پیراڈائم شفٹ

آج اچانک وٹس ایپ سٹیٹس کو سکرول کرتے ہوئے ایک دوست کے ساڑھے تین برس کے پوتے کی چھوٹی سی وڈیو نظر سے گزری۔ بچے کی پریزنٹیشن سکلز نے حیرت میں ڈال دیا۔ چند لمحے یہ سوچتے ہوئے گزر گئے کہ اکیسویں صدی کے بچے کی تعلیم و تربیت آسان نہیں۔ اپنے دوست سے جب اس حوالے سے بات ہوئی تو وہ بہت خوش ہوئے۔ انہوں نے اپنے پوتے کی مزید کئی وڈیوز میرے ساتھ شیئر کیں۔ واقعی بچے کی کمیونیکیشن سکلز اور سیکھنے کی صلاحیت بہت تیز تھی۔ بچہ اردو اور انگریزی‘ دونوں زبانوں میں بات چیت کرنے کی کوشش کر رہا تھا۔ ادب آداب اور محبت کے اظہار، کھلونوں کی دیکھ بھال سے لے کر ملازموں کا احترام اور تہذیب‘ سب کچھ ان وڈیوز میں نظر آیا۔ وہ اپنی معلومات کو حقیقی زندگی میں بھی اطلاق کرتا معلوم ہوا۔ پتا چلا وہ ابھی سکول نہیں جارہا۔ اس کے دادا‘ دادی کا خیال ہے کہ سکول اور اساتذہ اس کی تخلیقی صلاحیتوں کو نکھارنے کے بجائے اس کو روایتی انداز میں جاننے اور اپنی تقلید کی جانب موڑ دیں گے۔ اس کی جسمانی و ذہنی نشو و نما میں بے ساختگی نہیں رہے گی۔ میں نے ان کے اس خوف کو محسوس کیا اور اس پر غور و فکر کیا۔ ہمارے ملک کا نظامِ تعلیم‘ چاہے سرکاری سکولز ہوں،پرائیویٹ ادارے یا گلی، محلوں اور چھوٹے چھوٹے گھروں میں کھلے ہوئے سکولز‘ بچوں کو اکیسویں صدی کے تقاضوں کے مطابق تعلیم و تربیت کے مواقع مہیا نہیں کر رہا۔ یہ موجودہ دور کا سب سے بڑا چیلنج ہے۔ معروف فلاسفر یو وال نوح الحریری (Yuval Noah Harari) نے اپنی کتاب ''اکیسویں صدی کے اکیس اسباق‘‘ میں جن مہارتوں کا ذکر کیا ہے ان میں سرِ فہرست مصنوعی ذہانت کو رکھا ہے اور اسے اکیسویں صدی کی سب سے بڑی مہارت قرار دیا ہے۔
یہاں ذہن میں یہ سوال آتا ہے کہ کیا ہم اپنی آنے والی نسلوں کو اس حوالے سے تیار کر رہے ہیں؟ جواب یقینا نفی میں ہوگا۔ اسی طرح تنقیدی سوچ، مسائل کا حل اور قوتِ فیصلہ اکیسویں صدی کی بنیادی مہارتیں ہیں۔ آج کی جنریشن ''ایلفا جنریشن‘‘ ہے جس نے آئی پیڈز، سمارٹ فونز، سمارٹ بورڈز، فیس بک، یوٹیوب، ٹویٹر، انسٹا گرام اور تھری ڈی ٹیکنالوجی کے ساتھ آنکھ کھولی ہے اور اس کے استعمال کے ساتھ پرورش پا رہی ہے۔ یہ وہ نسل ہے جس کے لیے معلومات تک رسائی انگلیوں کی چند حرکات کی محتاج ہے۔ اس کے سوالات کے جوابات چند سیکنڈز کے فاصلے پر ہیں۔ یہ نسل ڈیجیٹل آلات سے اس طرح واقف ہے جیسے ہماری نسل کتابوں کے صفحات الٹتی پلٹتی ہے۔ آج کی نسل کو انٹرنیٹ پر جدید اور تیز رفتار ذرائع ابلاغ میسر ہیں اور وہ پوری دنیا کو اپنا گھر سمجھتی ہے۔ وہ ایک دوسرے سے منسلک ہے، ایک دوسرے کے تجربات سے سیکھتے اور فائدہ اٹھاتی ہے۔ اس کے ساتھ کام کرنے، سکھانے اور تربیت دینے والے اساتذہ کو بھی اتنی مہارتوں اور آئی ٹی سکلز حاصل کرنے کی ضرورت ہے۔ آج کی نسل ذہین، خود اعتما د اور حاضر دماغ ہے۔ اساتذہ کو بھی حاضر دماغ ہونا ہوگا۔ اگر جنوبی ایشیائی ممالک کی شرح تعلیم کے مجموعی تناسب کا موازنہ کیا جائے تو سری لنکا 99 فیصد، بنگلہ دیش 72.8 فیصد، بھوٹان اور نیپال بالترتیب 64.9 فیصد اور 63.9 فیصد، پاکستان57.9 فیصد اور افغانستان 38.2فیصد‘ یعنی سب سے نچلے درجے پر ہے۔ ہم اکیسویں صدی کی تیسری دہائی میں قدم رکھ چکے ہیں جبکہ اکیسویں صدی علوم کے سیلاب کی صدی ہے جس کے نتیجے میں علم کی تخلیق کا عمل ناقابلِ یقین حد تک تیز ہو چکا ہے۔ ہم ابھی تک فرسودہ نظام سے منسلک ہیں۔ امتحان میں نمبروں کے حصول اور درسی کتب رٹوانے کو تعلیم سمجھ بیٹھے ہیں یعنی نظام میں علوم و فنون،مہارتوں اور روایات کا ایک نسل سے دوسری نسل تک منتقلی کا عمل دخل ہی نہیں۔
ہمارا تعلیمی سسٹم ابھی تک تین مفروضوں پر کھڑا ہے۔ اول یہ کہ علم جامد چیز ہے۔ دوم‘ استاد علم کے حصول کا واحد ذریعہ ہے۔ سوم‘ طلبہ کے ذہن خالی سلیٹ کی مانند ہوتے ہیں۔ وقت اور حالات نے ان تینوں مفروضوں کو غلط ثابت کر دیا ہے۔ بدقسمتی سے ہمارے بیشتر سکولوں میں سارا زور تقلید پر دیا جاتا ہے اور بچوں کی آزاد سوچ پر پابندی لگا دی جاتی ہے۔ کلاس رومز میں آزادی سے سوالات پوچھنے کی حوصلہ افزائی نہیں کی جاتی۔ اساتذہ سے اختلافِ رائے کی تو ابتدا سے ہی اجازت نہیں ہوتی۔ خوف کی بنیاد پر کھڑی تعلیم کی عمارت میں گویا کوئی کھڑکی‘ کوئی روزن نہیں ہے۔ تازہ ہوااور خوشگوار لمحات میں سیکھنے اور سکھانے کا ماحول بہم پہنچانے کی اشد ضرورت ہے۔ تبدیلی اتنی تیزی سے وقوع پذیر ہو رہی ہے کہ اندازہ لگانا نا ممکن حد تک مشکل ہے کہ آج سے تیس سال بعد ہمیں کون سی مہارتیں درکار ہوں گی۔ بہت سے موجودہ روزگار آنے والے بیس برسوں میں باقی نہیں رہیں گے۔ اور ایسی نوکریاں دستیاب ہوں گی جن کا آج ہم تصور بھی نہیں کر سکتے۔ بچوں کی فطری صلاحیتوں، رجحانات اور تخلیقی سوچ و فکر کو نکھارنے اور اجاگر کرنے کے لیے سکول اور اساتذہ کا کردار اہم ہوتا ہے۔ بچے کی انفرادی حیثیت کو برقرار رکھنا لازم ہے۔ اس کو یکسانیت کا شکار ہونے سے بچانا ہے مگر یہاں الٹ ہو رہا ہے۔ بچہ سکول جاتے ہی نظام میں موجود نقائص کا شکار ہو جاتا ہے۔ اس کی سوچ کو مقید کر دیا جاتا ہے جس کے نتیجے میں اس کے نظریات پر جمود طاری ہو جاتا ہے۔ وہ نئی بات کرے تو مذاق اڑایا جاتا ہے۔ چیزوں کو آسان سے مشکل کرنے کا رواج ہے۔ ثقیل کتابیں زبانی رٹنے سے بچہ کند ذہن اور تعلیمی سرگرمیوں سے بد دل ہو جاتا ہے۔ ہمارے تعلیمی اداروں میں کمرۂ جماعت کی سرگرمیوں میں طلبہ میں سوچنے، سمجھنے اور معلومات کو الٹ پلٹ کر مختلف ممکنہ متبادل حل تلاش کرنے کے مواقع مہیا کرنے کا ماحول نہیں۔ بچوں کو درسی کتب میں تحریر شدہ معلومات اور مواد کو یاد کروا کر‘ اِسی کو امتحان میں نمبروں کی بنیاد بنایا جاتا ہے۔ ترقی یافتہ معاشروں میں کتب طلبہ کے لیے نہیں‘ اساتذہ کے لیے ہوتی ہیں‘ آئوٹ لائن کے طور پر‘ اس میں رنگ بھرنے کے لیے اساتذہ نے لائبریری، انٹرنیٹ اور دیگر دستیاب وسائل اور ذرائع ابلاغ سے استفادہ کرنا ہوتا ہے اور یہی کام طلبہ نے بھی کرنا ہے۔ کمرۂ جماعت میں اساتذہ بچوں کی انفرادی سوچ کو دیگر ساتھیوں کی سوچ کے ساتھ ہم آہنگ کر کے نئی نئی جہتوں اور نئے نئے زاویوں کی طرف توجہ مبذول کرانے کی سہولتیں مہیا کرتے ہیں۔ مکمل تیاری سے کلاس رومز میں لرننگ کا ماحول دینا ہوتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ فن لینڈ اور سکینڈے نیویا کے دیگر ملکوں میں نو سال تک بچوں کی تعلیم و تربیت کا کوئی خاص کریکولم نہیں، نہ باقاعدہ امتحانات کا شیڈول جاری کیا جاتا ہے اور نہ ہی ان کی گریڈنگ کی جاتی ہے۔ بچوں کو معاشرتی اقدار، رویوں اور زندگی کی بنیادی مہارتوں کے ساتھ جسمانی صحت اور ذہنی استعداد کو بڑھانے، سوچنے، سمجھنے، حقیقتوں کا ادراک کرنے کے لیے اپنی انفرادی سطح کی سوچ اور نظریات کو دیگر ہم مکتب ساتھیوں کی سوچ کے ساتھ مطابقت کا ماحول مہیا کیا جاتا ہے۔
بدقسمتی سے ہمارے تعلیمی ادارے بہت پیچھے ہیں۔ اساتذہ روایتی طریقوں سے ہی تعلیم و تدریس کے فرائض ادا کرتے نظر آتے ہیں۔ درسی کتب سے باہر مطالعہ کا شوق ہے اور نہ اس کی اہمیت سے آگاہ ہیں بلکہ کتابیں خریدنے اور پڑھنے کا رواج تک نہیں رہا۔ لائبریریاں غیر آباد اور شاپنگ مالز میں رش بڑھ رہا ہے۔ کس ڈگری کے بعد بھاری مالی فائدہ مل سکے گا‘ تعلیم کا محور اور مقصود یہی رہ گیا ہے۔ نسلوں کی بقا، طلبہ کی تعلیم، تربیت، تعمیر شخصیت اور کردار سازی جن کی ذمہ داری ہے ان کی پلاننگ میں یہ عنصر ترجیحات میں شامل ہی نہیں۔ کائنات کی تسخیر ہمارا مقدر تھا مگر بدقسمتی سے ہم کسی اور منزل کی مسافت پر نکل کھڑے ہوئے ہیں۔ ہماری سوچیں محدود اور نظریات پرجمود طاری ہو گیا۔ ہم سطحی سوچ اور پست عملی کا مظاہرہ کرتے نظر آتے ہیں۔ تعلیمی ڈھانچہ انقلابی اصلاحات کا متقاضی ہے۔ ہمیں ایک مکمل پیراڈائم شفٹ کی ضرورت ہے تا کہ میرے دوست کے پوتے اور اس نسل کے تمام بچے اپنی فطری صلاحیتوں کے ساتھ جدید، با مقصد اور وقت کے تقاضوں سے ہم آہنگ تعلیم و تربیت حاصل کر سکیں۔ جس کے نتیجے میں وہ نہ صرف دنیاوی اور اخروی فلاح اور کامیابی سے ہمکنار ہوں بلکہ بااعتماد، باکردار اور خوش اخلاق بھی ہوں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں