25اکتوبر 2022ء کی یادگار شام کئی حوالوں سے میرے لیے باعثِ صد افتخار تھی۔ سب سے بڑا قابلِِ مسرت پہلو یہ کہ میری کتاب کی تیسری تقریبِِ پذیرائی کی صدارت جناب امجد اسلام امجدؔ کر رہے تھے جو گزشتہ چار دہائیوں سے اردو ادب اور شعر و سخن میں میری انسپائریشن تھے۔ تقریب کا اہتمام برادرم قاسم علی شاہ صاحب نے بڑی محبت سے کر رکھا تھا جو کہ خود اپنی ذات میں ایک انجمن ہیں۔ تیسری وجہ یہ کہ میرے گورنمنٹ کالج لاہور کے زمانے سے بھائیوں جیسے مظہر برلاس خصوصی طور پر اسلام آباد سے لاہور اس تقریب کو رونق بخشنے کے لیے موجود تھے۔ تقریب کے اختتام پر جناب امجد اسلام امجدؔ نے مجھے اپنی کتاب بطور تحفہ پیش کی۔ تصاویر بنوائیں اور میری کتاب کی اشاعت پر مجھے بھرپور مبارکباد دی اور میری تحریروں کی بے ساختگی اور پختگی کی دل کھول کر تعریف بھی کی۔ میرے بچپن کے رومان میں شامل شخصیت کا اس قدر بے لوث پیار‘ سچا اور کھرا مشفقانہ رویہ میرے لیے یقینا جہاں بے پناہ خوشی کا باعث تھا وہاں میری فکری تربیت کا بہترین انداز بھی تھا۔ تقریب کے بعد چائے کے دوران سامعین‘ جن میں طلبا اور طالبات بھی شامل تھے‘ نے امجد اسلام امجدؔ سے کافی دیر بے تکلف گفتگو کی‘ سیلفیاں بنوائیں اور آٹو گراف لیے۔ مگر وہ بار بار اپنے مداحین کو میری طرف اشارہ کرتے ہوئے کہہ رہے تھے کہ آج کی صاحبِ شام شخصیت کتاب کے مصنف ہیں اور اسی سے کتاب پر دستخط کروائے جائیں۔ یہ ان کی شخصیت اور کردار کی اعلیٰ ظرفی کی ایک اور عمدہ مثال تھی جسے میں بغور دیکھتا رہا‘ سیکھتا رہا۔ تقریب کے آخر میں وہ جانے لگے تو میں نے ان کی گاڑی کا دروازہ کھولا اور قاسم علی شاہ نے انہیں بیٹھنے میں معاونت فراہم کی۔ میں نے محسوس کیا کہ وہ شدید علالت اور تکلیف کے باوجود مجھے انکار نہیں کر پائے جو ان کی وضع داری‘ انکساری اور روا داری کا خوبصورت مظہر تھا۔ اسی رات میرا لاہور سے مانچسٹر کے لیے سفر پہلے سے طے شدہ تھا لہٰذا ان خوبصورت یادوں کو سمیٹ کر میں ایئر پورٹ کے لیے روانہ ہو گیا۔ مگر کسے معلوم تھا کہ 25اکتوبرکو ہونے والی ہماری ملاقات آخری ثابت ہوگی اور میں علم و ادب کی اس عظیم ہستی کو کبھی دوبارہ نہ دیکھ پاؤں گا۔
10فروری کی صبح میں نے جیسے ہی اپنا موبائل فون آن کیا تو میرے کئی دوستوں کے تعزیتی پیغامات سے میرا دل دہل گیا جو مجھے امجد اسلام امجدؔ کی ناگہانی موت سے باخبر کر رہے تھے۔ سوشل میڈیا پر تو اک کہرام برپا تھا۔ چار سُو اس منفرد شاعرِ باکمال کی مشہورِ زمانہ نظمیں وائرل تھیں۔ ان کے چاہنے والوں نے اپنے دکھ بھرے جذبات پر مبنی خیالات کو الفاظ کے قالب میں ڈھال رکھا تھا۔ دنیا بھر سے اُن کے لاکھوں مداحین انہیں والہانہ انداز میں خراجِ تحسین پیش کرتے ہوئے نظر آئے۔ پاکستان کے تقریباً تمام ٹیلی ویژن چینلز نے ان کے انتقال کو بریکنگ نیوز کے طور پر پیش کیا۔ زندگی کے مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والی نمایاں شخصیات‘ سیاسی قیادت‘ شوبز سٹارز‘ قومی کھلاڑیوں سمیت سب ان کی اچانک وفات پر افسردہ نظر آئے اور ان کی علمی و ادبی خدمات پر انہیں ہدیۂ تبریک پیش کرتے رہے۔ صدرِ پاکستان نے ان کی ایک مشہور نظم کے اشعار پر مبنی اپنے ٹویٹ میں اظہارِ افسوس کیا۔ یہ سطریں لکھنے تک پاکستان بھر میں مختلف ٹیلی ویژن چینلز اور دیگر آرٹ اور ثقافت سے متعلقہ ادارے تعزیتی نشستوں کا اہتمام کر رہے ہیں جن میں امجد اسلام امجدؔ کے فن اور شخصیت کے مختلف پہلوئوں کو زیرِ بحث لاہا جا رہا ہے۔ تقریباً تمام بڑے کالم نگار ان کو خراجِ عقیدت پیش کر رہے ہیں اور اپنی یادوں کو الفاظ کی لڑی میں پرو کر شعر و سخن کے اس عظیم ستارے کو دادِ تحسین دے دہے ہیں۔ امجد اسلام امجدؔ نے غزل اور نظم میں یکساں اعلیٰ معیار قائم کیا۔ انہیں اپنی تمام بڑی بڑی نظمیں زبانی یاد تھیں جنہیں وہ اپنے دل پذیر تحت الفظ لہجے میں نہایت سہولت سے پڑھا کرتے تھے۔ انہوں نے اپنے ڈراموں اور کالمز میں پسے ہوئے لاچار اور بے بس طبقات کی خوب نمائندگی کی۔ اپنی شاعری میں جہاں کارِ محبت اور اس سے جڑی رومانویت کی دلکشی پر اپنے منفرد انداز میں نظمیں لکھیں وہاں زمانے کی تلخیاں اور زندگی کی تلخ نوائیاں بھی ان کے اشعار میں برابر نظر آئیں۔ مگروہ مایوسی اور نا امیدی کے بجائے امید و آرزو کا اک نیا جہاں آباد کرنے کی جستجو میں مصروفِ عمل نظر آئے۔
انہوں نے اپنے اشعار اور افکار کے ذریعے ایک خواب نگر تخلیق کر رکھا تھا جس میں معاشرے میں پائی جانے والی ناانصافی اور ناہمواریوں کی نہ صرف واضح نشاندہی کی گئی تھی بلکہ اس کے خاتمے کے لیے عملی اقدامات کے خدوخال بھی موجود تھے۔ وہ بے کسی اور بے بسی کی ساری شکلوں اور ان سے جڑی تکالیف اور مصائب کو اپنے موضوعات میں جگہ دیتے رہے اور اک ایسے مثالی معاشرے کی تشکیل کے لیے کوشاں رہے جس میں استحصال نہ ہو‘ جینا محال نہ ہو اور زندگی وبال نہ ہو۔ وہ دنیا بھر میں پاکستان کے سفیر تھے‘ وطنِ عزیز کا چہرہ تھے اور اردو بولنے اور سمجھنے والے لاکھوں افراد کے دلوں کی دھڑکن تھے۔ تین درجن سے زائد کتب کے مصنف‘ پاکستان کے تمام بڑے اعزازات اور ایوارڈ اپنے نام کرنے والے امجد اسلام امجدؔ ذاتی زندگی میں انتہائی سادہ‘ سچے اور ملنسار انسان تھے۔ وہ عاجزی اور وضع داری کا عملی نمونہ تھے۔ اپنی وفات سے چند روز قبل عمرہ کی ادائیگی کے بعد وطن واپس پہنچے تھے۔ روضہ رسولﷺ پر گنبدِ خضرا کے سامنے بارگاہِ رسالت میں اپنے خوب صورت نعتیہ اشعار کے گل ہائے عقیدت پیش کرتے ہوئے ویل چیئر پر بیٹھے امجد اسلام امجدؔ صاحب کی وڈیو آج کل سوشل میڈیا پر وائرل ہے۔ وطن واپس پہنچتے ہی اپنے کالم میں جہاں حرمین شریفین میں اپنی حاضری کو قلمبند کیا وہاں خانہ کعبہ میں اپنی دعا میں ان تمام افراد کو بھی معاف کر دیا جنہوں نے انہیں زندگی میں کوئی نقصان پہنچایا تھا‘ دل دکھایا تھا۔ ان سب کے لیے بارگاہِ الٰہی میں دعا کی۔ یہ ایک بڑے آدمی‘ صاحبِ کردار اور صاحبِ ظرف انسان کی اخلاقی معراج پر بین دلیل ہے۔ وہ جتنے بڑے شاعر‘ ادیب‘ کالم نگار‘ ڈرامہ نگار‘ نقاد اور مترجم تھے‘ اس سے کہیں زیادہ بڑے انسان تھے۔ ان کے انہی منفرد اخلاقی اوصاف کا ربِ کریم نے جہاں انہیں عزت‘ شہرت اور دنیاوی مقام و مرتبہ سے نواز کر صلہ دیا وہاں گزشتہ جمعرات اور جمعہ کی درمیانی شب ایک پُر سکون موت دے کر انہیں اپنے خاص انعام و اکرام کا مستحق بھی قرار دے دیا۔ ایسے بڑے انسان بھلا موت سے کب مرتے ہیں۔ وہ تو موت کو مات دے کر ہمیشہ کے لیے زندہ و جاوید ہو جاتے ہیں۔ ان کا دل آویز فن‘ ان کی سحر انگیز شخصیت اور ان کی اعلیٰ انسانی قدریں انہیں تاریخ میں ہمیشہ کے لیے امر کر دیتی ہے۔ بابا بلھے شاہ نے سچ ہی تو کہا تھا:
بلھے شاہ اساں مرنا ناہیں
گور پیا کوئی ہور!