور اجازت ملنے کے بعد سامان کی پیکنگ اور تیاری کے دیگر امور میں مکمل طور پر الجھا رہا اور آخری روز برادرِ محترم قاسم علی شاہ صاحب نے لاہور میں اپنی فائونڈیشن کے دفتر میں میری کتاب کی تقریبِ پذیرائی کا اہتمام کر رکھا تھا جس میں چند گھنٹے انتہائی مصروفیت پر مبنی تھے۔ اس کے بعد میرے ایک اور محسن نے میرے لیے الوداعی کھانے کا اہتمام کر رکھا تھا اور پھر رات گئے فلائٹ کے لیے لاہور ایئر پورٹ پہنچتے ہوئے مجھے تاخیر کا احساس ہو گیا کہ چونکہ بابا جی عشا کی نماز کی ادائیگی کے فوراً بعد سو جاتے ہیں لہٰذا اس وقت اُن سے رابطے کا کوئی امکان موجود نہ تھا۔
جہاں تک برطانیہ میں تعلیم والا معاملہ ہے تو چونکہ یہ یونیورسٹی کی طرف سے اعلان کردہ سکالر شپ پر مبنی تھا اور ساتھ ہی مجھے بطور معلم بھی منتخب کر لیا گیا تھا لہٰذا اس ضمن میں بہت سے ضروری تقاضے پورے کرنے کے لیے کافی وقت درکار تھا اور پھر ان تمام مراحل کے بعد برطانیہ کا ویزہ ایک طویل اور صبر آزما معاملہ تھا لہٰذا جب تک ویزے کے جملہ معاملات مثبت انداز سے پایۂ تکمیل تک نہ پہنچ جاتے‘ تب تک اس موضوع پر کوئی بھی بات چیت لاحاصل تھی۔
مجھے چونکہ بابا جی کی بانیٔ پاکستان قائدِاعظم محمد علی جناحؒ اور شاعر مشرق ڈاکٹر علامہ محمد اقبالؒ کے لیے بے پناہ عقیدت اور لازوال محبت کا بخوبی اندازہ تھا لہٰذا میں نے ان دونوں اکابرین کے برطانیہ میں حصولِ تعلیم کے لیے تشریف لے جانے کا حوالہ اپنی مضبوط دلیل کے طور پر پیش کیا اور علامہ اقبال کا ایک مصرع باباجی کے سامنے رکھا ''عزت اسے ملی جو وطن سے نکل گیا‘‘۔ اپنی بات کو مزید آگے بڑھاتے ہوئے میں نے بابا جی کو وہ ٹھوس دلیلیں پیش کیں جو وہ ہمیشہ اعلیٰ تعلیم اور بیرونی ممالک میں موجود حصولِ تعلیم کی سہولتوں اور اعلیٰ معیار سے متعلق پیش کرتے آئے تھے اور جن کو ماننے کے سوا بابا جی کے پاس اور کوئی چارہ نہ تھا۔ اب میں نے اپنی کتاب کے عنوان سے لے کر اس کے جملہ موضوعات میں وطنِ عزیز سے محبت اور اپنی مٹی کی خوشبو کے ساتھ اپنے گہرے رومانس کا تذکرہ شروع کیا اور انہیں وہ تمام واقعات اور مواقع یاد کرائے جو گزشتہ پندرہ سالوں سے مجھے بیرونِ ملک اعلیٰ تعلیم اور ملازمت کے لیے میسر آئے تھے مگر میں نے ہمیشہ پاکستان ہی میں رہ کر اپنے وطن کی خدمت کو ترجیح دی۔
یہ بھی سچ ہے کہ اب دنیا بہت تیزی سے ایک گلوبل ویلیج بن چکی ہے۔ انٹرنیٹ، کمپیوٹر، سمارٹ فونز اور سوشل میڈیا نے ایک انقلاب برپا کر رکھا ہے۔ لہٰذا موجودہ دور اور پھر آنے والے چند سالوں میں دنیا جس رفتار سے آگے بڑھ جائے گی‘بطور سول سرونٹ جدید زمانوں کے نئے تقاضوں اور مسائل سے نمٹنے کے لیے ترقی یافتہ ممالک کے ماڈلز کو سمجھنا اور پھر تعلیم مکمل کر کے واپس وطن آکر اُن تجربات کی روشنی میں ضروری اصلاحات کے عمل کو آگے بڑھانا دراصل وطنِ عزیز کی اصل خدمت ہے۔ میری اس بات نے باباجی پر گہرا اثر چھوڑا اور انہیں کچھ تسلی ہوئی کہ میں برطانیہ میں محض سیر سپاٹے کے لیے نہیں آیا اور نہ ہی میں دیگر افراد کی طرح یہاں مستقلاً رہائش پذیر ہونے کا سوچ رہا ہوں بلکہ میری اس ساری جدوجہد کا اصل محور پاکستان کی خدمت ہی رہے گا۔ ویسے بھی اس سکالر شپ کے لیے دنیا بھر سے دو سو سے زائد امیدواروں نے قسمت آزمائی کی مگر ان چھ نشستوں میں اس عاجز نے نہ صرف جگہ بنائی بلکہ اس سارے عمل میں میرٹ کے اعتبار سے پہلی پوزیشن بھی حاصل کی جو یقینا اپنے ملک پاکستان کی شناخت اور تشخص کو مثبت طور پر اُجاگر کرنے کے لیے اہم قدم ہے۔ دراصل یہ کامیابی محض ربِ کریم کے خصوصی کرم کے سبب ممکن ہوئی ہے۔ میری خوش نصیبی یہ ہے کہ میری ان تمام باتوں سے بابا جی نے نہ صرف مکمل اتفاق کر لیا بلکہ آخرمیں مجھے بہت سی دعائوں اور نیک تمنائوں کے ساتھ پوری دلجمعی کے ساتھ درس و تدریس کی تمام ذمہ داریاں بطریقِ احسن انجام دینے کی تلقین بھی فرمائی۔
میں نے آخر میں بابا جی کو پوری یقین دہانی کرائی کہ میں یہاں قیام کے دوران پاکستان کے ایک سفیر کی حیثیت سے اپنے قول و فعل سے وطنِ عزیز کے لیے نیک نامی کا باعث بنوں گا، ہمیشہ کی طرح اپنے پیارے وطن سے اپنی سچی اور پکی محبت کو اپنے لیے قابلِ فخر گردانتے ہوئے برطانیہ میں رہتے ہوئے بھی اسی طرح ایک 'دیہاتی بابو‘بن کر رہوں گا جس طرح گزشتہ بیس سال سے مجھے بابا جی دیکھتے آئے ہیں۔ ویسے بھی گوروں کے اس دیس میں اگر ایک 'ولایتی بابُو‘ نہ بھی بنا تو بھلا اس کے نظامِ مملکت پر کیا فرق پڑنا ہے مگر یہ 'ولایتی بابُو‘ پاکستان واپس جا کر کئی لوگوں کی زندگیوں میں آسانیوں کا سبب ضرور بن سکتا ہے۔