حدیث شریف میں مذکور ہے کہ حضرت جبرائیل علیہ السلام نبی کریمﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور دعا فرمائی ''ہلاک ہو جائے وہ شخص جس کو زندگی میں ماہِ ر مضان ملے اور وہ اپنی بخشش نہ کرا سکے‘‘ جس پر اللہ کے پیارے نبیﷺ نے فرمایا ''آمین‘‘۔ (مختصراً، صحیح الجامع) یہ دعا فضیلتِ رمضان کی اہمیت سمجھانے کے لیے کافی ہے۔ روزہ ایسی عبادت ہے جسے اللہ تعالیٰ نے اپنی طرف منسوب فرمایا ہے‘ فرمایا ''روزہ میرے لیے ہے اور میں خود اس کا اجر و ثواب عطا کروں گا‘‘۔ (صحیح بخاری)۔ روزہ پوشیدہ عبادت ہے جسے ربِ عظیم کے سوا کوئی نہیں جانتا۔ روزہ جسم کی زکوٰۃ ہے۔ انسان صبر و مشقت کی بھٹی سے گزر کر بھوک پیاس اور دیگر نفسانی خواہشات پر ضبط کرنا سیکھ جاتا ہے۔ اتنی مشقت کسی اور عبادت میں نہیں ہے۔ امر بالمعروف ونہی عن المنکر بھی پیٹ ہی سے شروع ہوتا ہے۔ حلال اور جائز چیزوں سے حکمِ الٰہی کی بجا آوری میں خود کو روکے رکھنا‘ ہمیں سوچنے اور غور و فکر کرنے کا موقع فراہم کرتا ہے کہ حرام رزق سے اجتناب برتیں۔ کسی کا حق غصب نہ کریں۔ اللہ کا نظام یعنی دین اسلام مکمل ضابطۂ حیات ہے۔ عبادات ہوں یا معاملات‘ ریاست ہو یا سیاست‘ معاشرتی اقدار ہوں‘ سماجی رویے ہوں یا نظامِ معیشت و اقتصاد‘ سب کا مستحکم و مربوط ڈھانچہ موجود ہے۔ رمضان برکتوں، رحمتوں اور نعمتوں کا شکر ادا کرنے کا مہینہ ہے۔ جب رمضان المبارک کا چاند نظر آتا تو نبیﷺ فرماتے: یہ وہ عظمتوں والامہینہ ہے جس میں قرآنِ مقدس کا نزول ہوا اور جو رہتی دنیا تک بنی نوع انسان کے لیے رشد و ہدایت کا سرچشمہ ہے۔ اس ماہِ مقدس میں آسمان کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں، جہنم کے دروازے بند کر دیے جاتے ہیں اور ہر سرکش شیطان کو پابندِ سلاسل کر دیا جاتا ہے۔ (شعب الایمان)
رمضان میں جن خصوصی اعمال کا حکم دیا گیا ہے ان میں سرِ فہرست روزہ ہے۔ روزہ ایک منفرد عبادت ہے۔ انسان روزہ رکھ کر اپنے ہر کام کو انجام دے سکتا ہے۔ وہ ملازمت ہو، صنعت و حرفت ہو، تجارت ہو، عبادت و ریاضت ہو، تعلیم ہو یا محنت مزدوری‘ ہر کام بخوبی کر سکتا ہے۔ بلکہ رمضان المبارک ایسا بابرکت مہینہ ہوتا ہے جس میں پابندیٔ وقت کی عادت پڑ جاتی ہے۔ عبادات میں جو لطف اور سرور ماہِ رمضان میں نصیب ہوتا ہے شاید ہی دیگر مہینوں میں ایسا مربوط نظام میسر ہو پائے۔ رمضان المبارک میں اللہ تعالیٰ نے حقوق اللہ کے ساتھ ساتھ حقوق العباد پر بھی بہت زور دیا ہے۔ خصوصی طور پر روزہ صرف کھانا پینا چھوڑ دینے کا نام نہیں بلکہ غریبوں اور بے نوا انسانوں سے ہمدردی اور غمگساری کا نام ہے۔ ماہِ صیام میں ہمدردی و غمگساری کے تقاضے اور بھی بڑھ جاتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ جس کو چاہتا ہے‘ بے حساب رزق اپنی قدرت سے عطا کردیتا ہے لیکن جس کو اللہ کے فضل اور نعمتوں کی فراوانی اور رزق میں فراخی دی جاتی ہے‘ اس کے ایمان کا تقاضا بھی بڑھ جاتا ہے۔ اہلِ ثروت کے رزق میں ضرورت مندوں، غربا، مساکین، یتیموں اور محتاجوں کا حصہ بھی مقرر فرما کر ان کو آزمائش میں ڈالا گیا ہے کہ وہ کس حد تک حکمِ ربانی بجا لاتے ہیں۔ جب بات ہمدردی، غمگساری، دل جوئی کی ہو تو مالی ، جانی ، اخلاقی اقدار بھی ساتھ ہی شامل ہو جاتی ہیں۔ معاشرتی عدل کیساتھ ساتھ دولت کی منصفانہ تقسیم مالیاتی عدل کی بدولت ممکن ہے۔ معاشرے کے کمزور طبقات کو مدد فراہم کرنے کیلئے دین اسلام نے زکوٰۃ، عشر، فدیہ، صدقات، فطرانہ اور قربانی کا نظام فراہم کیا ہے۔ اس وقت وطنِ عزیز میں ہوشربا مہنگائی نے غریبوں کی کمر توڑدی ہے۔ افراطِ زر اور اشیائے خورو نوش کی غیر معیاری فراہمی نے رہی سہی کسر پوری کر دی ہے۔ ڈالر اور پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے سے اشیائے ضروریہ کی قیمتیں قابو سے باہر ہیں۔بدقسمتی سے رمضان شریف میں بھی خود ساختہ مصنوعی گرانی کا مکروہ دھندہ جاری و ساری ہے۔
ماہِ رمضان میں صدقہ و خیرات کا اجر عام دنوں سے کہیں بڑھ جاتا ہے۔ حضرت انسؓ سے روایت ہے کہ آپﷺ سے صحابہ کرام نے سوال کیا کہ کون سا صدقہ افضل ہے؟ آپﷺ نے فرمایا ''رمضان میں صدقہ کرنا افضل ہے‘‘۔ (سنن ترمذی) حضرت عبداللہ ابن عباسؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہﷺ تمام انسانوں سے بڑھ کر سخی تھے اور رمضان میں آپﷺ کی سخاوت چلتی ہوا (آندھی) سے بھی زیادہ تیز ہو جایا کرتی تھی۔ (صحیح بخاری)۔ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی جود و سخا کی بے مثل روایات بھی ہمارے لیے مشعلِ راہ ہیں۔ حضرت عبداللہ ابن عمرؓ سے روایت ہے کہ حضرت ابو بکر صدیقؓ جب اسلام لائے تو اس وقت ان کے پاس گھر میں چالیس ہزار درہم موجود تھے لیکن جب آپؓ مکہ سے مدینہ کی طرف ہجرت کیلئے نکلے تو اس وقت آپؓ کے پاس صرف پانچ ہزار درہم رہ گئے تھے۔ آپ نے کثیر رقم غلاموں کو آزاد کرانے اور اسلام کی خدمت پر خرچ کر دی۔ (ابن عساکر، تاریخ دمشق) اسی طرح جب غزوۂ تبوک کے موقع پر نبی اکرمﷺ نے صحابہ کرام کو اللہ کی راہ اور جہاد کیلئے مال پیش کرنے کا حکم دیا تو تمام صحابہ کرام نے حسبِ توفیق اسلامی لشکر کی مالی معاونت کی۔ اس موقع حضرت سیدنا ابوبکر صدیقؓ نے جس طرح سے سخاوت و فیاضی کا مظاہرہ کیا اس کی مثال تاریخ عالم میں نہیں ملتی۔ حضرت عمر فاروقؓ سے مروی ہے کہ ایک دن نبی اکرمﷺ نے صدقہ دینے کا حکم دیا۔ اس حکم کی تعمیل کیلئے میرے پاس کافی مال تھا‘ میں نے اپنے آپ سے کہاکہ اگر میں ابوبکر صدیقؓ سے کبھی سبقت لے جا سکتا ہوں تو وہ آج ہی کا دن ہے۔ حضرت عمرفاروقؓ فرماتے ہیں کہ میں اپنا نصف مال لے کر حاضرِ خدمت ہوا۔ نبی اکرمﷺ نے فرمایا: اپنے گھر والوں کیلئے کیا چھوڑ آئے ہو؟ میں نے عرض کی: جتنا لے آیا ہوں‘ اتنا ہی ان کیلئے چھوڑ آیا ہوں۔ اتنے میں حضرت ابوبکر صدیقؓ اپنا مال لے کر حاضر ہوئے۔ آپﷺ نے فرمایا: اے ابوبکر! اپنے گھر والوں کیلئے کیا چھوڑ آئے ہو؟ انہوں نے عرض کیا: میں ان کیلئے اللہ اور اس کا رسولﷺ چھوڑ آیا ہوں۔ حضرت عمرؓ کہتے ہیں میں نے اس دن خود سے کہا کہ میں ابوبکر صدیقؓ سے کسی معاملے میں کبھی آگے نہیں بڑھ سکتا۔ (جامع ترمذی) مفسرین کا اس بات پر اتفاق ہے کہ سورۂ لیل کی یہ آیات اس وقت نازل ہوئیں جب مشرکین نے دینِ اسلام کیلئے حضرت ابوبکرصدیقؓ کے مال خرچ کرنے پر مختلف اعتراضات اٹھائے۔ خود رب العالمین نے گواہی دیتے ہوئے فرمایا: ''اور جو سب سے بڑا متقی ہے وہ اس (جہنم) سے دور رکھا جائے گا۔ جو اپنا مال دیتا ہے تاکہ پاک ہو۔ اس پر کسی کا کوئی احسان نہیں ہے جس کا بدلہ اتارتا ہو بلکہ وہ تو اپنے بلند رب کی رضا کے حصول کیلئے دیتا ہے اور عنقریب وہ راضی ہو جائے گا‘‘۔ (سورۃ اللیل: 17 تا 21)
شیخ سعدی شیرازی بیان کرتے ہیں کہ ایک شخص بادشاہ کا باورچی تھا۔ اسکے خاندان کا گزر بسر شاہی محل سے لائے گئے کھانے پر تھا۔ ایک دن اس کی بیوی نے کہا کہ وہ کھانا لے کر آئے‘ بچے بھوکے ہیں۔ باورچی نے کہا: آج کھانا نہیں آئے گا کیونکہ بادشاہ نے (نفلی) روزہ رکھا ہے‘ شاہی باورچی خانہ بند ہے۔ بیوی بولی: بادشاہ کے روزے کی وجہ سے ہمارے بچے بھوکے رہیں اس سے بہتر تھا وہ روزہ نہ رکھتا۔ روزہ اسے زیبا ہے جس کے دسترخوان سے صبح شام غربا اور مساکین کھانا کھاتے ہوں۔ اللہ تعالیٰ نے روزے کے اصل مفہوم سے آگاہی کے بغیر روزہ رکھنے کو محض فاقہ کشی سے تشبیہ دی ہے۔ ماہِ صیام ایک طرف ہمارے جسم و روح کی طہارت کا ذریعہ بنتا ہے تو دوسری طرف زندگی کی لذتوں سے محروم انسانیت کی بھلائی اور دلجوئی کا سبب بنتا ہے۔