تیتر رہے نہ بٹیر

یکسانیت انسانی زندگی کو جامد کر دیتی ہے۔ یہی سبب ہے کہ ازل ہی سے انسان خوب سے خوب تر کی تلاش میں سر گرداں رہا۔ انسان فطری طور پر جلد باز اور غیر مستقل مزاج واقع ہوا ہے۔ کھوج اور جستجو اس کی جبلت میں ودیعت کر دی گئی ہے۔ ازمنہ قدیم سے لے کر آج تک انسان نے زندگی کے ہر شعبے میں حیرت انگیز ترقی کی۔ کبھی اس نے آسمان کی وسعتوں کو چیرا، کبھی ہوائوں کو زیر کیا اور سمندروں کے سینے پر حکمرانی کی۔ کبھی جنگلی جانوروں سے بچائو کیا، کبھی بیماری کے ہاتھوں زندگی کی حفاظت اور بقا کو یقینی بنایا، کبھی موسموں کی شدت سے بچائو کیا اور یہ سب بہت بڑے چیلنجز رہے ہیں۔ آگ جلانا سیکھا تو کچے گوشت کے بجائے اسے بھون کر کھانے لگا۔ سردی، گرمی اور حفاظت کے لیے جھونپڑے اور مکانات تعمیر کیے۔ شکار اور کھیتی باڑی شروع کی۔ گویا ارتقائی مراحل سے گزر کر جینے کا ہنر سیکھا۔ انسانی معاشرے کی تشکیل کے ساتھ تہذیب و تمدن کی بنیاد پڑی۔ میل جول، رشتے اور تعلق بڑھتے چلے گئے۔ بستیاں آباد ہوئیں، ضرورتیں اور خواہشات بدلنے لگیں۔ گائوں، قصبے اور شہر بسے، پھر سیاحت اور دریافت کا عہد شروع ہوا۔ انسان نے دولت کمانے، جہان گیری اور جہان بانی کے گُر سیکھے۔ کشتیاں، بحری جہاز و ہوائی جہاز بنائے۔ ایجادات اور انکشافات کا زمانہ آئی۔ انجن ایسی ایجاد تھی کہ صنعتی اور زرعی ترقی میں تیزی آگئی۔ پتھر کے دور سے شکار کے لیے ہتھیار بنانے کی ضرورت تھی مگر مہذب معاشروں کی تشکیل اور ترقی کے ساتھ جنگ و جدل، طاقت کے حصول اور دولت کی حرص سے ہتھیاروں کی دوڑ شروع ہو گئی۔ دنیا نے دو عالمی جنگیں اور لاکھوں بلکہ کروڑوں انسانوں کو لقمۂ اجل بنتے دیکھا۔ کولڈ وار نے قوموں کی زندگی کو سامراجی نظام کا تحفہ دیا۔ دولت سمٹ کر چند استعماری قوتوں کے ہاتھوں میں مرتکز ہو گئی۔ ایک دوسرے پر سبقت لینے کی غرض سے ایٹم بم بنا ڈالے۔ دنیا انگشت بدندان رہ گئی۔ سمجھا گیا کہ ذرے سے دنیا کی تباہی کا سامان کر لیا گیا۔ حیرت انگیز طور پر انسانی عقل و شعور نے ترقی کی انتہا کو چھوا مگر کمپیوٹر کی ایجاد نے گویا تہلکہ مچا دیا۔ گھنٹوں کا کام منٹوں میں کرنے کی آسانی ہو گئی۔ 39برس پہلے موبائل فون ایجاد ہوا تو ابتدا میں بات چیت اور پیغام رسانی کے لیے استعمال ہوا مگر بعد میں اس سے کمپیوٹر کا کام بھی لیا جانے لگا۔ 2007ء میں ایپل کمپنی نے آئی فون متعارف کرایا تو دنیا بھر میں دھوم مچ گئی کیونکہ اس میں نہ صرف کمپیوٹر بلکہ انٹر نیٹ کے استعمال کی صلاحیت بھی تھی۔ سٹیو جابز نے ٹچ سکرین سمارٹ فون متعارف کرایا تو پوری دنیا سمٹ کر ایک ٹچ کے فاصلے پر آگئی۔
ایک وقت تھا کہ ہم سب نوٹ بکس اور عمدہ برانڈ کے اِنک پین خریدتے تھے۔ بیوی، بچوں، عزیز و اقارت کو خطوط تحریر کیے جاتے۔ ڈاکیا سائیکل کی گھنٹی بجاتا آتا اور بڑا منفرد سا احساس اپنے ساتھ لاتا کیونکہ اس دور میں خط اپنے پیاروں سے جوڑنے کا واحد وسیلہ تھا۔ خطوط کا سلسلہ آداب و القابات، رکھ رکھائو، معاشرت اور تہذیب و تمدن کا آئینہ دار تھا۔ یہ کمیونیکیشن اتنی نفیس ہوتی کہ بہت سے ادیبوں، شعرا، مشہور سیاستدانوں اور اعلیٰ افسران نے اپنی آپ بیتیوں میں اپنے خطوط کو چھاپا جو اب ادب اور تاریخ کا حصہ بن چکے ہیں۔ یہی ادبی پارے آنے والی نسلوں کی تعلیم و تربیت کا ذریعہ بھی بنے۔ کلائی کی گھڑی وقت دیکھنے کے لیے لازمی تھی تو کیلکولیٹر حساب کتاب کے لیے غنیمت تھا۔ رات میں کہیں نکلتے تو ٹارچ لائٹ یا سرچ لائٹ لے کر نکلتے۔ موسیقی کے پروگرام بنائے جاتے، لائیو شو ہوتے، پھر ٹیپ ریکارڈر آ گیا۔ کیسٹوں میں آوازیں بھر کر خطوط کی جگہ پردیسی رشتہ داروں کو بھیجی جانے لگیں۔ وی سی آر پر فلمیں دیکھنے کا بھی اپنا مزہ تھا۔ سی ڈیز اور وڈیوز چند روپے کرایہ پر دستیاب ہوتیں۔ موبائل نے ان تمام کاروباروں کو ٹھپ کر دیا۔ اگلی نسلیں اب ان چیزوں کو فلموں، کارٹونز اور دستاویزی پروگرامز میں ہی دیکھ پائیں گی۔ دیکھتے ہی دیکھتے اربوں کی تعداد میں انسانی آبادی سمارٹ فون اور نت نئے گیجٹس کی اسیر ہو گئی۔ معاشرتی رویے اور قدریں بدل گئیں۔ علم و آگاہی کے وہ در کھلے جو چشمِ فلک نے اس سے پہلے کبھی دیکھے تھے نہ تصور کیے ہوں گے۔ جب سے یہ کائنات وجود میں آئی ہے تب سے حالیہ چند برسوں میں جتنا علم کا پھیلائو اور جتنی وسعت و ترویج ہوئی ہے‘ پچھلے سارے زمانوں کی یکجا کر کے بھی شاید اتنی نہ ہو سکے۔ سمارٹ فون نے جہاں آسانیاں اور سہولیات مہیا کیں‘ وہیں کئی اخلاقی اقدار کو بھی متاثر کیا۔ اس کے علاوہ یہ ہماری بہت سی خوبصورت روایات کو بھی کھا گیا ہے۔ اس نے ہمیں قلم اور کتابوں سے دور کر دیا۔ حیرت انگیز طور پر ایک سمارٹ انڈرائیڈ فون نے کئی اہم چیزوں کی جگہ لے لی ہے۔ یوں کہہ لیجئے کہ سمارٹ فونز اور دیگر دستیاب گیجٹس نے زندگی کو آسان، سہل اور تیز رفتار بنا دیا ہے۔ ایک چھوٹی سی ایجاد نے ہمیں پوری کائنات کی تحقیق اور معلومات تک رسائی دے دی ہے۔ کیمرے، سرچ انجن، کلائوڈ اور دیگر سینکڑوں ایپلی کیشنز نے جہاں قدیم سے جدت کے سفر میں مدد فراہم کی ہے، وہیں ساتھ ہی سیکھنے سکھانے اور انٹر نیٹ پر تربیتی ورکشاپس، مذاکروں، مباحثوں اور ورچوئل کانفرنسوں میں شرکت اپنے گھر، دفتر یہاں تک کہ سفر کے دوران بھی ممکن ہوگئی ہے۔
منزل کی نشاندہی اور مقاصد کا تعین کرنا سفر کی کامیابی کے لیے ضروری ہے تا کہ مطلوبہ مقاصد تک رسائی ہو سکے۔ اس کے لیے کچھ اصول اور ضابطے وضع کیے جاتے ہیں۔ ایک انگریزی محاورے کا مفہوم ہے کہ کچھ بھی اچھا یا برا نہیں ہوتا‘ یہ ہماری سوچ ہے جو اسے اچھا یا برا بنا سکتی ہے۔ بلاشبہ سمارٹ فونز، آئی پیڈز اور دیگر گیجٹس کے بے حد فوائد ہیں اور کمال کی مہارتیں سیکھنا ان کی بدولت کافی آسان ہو گیا ہے مگر اس کے ساتھ ہم پر کچھ پابندیاں اور ذمہ داریاں بھی عائد ہوتی ہیں۔ بدقسمتی سے موبائل فون نے ہماری جسمانی، ذہنی، جذباتی اور فیملی لائف کو بہت متاثر کیا ہے۔ ہم نے رشتوں کو اہمیت دینا چھوڑ دی ہے کیونکہ ہم نے اب فیس بک فرینڈز بنا لیے ہیں۔ وٹس ایپ پر ایک جہان ہمارے ساتھ جڑا ہے۔ فنگر ٹپس پر ٹویٹ، انسٹا گرام، ٹک ٹاک اور نجانے ایسی کتنی ہی دیگر مصروفیات ہیں۔ ہمارے رویے تیزی سے بدل رہے ہیں۔ بوڑھے، بچے، خواتین‘ یہاں تک کہ چند ماہ کا بچہ بھی اب زیادہ سے زیادہ وقت موبائل کے ساتھ گزارنا پسند کرتا ہے۔ جدت پسندی اور جدید یت بدلتے وقت کی ضرورت ہیں۔ مگر کسی بھی چیز کا اعتدال کے راستے سے ہٹ جانا خطرناک ہوتا ہے۔
ہمیں کام کے دوران، کھانا کھاتے وقت، فیملی کی تقریبات، باتھ روم، واک، کچن اور سوتے وقت موبائل فونز کا استعمال کم سے کم کرنا ہوگا بلکہ بہت ضروری یا ناگزیر حالات میں ہی اسے استعمال کریں۔ کم عمر بچوں کو اس کے استعمال سے بچانا لازم ہے۔ الٹرا وائلٹ شعاعیں بچوں کے دماغ اور ذہنی صحت کو متاثر کرتی ہیں۔ آنکھوں، جلد اور قوتِ سماعت پر بھی اثر انداز ہونے کا خدشہ رہتا ہے۔ جب سے موبائل فون کا استعمال بڑھا ہے‘ کینسر اور ذہنی امراض کی شرح میں بھی اضافہ ہو گیا ہے۔ ہر بات سے آگاہی، شکایتیں، گِلے شکوے، مسلسل رابطہ، الفاظ کے نشتر اور بدصورت رویے ڈپریشن کا موجب بن رہے ہیں۔ بزرگوں کی صحبت میں بیٹھنا اب ہماری ترجیح نہیں رہا۔ ہماری سوچ کے پیمانے بھی بدل گئے ہیں۔ رشتوں کا تقدس اور احساس، مل جل کر اپنے ہم عمر لوگوں، محلے داروں کی کمپنی انجوائے کرنا اب مفقود ہو گیا ہے۔ فوک وِزڈم‘ جو دھرتی سے خود رو پودے کی طرح اگ کر سینہ بہ سینہ منتقل ہوتی تھی‘ اس سے موجودہ عہد کی نسل محروم ہو گئی ہے۔ وہ محفلیں رہیں اور نہ وہ پنچایت کا کلچر۔ خاندان کے بڑوں کی وہ اہمیت بھی نہیں رہی۔ نہ صرف خوراک بلکہ رہن سہن کے طریقے اور سلیقے بھی بدل گئے ہیں۔ موبائل فونز اور دیگر جدید ٹیکنالوجی کے اندھا دھند استعمال کے سبب ہم تیتر رہے نہ بٹیر۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں