انسانی زندگی میں شاید ہی کوئی اور ایسا لفظ ہو جس کے گرد ہر شخص اپنے خوابوں کا اِک جہان آباد کرتا ہو، حسرتوں کے چراغ جلاتا ہو، آرزوئوں اور امنگوں کی دنیا آباد کرتا ہو یا خواہشوں کے سمندر کی گہرائیوں سے ارمانوں کے گوہرِ نایاب تلاش کرتا ہو۔ کون ہے جسے اس عالمِ آب و گِل میں محبت کے گلشن میں کھلنے والے پھولوں سے پیار نہ ہو یا عزت و آبرو، شان و شوکت، جاہ و جلال اور مقام و مرتبہ کی تمنا نہ ہو۔ بچپن سے لڑکپن، جوانی سے بڑھاپے یعنی گود سے گور تک ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پہ دم نکلے۔ ان خواہشوں کے ریلے میں اور حسرتوں کے جھمیلے میں ہر مرد و زن اپنی تمام عمر گزارنے پر مجبور ہے۔ پیدائش کے ساتھ ہی اچھی تعلیم کی تمنا، تعلیم و تربیت کے سنگلاخ راستوں سے گزرنے کے بعد فکرِ معاش کی گہری گھاٹیوں میں اترنے کا عمل شروع ہو تا ہے اور روزگار کی تلاش ہمہ وقت بے چین کیے رکھتی ہے۔ جان جوکھوں میں ڈال کر دن رات ایک کر کے روزگار ملا تو شادی کی رسومات اور لوازمات نے آلیا۔ شادی ہوئی تو اولاد، اولاد ملے تو پھر صالح اولاد کی تمنا۔ اس کے بعد ان کی تعلیم، پرورش اور کامیابیوں کے خواب زندگی کو عذاب بنا دیتے ہیں۔ ان سب امور کی انجام دہی میں جو لفظ ہمہ وقت برسرِ پیکار نظر آتا ہے وہ ''اگر‘‘ ہے۔ اگر ایسا ہو جائے تو بات بن جائے، اگر ایسا نہ ہو تو کیا ہو؟ اگر ایسا نہ ہوا تو کیا ہوگا اور اگر ایسا ہو گیا تو پھر کیا ہوگا؟ اگر ایسا نہ ہو تا تو کیا ہوتا اور اگر ایسا ہو جاتا تو زندگی کی کہانی کتنی مختلف ہوتی؟ بس یہی لفظ ''اگر‘‘ ہمیں دن رات ، صبح و شام اپنے طلسماتی حصار میں جکڑے رکھتا ہے۔
پیدل چلنے والا سائیکل سوار پر رشک کرتا ہے کہ اگر وہ سائیکل اس کے نصیب میں لکھا ہوتا اور جو سائیکل کا مالک ہے وہ اس کی جگہ پیدل راستوں کی دھول چاٹتا۔ سائیکل سوار یہی رشک موٹر سائیکل والے کو دیکھ کر دہراتا ہے اور اس کے دلِ ناشاد میں ناشکری کے شگوفے پھوٹتے ہیں اور یہ سوچنا شروع کرتا ہے کہ اگر سائیکل کے بجائے وہ موٹر سائیکل کا مالک ہوتا تو زندگی بڑی آسان ہوتی۔ موٹر سائیکل والا گاڑی‘ گاڑی والا بڑی گاڑی اور بہت بڑی گاڑی کا مالک ذاتی جہاز کی ملکیت کا خواہش مند ہے۔ پھر جہاز پر دسترس رکھنے والے ان پر رشک کرتے ہیں جن کے پاس ایک سے زیادہ جہاز ہیں۔ ہر سانس میں لفظ ''اگر‘‘ اُن کے ارمانوں کی ترجمانی کرتا ہے۔ غریب امیر کو دیکھ کر تلملا تا ہے تو مریض صحت مند کو حسرت کی نگاہوں سے دیکھتا ہے۔ درمیانی شکل والا اپنے سے زیادہ حسین چہرے پر فدا ہونا چاہتا ہے تو حسن کی دیوی سچے پیار کی متلاشی نظر آتی ہے۔ زمانہ طالب علمی میں ہر طالب علم اپنے سے زیادہ نمبر لینے والے کی جگہ لینا چاہتا ہے۔ ملازمت کرنے والا اپنے سے زیادہ تنخواہ پانے والے سے دشمنی مول لینے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتا۔ نافرمان اولاد کے والدین قابل، فرمانبردار اور نیک بچوں کے ماں باپ کو دیکھ کر یہی سوچتے ہیں کہ اگر وہ نیک سیرت بچے ان کے ہاں پیدا ہو جاتے اور ان کے آوارہ چشم و چراغ کسی اور کی زندگی عذاب بناتے تو کیا ہوتا۔
لفظ ''اگر ‘‘ہے کہ ہر لمحے، ہر حال میں ہمارا تعاقب کرتا ہے۔ غم کے لمحات میں بھی یہ ہمارا ساتھی ہے اور خوشی کی گھڑیوں میں یہ ہمارے ساتھ ساتھ رہتا ہے۔ ہم یہ سوچنے لگتے ہیں کہ اگر وقت ٹھہر جائے اور ہماری خوشیوں کی ساعتیں لمبی ہو جائیں، غم کے بادل کسی اور چھت پر جا برسیں۔ مایوسی، پریشانی، ناامیدی اور ناکامی کسی اور کا دروازہ کھٹکھٹائے اور ہمارے آنگن میں سارا سال گلاب رُت کے بسیرے ہوں۔ اگر ایسا ہو جائے تو کیا ہو؟ بس یہی لفظ ہماری زندگی کی کہانی کا مرکزی کردار بن کر ہمیں یہ اور وہ، اِس اور اُس کے درمیان الجھائے رکھتا ہے۔
دراصل ہماری زندگی حاصل سے لاحاصل کی طرف مسلسل سفر کا نام ہے اور ہم اُسی دائرے میں بار بار گھومتے رہتے ہیں۔ جو مل جائے وہ مٹی ہے اور جو نہ ملے وہی سونا ہے۔ جو میسر ہو جائے وہ بھول جاتا اور وقت کے راستوں کی دھول بن جاتا ہے۔ جو نہ ملے اور جب تک نہ ملے وہی ہمیں دن کو بے قرار اور رات کو بے چین کیے رکھتا ہے۔ انسان حاصل اور لاحاصل کے درمیان فٹ بال بن جاتا ہے۔ حسرتیں، ارمان، خواہشات ، خواب اور آرزوئوں کے لامتناہی سلسلے اس لفظ ''اگر‘‘ کی شاطرانہ چالوں کا شکار بنے رہتے ہیں۔ جسے عزت مل جائے اسے دولت کی خواہش ہوتی ہے۔ جو دولت مند ہو جائے وہ شہرت کی لیلیٰ کا مجنو ں بن جاتا ہے۔ عزت، دولت اور شہرت‘ تینوں ایک وقت میں مل جائیں تو کبھی اولاد ہاتھ سے نکل جاتی ہے تو کہیں صحت ساتھ چھوڑ دیتی ہے اور سب کچھ ہونے کے باوجود بھی کچھ دکھائی نہیں دیتا۔
قصہ مختصر! یہ عجیب منحوس لفظ ہے کہ بسترِ مرگ پر بھی پیچھا نہیں چھوڑتا بلکہ شاید وہاں اس کی کارروائیاں شدت اختیار کر جاتی ہیں۔ تمام ادھورے خواب، ساری ناکام محبتیں، ناتمام خواہشیں اور نارسا ارمانوں کے دکھ بیک وقت حملہ آور ہوتے ہیں اور اس شخص کی بے بسی اور بے کسی کا مل کر مذاق اڑاتے ہیں۔ کبھی وہ سوچتا ہے کہ اگر اس نے ناحق مال نہ کھایا ہوتا، اگر اس نے رزقِ حلال پر کفایت کی ہوتی تو یقینا اس دلِ مضطر کی دھڑکنیں تیز نہ ہوتیں۔ کبھی یہ خیال اسے بے چین کرتا ہے کہ اگر اس نے غریب، بے بس اور اپنے سے کمزور لوگوں پر ظلم نہ ڈھایا ہوتا، یا دورانِ ملازمت لوگوں کو ناجائز ہراساں کر کے محض دھونس جما کر اپنی ستم کاریوں کا بازار نہ گرم کیا ہوتا تو شاید آج وہ اس طرح زندگی کی سانسیں نہ گن رہا ہوتا۔ وہ یہ سوچ کر موت سے پہلے کئی مرتبہ مرتا ہے کہ اگر اس نے زندگی اس انداز سے نہ گزاری ہوتی، اپنی ترجیحات کا تعین ایسے نہ کیا ہوتا، اگر اس نے درست فیصلے کیے ہوتے، اگر اس نے جھوٹ، مکر، فریب، فراڈ کے بجائے سچ اور راست گوئی کو اپنا شعار بنایا ہوتا تو اس کی زندگی زیادہ باوقار اور موت کہیں زیادہ حسین ہوتی۔
اس کی سب سے بڑی اور آخری خواہش یہ بھی ہو سکتی ہے کہ اگر یہ زندگی اسے دوبارہ مل جاتی تو وہ اسے ایک بالکل نئے اور مختلف انداز سے ترتیب دیتا، وہ غلطیاں اور ناپسندیدہ حرکتیں نہ کرتا، گناہوں سے لتھڑی زندگی گزارنے کے بجائے صراطِ مستقیم کا مسافر بنتا۔ وہ مال و زر کے انبار لگانے کے بجائے زکوٰۃ، صدقہ، خیرات اور صلہ رحمی کے ذریعے غریب اور بے یار و مددگار لوگوں کی زندگیوں میں آسودگی کا سبب بنتا۔ حرس و ہوس، طمع، لالچ، خود غرضی کے بجائے وہ انسانیت کی بے لوث خدمت کو اپنا شعار بناتا۔ وہ لوٹ کھسوٹ، ذخیرہ اندوزی، ملاوٹ، ناپ تول میں کمی اور گراں فروشی کے بجائے جائز منافع اور رزقِ حلال کو اپنا وتیرہ بناتا۔ وہ انسانی رشتوں کو روپے پیسے پر فوقیت دیتا مگر یہ سب محض دل بہلانے کی باتیں ہیں کیونکہ زندگی کا پہیہ واپس نہیں مڑتا اور نہ ہی وقت کا سیلِ رواں کبھی رکا ہے۔
لفظ ''اگر‘‘ کاش کا روپ دھار کر پچھتاوے کی چادر اوڑھ لیتا ہے اور انسان کے پاس آہ و بکاکے سوا کچھ بھی نہیں بچتا۔ مولانا جلال الدین رومی بیان کرتے ہیں کہ یہ دنیا فانی ہے اور یہ کسی کی ملکیت نہیں ہو سکتی۔ تقویٰ اور پرہیز گاری ایسی چیزیں ہیں جو انبیاء کرام کا ورثہ ہیں۔ پس تم انبیاء کرام کے وارث بنو نہ کہ اس فانی دنیا کے۔